اصلاح معاشرہ گوشہ خواتین

سود

تحریر: بنت مفتی عبدالمالک مصباحی، جمشیدپور

ایک بڑے امیروں کے شہر کی بہت غریب بچی بڑے غمگین لہجے میں ہیلو باجی! کرتے ہوئے دبی آواز میں سلام کرتی ہے اور خیرت پوچھنے کے بعد کہتی ہے :
باجی! پریشان حال جو بہت غریب ہو اس کی بیٹی کی شادی ڈھیر سارے بارات کی ڈیمانڈ کے ساتھ بڑی مشکل سے کہیں طے ہوئی ہے اب وہ شادی کے اخراجات لیے "سود” لے سکتا ہے جب کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ ہو –
میں نے کہا : سود کے بجائے اپنے رشتہ دار اور متعلقین میں سے کسی سے قرض لے سکتے ہیں سود کی اجازت نہیں ہے –

اس پر ان کا تڑپا دینے والا جواب یہ تھا کہ باجی! رشتہ اور متعقلین میں سے کوئی ہمیں قرض نہیں دیتا یہ سوچ کر کہ یہ غریب ہے واپس نہیں کریں گے اب ہمارے لیے سود لینے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہے بتائیں ہم کیا کریں؟
واقعی_اس کی پریشانیوں کو سن کر دل بیٹھا جا رہا تھا کہ وہ کہہ رہی تھی :
میرے ضعیف باپ چھ مہینوں سے بیمار ہیں لیکن شادی کے لیے پیسہ جمع کرنے کے چکر میں اپنی دوا نہیں لے رہے ہیں اس کے باوجود آج شادی کو ہفتہ عشرہ بچا ہے مگر رقم اکٹھا نہ ہو سکی؛ نہ ہی کوئی قرض دینے کو تیار ہے؛ پھر امداد تو بہت دور کی بات ہے –

اس پریشان حال کو میں نے دلاسا دیا اور اپنی طرف سے جتنا ہو سکا سہارا دیا مگر اس کی الجھی الجھی دبی دبی آواز ابھی بھی کانوں میں گونج رہی ہے اور فکر ستا رہی ہے کہ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے؛
ایک وہ دور تھا جب مسلمان کے پورے پورے ملک میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا اور آج یہ وقت ہے کہ مسلمان سود لینے پر مجبور ہو رہے ہیں؛
آج جنھیں فرض زکوٰۃ بھاری لگ رہی ہے بھلا انھیں امداد اور صدقہ و خیرات کیا یاد رہے گا؛
مگر یاد رکھیں! کہ__اگر آپ امداد نہیں کر سکتے تو غرباء کو کم از کم قرض دینے میں دریغ نہ کریں وہ آج نہیں تو کل قرض ادا کر دیں گے اگر دیر بھی لگائے تو آپ غم نہ کھائیں؛ دیکھیں اللہ کے رسول – ﷺ – نے کیا فرمایا ہے؟ آپ – ﷺ – فرماتے ہیں : "جس نے قرض کی ادائیگی کے وقت سے پہلے تنگدست کو مہلت دی اسے روزانہ اتنا مال صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا اور جس نے وقتِ ادائیگی کے بعد مہلت دی اسے روزانہ اس سے دُگنا مال صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا” – (مجمع الزوائد ،الحديث ٦٦٦٤، ج٤، ص٢٣٩)

یہ دیکھا آپ نے غرباء قرض کی ادائیگی میں جتنی تاخیر کریں گے اخروی بینک میں اتنا ہی اضافہ ہوتا رہے گا؛ اسی لیے قرض خواہوں کو اپنے دروازے سے بہانے بنا کر پھیرا نہ کریں؛ یاد رکھیں ہمارے صاحب معراج آقا نے ارشاد فرمایا ہے : "رأيت ليلة أسري بي على باب الجنة مكتوباً الصدقة بعشر أمثالها، والقرض بثمانية عشر، فقلت: يا جبريل ما بال القرض أفضل من الصدقة؟ قال: لأن السائل يسأل وعنده، والمستقرض لا يستقرض إلا من حاجة” – (ابن ماجہ، الحدیث ٢٤٣١،ج٣،ص١٥٤) یعنی معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا کہ صدقہ کا ثواب دس گنا اور قرض (دینے) کا اٹھارہ گنا؛ تو میں نے جبریل سے کہا کہ : قرض کو صدقہ سے افضل کس بنا پر قرار دیا گیا؟ تو انھوں نے عرض کیا : اس وجہ سے کہ مانگنے والا (بسا اوقات) بے حاجت کے بھی مانگ لیتا ہے لیکن قرض لینے والا بغیر حاجت اور مجبوری کے قرض نہیں لیتا – یہ دیکھیں! قرض خواہوں کو قرض دے کر معاشرے کو سود کی نحوست سے بچانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے کتنی وضاحت اور فضیلت کے ساتھ ترغیب دلائی ہے مگر ہم ہیں جو بہانے پر بہانے بنائے پھرتے ہیں اور غریبوں کو سود لینے پر مجبور کرتے ہیں –
اے کاش_حب جاہ و مال کے ساتھ ساتھ حب اسلام اور خوف آخرت بھی نصیب ہو جائے –
(نوٹ: شادی کی بے جا رسومات کے لیے قرض لینا بھی اگر چہ مناسب نہیں لیکن اس دور کی حقیقت سے سب واقف ہیں-)

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے