ازقلم: صابر رضا محب القادری نعیمی کشن گنجوی
جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خوں ہم نے دیا
جب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں
حضرت شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی مفتی عنایت حسین کاکوروی مفتی صدرالدین آزردہ دہلی حضرت علامہ سید شاہ کفایت علی کافی مرادآبادی حضرت علامہ رضا علی خان بریلوی حضرت مولانا احمد ﷲ مدراسی مفتی مظہر کریم دریا بادی مولانا حسرت موہانی حافظ وزیر علی مولانا سرفراز علی ٹیپو سلطان مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر مولانا آزاد نواب خان بہادر اشفاق ﷲ خان جنرل بخت وغیرھم
ہزاروں علماء ومشائخ اور مجاہدین وغازیان کی سرفروشانہ جذبات اور قربانیوں کے نتیجے میں بھارت کو آزادی ملی
لیکن افسوس آج ہماری غیرت وحریت کو للکارا جارہا ہے اور ہماری حب الوطنی پر ثبوت مانگنے کی ناپاک جسارت کی جارہی ہے
ملک و انسانیت دشمن عناصر کو سمجھنا چاہیئے کہ ہماری وطن دوستی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ خاک وطن میں ہمارے آباء و اجداد اور مذہبی رہنماؤں کا خون شامل ہے ہم نے اپنے لہو سے اس ملک کو لالہ زار بنایا ہے
ملک کی حفاظت کی خاطر ہمارے قربان کیے ہوئے جسموں کی ہڈیاں آج بھی یہاں دفن ہیں ہم نے ہڈیوں کو نہ ہی تو دریا برد کیا اور نہ ہی نذر آتش کیا ہے کہ وہ جل کر گل کر ہواوں میں تحلیل ہو جائیں بلکہ وہ آج بھی موجود ہیں
اس لیے انتہا پسند ظالم فسطائی اپنی اوقات میں رہے ہمارے جسم کے ملبوں پر نفرت کی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش نہ کرے
ہماری ہڈیوں پر پتھر اور اینٹ سمجھ کر اپنے ہوس واقتدار کی دیوار کھڑی کرنے کا خواب نہ دیکھے
ہم اسی مٹی سے تھے ہیں اور رہینگے مادر وطن کے کی حفاظت میں سب کچھ کرگذرینگے لیکن مادر وطن کو غداروں سے داغدار نہیں ہونے دینگے
آہ حالات کی ستم ظریفی کہ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے تقاریب سال میں دوبار آتے ہیں اور آج ملک کو آزاد ہوئے 73سال ہوگیے لیکن باوجود قربانی سرفروشی کے ہمیں شک کی نظروں سے ہی دیکھا جارہا ہے اور مجاہدین آزادی کا ایک بڑا طبقہ جس کا تعلق ہم مسلمانوں سے ہے انہیں نظرانداز کیا جارہا ہے
آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع سے ان کا کماحقہ ذکر تک نہیں کیا جاتا بلکہ ہم نے تو دیکھا ہے کہ لوگ نام لینا تک گوارہ نہیں کرتے
کیا یہ تاریخ اور مادر وطن اور مسلم مجاہدین آزادی کے ساتھ ظلم نہیں ہو رہا ہے یقینا یہ ایک بڑا ظلم اور گھناونی سازش ہے
اور یہیں تک بس نہیں ہے بلکہ اسکول کالج وغیرہ کے نصاب سے بھی دھیرے دھیرے مسلم مجاہدین کے نام اور کام کو ہٹانے کا سلسلہ جاری ہے
اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو اپنے جانباز مسلم مجاہدین کے نام اور کام سے دنیا جہاں کو واقف کرائیں
اور اس کے لیے تاریخ مدون کریں تفصیلی حالات لکھیں اسکول کالج کے نصاب میں ان شخصیات کے کارناموں کو شامل کرنے کی پرزور کوشش کریں
اور 15اگست 26جنوری کے تقاریب میں ان قائدین آزادی کے خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی روح کو ایصال ثواب کریں
اپنا اور اپنی نسلوں کا رشتہ ان کی تاریخ سے مربوط کریں
یہ سب اس لیے بھی ضروری ہے کہ دوام وبقا اسی میں ہے۔
جو قوم اپنی تاریخ کو بھلا دیتی ہے
صفحہ دہر سے وہ خود کو مٹا دیتی ہے
ماضی حال اور مستقبل کا ہمارا انقلابی نعرہ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اور مادر وطن کی خوبصورت گنگا جمنی تہذیب میں بلا تفریق مذہب وملت ذات برادری رنگ ونسل سب کے لیے ہمارے بزرگوں نے ایک ہی پیغام دیا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستان ہمارا
یہ چمن یہ گلشن مختلف رنگ ونسل کا باغ تمہارا ہمارا سب کا تھا ہے اور رہیگا
ہم نے ہمیشہ سے ملک کو سب کا ہے کہا لیکن ایک وہ قوم ہیں جو صرف اپنا کہنے پر تلی ہوئی ہے
حالات کا یہ بھی ایک رخ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا
اس منفی سوچ اور غلط رخ کو صحیح سمت دینے کے لیے جمہوریت کے علمبرداروں کو ایک ساتھ میدان عمل میں آنا چاہئیے اور بتانا چاہئیے کہ یہ ملک سب کا ہے۔
خاص یوم آزادی اور یوم جمہوریہ پر ہم سب برادران وطن کو ملک کی جمہوری اقدار وروایات اور پیار ومحبت کی بقا کی خاطر یہ عہد کرنا چاہئیے کہ ہم کسی بھی صورت جمہوریت کے قاتلوں کو برداشت نہیں کرینگے جبر وتشدد کو وطن عزیز میں پنپنے نہیں دیں گے۔
اس حوصلے کے ساتھ کہ ؏
دل دیا ہے جاں بھی دیں گے اے وطن تیرے لیے