نظامِ قدرت میں- قوموں کے عروج و زوال کا وقت بھی مقرر ہے:
تحریر : حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشید پور
رَبِّ ذُ والجَلالِ وَا لاِ کرَام
ساری کائنات کا خالق و مالک ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے خزانہ رحمت وفضل و کرم سے جو چاہتا ہے نواز تا ہے۔دولت ،شہرت،عزت، حسن وجمال، میٹھی آواز، طاقت اور حکومت وغیرہ وغیرہ۔اِن نعمتوں کو پاکر بہت سے بندگانِ خدا اس کی مخلوق کے ساتھ رحم وکرم کا برتائو رکھتے ہیں اور رب کا شکر بجا لاتے ہیں ۔ اور بہت سے رذیل(پاجی، کمینے، کم ذات) فرعون و نمرود،شداد کے نقش قدم پر چلنے لگتے ہیں اور طاقت و حکومت کے غرور ونشے میں ظلم و ستم کا بازار گرم کئے رہتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ
’’نظام قدرت میں‘‘ قوموں کے عروج وزوال کا وقت بھی مقر ر ہے۔”
قر آن مجید میں جابجا مغروروں ،گھمنڈوں،ظالموں کو کیفرو کردار تک پہنچانے کا ذکر موجود ہے رب تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فر مایا: أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْ حَآجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رِبِّہِ أَنْ آتَاہُ اللّہُ الْمُلْکَ ۔ترجمہ: اے محبوب کیا تم نے نہیں دیکھا تھا اسے جو ابراہیم سے جھگڑا اس کے رب کے بارے میں اس پر کہ اللہ نے اسے باد شاہی دی۔(القر آن سورہ البقرہ:2آیت258) (کنز الایمان)۔
(حَآجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رِبِّہِ ):آیت کریمہ میں تاریکی والوں کے بیان کے ساتھ نور والوں کے پیشوا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر رب تعالیٰ فر مارہاہے،تاریکی والوں کا پیشوا نمرود تھا۔ نمرود کو اللہ نے عظیم سلطنت عطا فر مائی تھی لیکن اس نے شکرو اطاعت کے بجائے تکبر و غرور اور سر کشی کاراستہ اختیار کیا حتیٰ کہ اپنی ’’رَ بُو بِیّتْ یعنی رب ہونے کا دعویٰ کرنے لگا‘‘۔ سب سے پہلے سر پر تاج رکھنے والا یہی بادشاہ تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پر مناظرانہ گرفت فر مائی وہ عاجز ہو گیااور ہَکَّا بَکّّا ہو گیا کوئی جواب نہ دے سکا ذلیل وخوار ہو ا۔(قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام و نمرود کا دلچسپ مناظرہ موجود ہے) حضرت امام غزالی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی کتاب احیا ئُ العلوم میں مناظرے کی تفصیل پر بحث فر مائی ہے ضرور مطالعہ فر مائیں۔( علومُ الدین،کتاب العلم،بیان آفات المناظرۃ۔۔۔ الخ،1/69)۔
حضرت مولانا الشاہ احمد رضا خان ،بمشہور اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں ’’ جو تمام فنون کا ماہر ہو،تمام پیچ جانتا ہو،پوری طاقت رکھتا ہو، تمام ہتھیار پاس ہوں اس کو بھی کیا ضرورت کہ خواہ مخواہ بھیڑیوں کے جنگل میں جائے، ہاں اگر( اس ماہر عالم کو) ضرورت ہی آ پڑے تو مجبوری ہے۔ اللہ عز وجل پر توکل کرکے اِن ہتھیار سے کام لے۔( ملفوظات اعلیٰ حضرت،ص:434)۔
آجکل tvڈیبیٹ میں کم علم علما پیسے کی لالچ میں جاکر اپنے ذلیل توہوتے ہیں اسلام کو بھی بدنام کراتے ہیں یہ کام’’ مباحثہ، مناظرہ،بحث کرنا‘‘ ماہر عالمِ دین کا کام ہے ،نہ کہ کم علم جا ہلوں کا؟۔
نئی آبادی پالیسی کا اعلان، کوئی حسرت رہے نہ باقی:
اتر پردیس میں آبادی کنٹرول کرنے کی پالیسی کا اعلان ایک تیر سے کئی شکار کرنے کا کا منصوبہ ہے، بڑھتی آبا دی ترقی میں رکاوٹ کا واویلا کرنے والے خدائی نظام ِقانون کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ ہر ذی روح کو زندہ رہنے کا حق ہے چاہے وہ کوئی بھی جنس ہو، اسلامی شریعت اسے زندہ درگور کرنے یا لڑکی کی وجہ سے حمل گرا کر اس کی شمع حیات کو گل کرنے کی اجازت قطعی نہیں دیتی۔ چناچہ اسلام نے زمانہ جاہلیت(حضور کی بعثت سے پہلے کا زمانہ) میں رائج زندہ در گور کرنے والے عمل کی سخت مذمت کی ہے،قرآن مجید تحدید(حدبندی، حدوں کا تعین) آمیز لہجے میں کہتا ہے:وَإِذَا الْمَوْؤُودَۃُ سُئِلَتْ (8) بِأَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ ۔