تحریر: سید شہباز اصدق چشتی
دارالعلوم قادریہ غریب نواز (ساؤتھ افریقہ)
انسان کا مقصد تخلیق عبادت سے عبارت ہے یعنی اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کے لیے فرائض و واجبات اور اومر الہیہ کی بجاآوری کرنا ،منکرات و منہیات سے اجتناب کرنااور قرآن و سنت کے مطابق زندگی کی صبح و شام کرنا حضرت انسان کے وجود مسعود کا مقصد اصلی ہے ۔ارشاد ربانی ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات۔۵۶)ترجمہ : میں نے جن اور آدمی اتنے ہی اسی لیے بنائے کہ میری بندگی کریں ۔اس آیت کریمہ سے واضح طور پر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری تخلیق کا اصل مقصد عبادت ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ملت اسلامیہ کا بچہ بچہ اس حقیقت سے آگاہ بھی ہے عام ازیں کہ نفس و شیطان کے شر سے ملت اسلامیہ کا بڑا طبقہ عبادت سے غفلت برتتا ہے ۔
یہاں یہ امر بھی مسلم اور حقیقت پر مبنی ہے کہ انسانی زندگی کے لیے ضروریات زندگی کا ہونا بھی ناگزیر ہے ۔جس کے فقدان سے انسانی زندگی کا ہر شعبہ بے حد متاثر ہوتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ مذہب اسلام نے جہاں عبادت و ریاضت کا پر زور حکم ارشاد فرمایا ہے وہیں معیثت اور ایکنومی کی بحالی کے لیے تگ و دو اور سعی پیہم کرنے کی بھی تلقین و تاکید فرمائی ہے۔ اس سلسلے کی چند احادیث ذیل میں دیدۂ عبرت نگاہ سےپڑھئے:صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں’’اذا صلیتم الفجر فلا تناموا عن طلب ارزاقکم ‘‘(الجامع الصغیر۔حدیث نمبر ۷۲۷)یعنی :جب نماز فجر پڑھ لو تو اپنے رزق کی تلاش سے غافل ہو کر سو نہ جاؤ۔انس بن مالک کی روایت میں ہے ’’طلب الحلال واجب علی کل مسلم ۔(المعجم الاوسط۔۸۶۱۰)یعنی رزق حلال حاصل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے ۔
مذکورہ احادیث کی روشنی میں یہ بات دو دو چار کی طرح منقح ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی اقتصادی بدحالی دور کرنا اور اپنی معیشت کو بہتر بنانا اسلامی نقطہ نظر سے درست بلکہ دین اسلام کا مطلوب ہے ۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے باضابطہ اصول و قوانین بھی بیان فرمائے ہیں اور طریقہ و آداب سے بھی روشناس کرایا ہے ۔جو اس وقت میرا موضوع نہیں ۔درج بالا احادیث کے ذکر کرنے سے میرا مقصود بس اس قدر ہے کہ اسلام نے رزق حلال کی تلاش اور ضروریات زندگی کے لیے جد و جہد کرنے پر زور دیا ہے کیونکہ وہ انسانی فلاح و بہبود کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مترادف ہے کہ اس سے غفلت اور بے پرواہی سوائے نقصان و خسران کے کچھ نہیں ۔بلکہ قوم کے زوال و انحطاط کا سبب ہے ۔ڈاکٹر اقبال مرحوم معیشت اور اقتصادیات کی اہمیت و افادیت سے ملک و ملت کو آگاہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :بالخصوص اہل ہند وستان کے لیے تو اس علم (علم الاقتصاد)کا پڑھنا اور اس کے نتائج پر غور کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہاں مفلسی کی عام شکایت ہو رہی ہے ۔ہمارا ملک کامل تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی کمزوریوں اور نیز ان تمدنی اسباب سے بالکل نا واقف ہے جن کا جاننا قومی فلاح اور بہبودی کے لیے اکسیر کا حکم رکھتا ہے ۔