رشحات قلم : محمد ظہیر اختر رضوی غازیپور
کرب و بلا میں ڈٹ کے دکھایا حسین نے
گھر کو لٹا کہ دین بچایا حسین نے
وعدے کو پورا کر کے دکھایا حسین نے
کرب و بلا میں سر کو کٹایا حسین نے
کربل کی سر زمین پر پیاسے ہی لڑتے ہیں
حیدر کے خون ہیں یہ بتایا حسین نے
کرب و بلا کی جنگ میں اعلان یے ہوا
سر دے کے اپنا ہاتھ بچایا حسین نے
اصغر بھی لڑنے آئے تھے فوجِ یزید سے
بیٹا وہ شان والا ہے پایا حسین نے
تھرا گۓ یزید کے خیمے کے سب سپہ
خنجر کو جس گھڑی ہے چلایا حسین نے
گر چاہتے تو دوڑ کے آتا فرات بھی
صابر کی ہے یہ پیاس دکھایا حسین نے
دنیا کے صابرین اسی بات میں ہیں گم
اکبر کا لاشہ کیسے اٹھایا حسین نے
عباس پانی لے کے چلے آتے خیمے میں
پر اے فرات تجھ کو نہ چاہا حسین نے
جب تک سکینہ خود نہ سواری پہ آگئی
تب تک زمیں سے سر نہ اٹھایا حسین نے
کیسے ظہیر بھولوں گا احسانِ ان کا میں
حق راستے پہ چلنا سکھایا حسین نے