تحریر: آصف جمیل امجدی
وقف کی جائیداد مسلمانوں کی امانت اور ان کا مذہبی و ملی ورثہ ہے، جو صدیوں سے دین اسلام کی ترویج اور مسلم معاشرتی ترقی کے لیے وقف ہے۔ ان املاک کا تقدس اور ان کی حفاظت مسلمان قوم کی ذمہ داری ہے، اور اس میں کسی بھی بیرونی مداخلت کو مسلمانوں نے کبھی برداشت نہیں کیا۔ آج حکومت ہند کی جانب سے وقف املاک کے معاملات میں دخل اندازی ایک نہایت سنگین اور ناپسندیدہ قدم ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتا ہے بلکہ آئین کی روح کو بھی چیلنج کرتا ہے۔
حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وقف کی جائیداد کوئی ذاتی یا سرکاری جائیداد نہیں جس پر حکومت اپنی مرضی چلا سکے۔ یہ مسلمانوں کی مذہبی و روحانی ملکیت ہے اور ان کے مقدس مقامات اور اداروں کی دیکھ بھال کے لیے مخصوص ہے۔ مسلمانوں کی رائے کے بغیر کسی بھی قسم کی قانون سازی یا انتظامی حکم اس جائیداد پر لاگو کرنا مسلمانوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
شاعر نے کہا ہے:
خواب تھا جن کا حسیں، ہم وہ جہاں دیکھیں گے
وقت آنے دو، زمانے کو ہلا دیں گے ہم
مسلمان اپنی جائیداد کے تحفظ کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور مسلمانوں کے حقوق میں دخل اندازی سے باز رہے، ورنہ اس کے نتائج پورے ملک کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ مسلمان قوم نے ہمیشہ اپنے مذہبی اور ملی حقوق کے تحفظ کے لیے جمہوری اصولوں کا سہارا لیا ہے اور آئندہ بھی ہر فورم پر اپنی آواز اٹھائے گی۔
حکومت ہند کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کسی بھی وقف جائیداد پر قبضہ یا اس کے معاملات میں مداخلت ہندوستانی آئین کی بنیادی روح کے منافی ہے، جو اقلیتوں کے حقوق اور ان کی خود مختاری کی ضمانت دیتا ہے۔ حکومت کا یہ قدم نہ صرف مسلمانوں کی ناراضگی کا باعث بنے گا بلکہ ملک میں اتحاد اور ہم آہنگی کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
یہ ایک واضح انتباہ ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں کوئی بھی رائے لینے سے پہلے مسلمان قوم کی نمائندہ تنظیموں اور علما سے مشاورت کرنی چاہیے۔ بصورت دیگر، مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا کر حکومت اپنی جڑیں خود کھود رہی ہے۔
حکیمانہ فیصلے کا وقت ہے، ورنہ:
گرمیءِ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
مسلمان اپنی وقف املاک کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہیں، اور حکومت کو چاہیے کہ ان کے جذبات کا احترام کرے اور کسی بھی غلط فیصلے سے باز رہے۔