تر جمہ: اورجب جانوں کو جوڑا جائے گا۔ اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔ کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا؟۔(قر آن،سورہ تکویر:81آیت7 سے 8) جب اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جو زندہ دفن کی گئی ہوگی جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا اور آج جدید زمانے میں پیٹ میںٹہرے حمل جنین (لڑکی،لڑ کا) معلوم کرکے لڑکی ہونے پر اسقاطِ حمل،حمل گرانا Abortion, قیامت میں حشر کے میدان میں پوچھا جائے گا اور اس عظیم جُرمِ کو کسی حالت میں بخشا نہیں جائے گا ۔اور نہ ہی دنیا میں بھی کسی حالت میں اسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے،اسلام میں لڑکی ہونا جُرم نہیں،یاد رہے جتنی عزت اسلام نے عورتوں کو دی ہے وہ کسی اور مذہب نے نہیں دی ہے۔اسی طرح مفلسی و تنگ د ستی کی وجہکر بچوں کی پیدائشی عمل کو روکنا،یا حمل گرادینا،بچے کو بیچ دینا وغیرہ وغیرہ اِنتہائی بڑا گناہ،گھنائونا اور شرمناک و قابل مذمت کام ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَکُمْ خَشْیَۃَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُم إنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْء اً کَبِیْراً۔تر جمہ: اور غربت کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی، بیشک انہیں قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔( القر آن،سورہ بنی اسرائیل:17آیت31)۔(وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَکُمْ :اوراپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔)قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر کبیرہ گناہوں کے بارے میں واضح طور پر حکم دیا ہے کہ ان سے بچو، چنانچہ یہاں بیان کردہ پہلا گناہ اولاد کو قتل کرنا ہے۔
آپ غور فر مائیں کہ پہلی آیت میں ماں باپ کے رزق کا ذکر ہے پھر اولاد کے رزق کا لیکن دوسری آیت میں اس کے برعکس پہلے اولاد کے رزق کا ذکر ہے پھر ماں باپ کا۔
رزق کا ضامن رب تعالیٰ ہے:
پہلے زمانہ میں اِنسان مفلسی اور تنگ دستی سے دوچار تھا اور چونکہ اس زمانے میں انسان سب سے زیادہ اہمیت اپنی ذات کو دیتا تھا لہذا اس کی ہلاکت سے ڈرتا تھا اور آج بھی کم وبیش ایسی حالت میں اِنسان رہ رہا ہے رب تعالیٰ اِطمینان( ڈھارس، تسلّی،دلاسا) دلا رہا ہے کہ پہلے وہ اس کے رزق کا ہے اور دوسرے درجے میں بھی اس کی اولاد کے رزق کا بھی اپنے فضل وکرم پر لیا ہو اہے: نَّحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاہُمْ : اے مفلس ونادار اِنسان ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور تمھاری اولاد کو بھی رزق عطا کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ احادیث طیبہ وبزرگوں کی بیاض میں اولاد کی پرورش و رزق کے معاملات کا تفصیلی ذکر موجود ہے اور قر آن مجید میں تو105 جگہوں پر آیا ہے۔اولاد کے قتل یا اولاد کی پیدائش میں رکاوٹ کو وحشی بہیمانہ اور اِنسانیت سوز طریقوں(حمل گرانے کو) اسلام نے سختی سے منع کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے اور گناہِ عظیم قرار دیا ہے۔ حیاتِ اِنسانی کے لیے اسلام نے بہترین فکر دی ہے زندگی فقط ایک حق ہی نہیں بلکہ یہ ایک امانت الٰہی ہے جسے رب تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق بشمول انسانوں کو عطا فر مائی اور ودیعت (ڈپوزٹ، امانت،سپرد) کی ہے۔ مسلمانوں کو اللہ کی دی ہوئی امانت کوحفاظت سے رکھنا ،پرورش کرنا زیور تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنا ہے،اپنا فرض نبھانا ہے کوئی دو کا قانون لائے یا ایک کا خدائی نظام کے خلاف کوئی فلاح پانے والا نہیں۔اللہ ہم سب کو احکامِ خدا وندی کی پابندی اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کی عزت کرنے کی توفیق رفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین۔