نتیجۂ فکر: محمد جیش خان نوری امجدی، مہراج گنج
آپ کے در کا ہوں میں ادنیٰ سا منگتا خواجہ
ہو مرے گھر بھی کبھی آپ کا آنا خواجہ
صرف میں کیا یہ جہاں بھی ہے دوانہ خواجہ
کیوں نہ ہو عرش بریں پر ترا چرچا خواجہ
دل کی حسرت ہے کبھی درپہ بلانا خواجہ
دیکھ لوں میں بھی کبھی آپ کا روضہ خواجہ
ہو گئے کتنے ہی اسلام میں داخل کفار
دیکھ کر آپ کا کردار و کرشمہ خواجہ
مل ہی جائے گا مجھے خلد بریں محشر میں
ساتھ میرے جو ترا ہوگا وسیلہ خواجہ
اپنی پلکوں سے بہاروں میں ترے روضہ کو
ہے مرے دل کی یہی کب سے تمنا خواجہ
نار دوزخ سے وہ بچ جائے گا ہے مجھکو یقیں
جو بھی دنیا میں ہوا ہے ترا شیدا خواجہ
ایک اک زائرِ اجمیر ہے کہتا نوری
خوب بہتا ہے ترے فیض کا دریا خواجہ