انسان کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جو قومیں اپنے تمدنی اور اقتصادی حالات سے غافل رہی ہیں ان کا حشر کیا ہوا ہے ،ابھی حال میں مہاراجہ بڑودہ نے اپنی ایک گراں بہا تقریر میں فرمایا تھا کہ اپنی موجودہ اقتصادی حالت کو سنوارنا ہماری تمام بیماریوں کا آخری نسخہ ہے اور اگر یہ نسخہ استعمال نہ کیا گیا تو ہماری بربادی یقینی ہے ۔پس اگر اہل ہندوستان دفتر اقوام میں اپنا نام قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اہم علم کے اصولوں سے آگاہی حاصل کرکے معلوم کریں کہ وہ کون سے اسباب ہیں جو ملکی عروج کے مانع ہو رہی ہیں ۔‘(دیباچہ علم الاقتصادص ۵)مسلمان ہونے کی حیثیت سے اخروی سعادت کے لیے عبادت و ریاضت اور اطاعت خداورسول لابدی ہے جبکہ اقوام عالم میں اپنی عظمت رفتہ بحال رکھنے کے لیے اقتصاد و معیشت کو بہتر سے بہتر بنا نا بھی لازم و ضروری ہے لیکن مقام تاسف ہے کہ عبات و معیشت ہر دو شعبہ میں حیرت انگیز حد تک مسلم طبقہ غفلت کا شکار ہے ۔نہ ہم عبادت و رضائےرب کی طرف مائل ہیں اور نہ ہی معیشت و اقتصادیات کے میدان میں ہماری کوئی کار کردگی ہے ۔عبادت سے تغافل و تکسال کا حال تو ناگفتہ بھی ہے ۔برسوں پہلے عبادت سے مسلمانوں کی بے رغبتی کا رونا روتے ہوئے ڈاکٹر اقبال مرحوم نے کہا تھا ؎
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکے۔
باجماعت مسجد میں نماز پڑھنے والوں پر یہ امر مخفی نہیں ہے کہ نماز پنجگانہ کے وقت کا مسجد کے اندر جماعت حال افسوس ناک ہوتا ہے معدود چند کے اکثر لوگ جماعت سے غیر حاضر رہتے ہیں ،مسجد سونی پڑی رہتی ہیں جبکہ نماز کے اوقات میں لوگ ہوٹل پر گپ کرتے اور نوجوان سڑکوں پر گھومتے نظر آتے ہیں ۔مسلمانوں کی اسی بے حسی کا تذکرہ کرتے ہوئے امام احمد رضاقدس سرہ شعری زبان میں فرماتے ہیں:
دن لہو میں کھونا تجھے ،شب صبح تک سونا تجھے
شرم نبی خوف خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں ۔
ظاہر ہے کہ جس قوم کا دن لہوو لعب میں گزرے گا اورشب صبح تک سونے میں بسر ہوگی وہ قوم نہ عبادت کرکے اپنے رب کو راضی کرسکتی ہے اورنہ معیشت کے میدان میں غیر معمولی کردار ادا کرکے ملت کے لیے باعث تکسین ہوسکتی ہے۔یہی وجہ کہ ہندی مسلمان اس وقت معاشی و اقتصادی بحران سے دو چار ہیں۔ تعلیم سے ہم دور ہیں ،علم الاقتصاد سے ہمارا دور کا واسطہ نہیں ۔ہنرسے ہم خالی ہیں ۔جد و جہد ہمارا مزاج نہیں ۔مسلمانوں کی معاشی و اقتصادی بد حالی کے حوالے سچر کمیٹی کی رپورٹ پڑھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق مسلمان ہندوستان کی سب سے پچھڑی قوم ہے اور جس ک
ی معاشی ح
الت انتہائی افسوسناک ہے ۔ گو کہ اس سلسلے میں حکومت کا رویہ نا قابل بیان ہے لیکن مسلمانوں کی غفلت و بےتوجہی بھی کچھ کم نہیں ۔ہم جو کچھ کر سکتے ہیں وہ بھی نہیں کرتے ۔غفلت اور تضیع اوقات ہماری فطرت ثانیہ بن ہوچکی ہے ،جب تک ہم اپنی اس بیماری کا علاج نہیں کرتے اور تضیع اوقات اور تکسال و تغال سے باہر نہیں نکلتے ہم یوں ہی ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے ۔نہ ہم اخروی سعادت سے بہرور ہوسکیں گے اور نہ ہی دنیا میں اپنی عظمت رفتہ حاصل کر سکیں گے ۔اقبال نے سچی بات کہی
رمز باریکش بحرفے مضمر است
تو اگر دیگر شوی او دیگر است