تحریر: خلیل فیضانی
استاذ: دارالعلوم فیضان اشرف باسنی
برتر از اندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اورکبھی تسلیمِ جاںہے زندگی
تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہمدواں، ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پُوچھ
جُوئے شِیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
_زندگی کے حقائق ومقاصد سے آگاہ رہنا زندہ قوموں کی نشانی ہواکرتی ہے۔
احتساب ماضی اور فکر فردا سے عاری قومیں دھرتی پر چلتی پھرتی بوجھ ہوتی ہیں۔
ایک مرد مومن عقابی فکر،شاہین سی پرواز،اور سمندر سی وسعت کا حامل ہوتا ہے ۔
خیالات کی بلندی،افکار کی وسعت اور کردارکی پاکیزگی،مرد مومن کے امتیازی اوصاف ہوتے ہیں۔
علامہ ڈاکٹر اقبال نے بھی زندگی کا فلسفہ کچھ اسی انداز میں پیش کیا ہے۔ آپ انقلابی فکر کے مالک تھے ۔
قسام ازل نے آپ کو خیالات کی رفعت سے نوازا تھا آپ صرف شاعرانہ گفتار کے ہی نہیں بلکہ عملی میدان کے بھی غازی تھے۔
آپ ایک انقلابی شاعر تھے۔
کہاجاتا ہے کہ شاعر کے قول وفعل میں بلا کا تضاد پایا جاتا ہے مگر اقبال کے ہاں یہ تضاد ،علم وعمل کا حسیں سنگم بن کر قوم کی رہنمائی کرتا ہے ۔
اسرار خودی ، رموز خودی اور تلاش خودی، اقبال کی دل چسپی کے موضوعات رہے ہیں۔
وہ خودی جو مرد مومن کو عقاب سی پرواز فکر عطا کردے اقبال اسی خودی کے مداح اور قائل رہے ہیں، وہ خودی جو غرور کی مترداف ہے اس خودی کے وہ داعی نہیں ہیں بلکہ اس سے وہ بیزار ہیں ۔
اقبال کا فلسفہ حیات یہ ہے کہ
نیلگوں آسماں کی رفعتیں اور طول طویل صحرا کی وسعتیں بھی ایک مومن کی فکر کو محصور ومقید نہیں کرسکتیں۔
اقبال جمود کا درس نہیں دیتے بلکہ تحریک عمل ،ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور جہان نو سر کرنے کا مزاج دیتے ہیں
بقول انہی کے:-
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اقبال ظاہر سے سے زیادہ باطن کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہیں۔
دنیا کی ہماہمی سے نکال کر مقصد حیات کو پانے کی ترغیب دلاتے ہیں
اور اپنے من میں ڈوب کر زندگی کے سراغ تک پہنچنے کی بات کرتے ہیں ۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن۔
"خضر راہ” اقبال کی سوز وگداز سے بھری ایک نظم ہے ۔
جس میں آپ بصورتِ مکالمہ حضرت خضر علیہ السلام سے ہمکلام ہیں اور
امت کی زبوں حالی،پست خیالی،اور انحطاط فکروعمل کی وجوہات دریافت کررہے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال کی اس نظم کو پڑھ جائیے اور اپنے اندر تحریک علم و عمل کا عقابی جذبہ پیدا کیجیے ۔
ساحلِ دریا پہ مَیں اک رات تھا محوِ نظرگوشۂ دل میں چھُپائے اک جہانِ اضطراب
شب سکُوت افزا، ہَوا آسودہ، دریا نرم سَیرتھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب
جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شِیرخوارموجِ مُضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب
رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر
انجمِ کمضَو گرفتارِ طلسمِ ماہتاب
دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیکِ جہاںپیما خضَرجس کی پِیری میں ہے مانندِ سحَر رنگِ شباب
کہہ رہا ہے مجھ سے، اے جویائے اسرارِ ازل!
چشمِ دل وا ہو تو ہے تقدیرِ عالم بے حجاب
دل میں یہ سُن کر بَپا ہنگامۂ محشر ہُوا
مَیں شہیدِ جُستجو تھا، یوں سخن گستر ہُوا
اے تری چشمِ جہاںبیں پر وہ طوفاں آشکار
جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش
’کشتیِ مسکین‘ و ’جانِ پاک‘ و ’دیوارِ یتیم‘
علمِ مُوسیٰؑ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش
چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تُو صحرا نَورد
زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا و دوش
زندگی کا راز کیا ہے، سلطنت کیا چیز ہے
اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش
ہو رہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاک
نوجواں اقوامِ نَو دولت کے ہیں پَیرایہ پوش
گرچہ اسکندر رہا محرومِ آبِ زندگی
فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناؤنوش
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیؐ
خاک و خُوں میں مِل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش
آگ ہے، اولادِ ابراہیمؑ ہے، نمرُود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصُود ہے!
جوابِ خِضر
صحرا نَوردی
کیوں تعجّب ہے مری صحرا نَوردی پر تجھے
یہ تگا پوئے دمادم زندگی کی ہے دلیل
اے رہینِ خانہ تُو نے وہ سماں دیکھا نہیں
گُونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگِ رحیل
ریت کے ٹیلے پہ وہ آہُو کا بے پروا خرام
وہ حضَر بے برگ و ساماں، وہ سفر بے سنگ و مِیل
وہ نمودِ اخترِ سیماب پا ہنگامِ صُبح
یا نمایاں بامِ گردُوں سے جبینِ جبرئیلؑ
وہ سکُوتِ شامِ صحرا میں غروبِ آفتاب
جس سے روشن تر ہُوئی چشمِ جہاں بینِ خلیلؑ
اور وہ پانی کے چشمے پر مقامِ کارواں
اہلِ ایماں جس طرح جنّت میں گِردِ سلسبیل
تازہ ویرانے کی سودائے محبّت کو تلاش
اور آبادی میں تُو زنجیریِ کِشت و نخیل
پُختہ تر ہے گردشِ پیہم سے جامِ زندگی
ہے یہی اے بےخبر رازِ دوامِ زندگی
زندگی
برتر از اندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہمدواں، ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پُوچھ
جُوئے شِیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
بندگی میں گھَٹ کے رہ جاتی ہے اک جُوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی
آشکارا ہے یہ اپنی قُوّتِ تسخیر سے
گرچہ اک مٹّی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
قلزمِ ہستی سے تُو اُبھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
خام ہے جب تک تو ہے مٹّی کا اک انبار تُو
پُختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تُو
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پھُونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
زندگی کی قُوّتِ پنہاں کو کر دے آشکار
تا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیدا کرے
خاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتاب
تا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے
سُوئے گردُوں نالۂ شب گیر کا بھیجے سفیر
رات کے تاروں میں اپنے رازداں پیدا کرے
یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!
سلطنت
آ بتاؤں تُجھ کو رمز آیۂ اِنَّ الْمُلُوْک
سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادُوگری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سُلا دیتی ہے اُس کو حُکمراں کی ساحری
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز
دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری
خُونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی مُوسیٰ طلسمِ سامری
سروَری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزری
از غلامی فطرتِ آزاد را رُسوا مکُن
تا تراشی خواجۂ از برہَمن کافر تری
ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طِبِّ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری
گرمیِ گفتارِ اعضائے مجالس، الاماں!
یہ بھی اک سرمایہداروں کی ہے جنگِ زرگری
اس سرابِ رنگ و بو کو گُلِستاں سمجھا ہے تُو
آہ اے ناداں! قفَس کو آشیاں سمجھا ہے تُو
سرمایہ و محنت
بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خِضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیامِ کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہدارِ حیلہ گر
شاخِ آہُو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دستِ دولت آفریں کو مزد یوں مِلتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
ساحرِ المُوط نے تجھ کو دیا برگِ حشیش
اور تُو اے بے خبر سمجھا اسے شاخِ نبات
نسل، قومیّت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چُن چُن کے بنائے مُسکِرات
کَٹ مَرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے
سُکر کی لذّت میں تُو لُٹوا گیا نقدِ حیات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہدار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے