نتیجہ فکر: فرید عالم اشرفی
ہو پنہاں جس کے جگر میں تری وفا خواجہ
نہیں کرے گی پریشاں اسے بلا خواجہ
غلامِ خواجہ پیا ہوں جگر سے آئی صدا
تمہی ہو میرے ہر اک درد کی دوا خواجہ
پریشاں مت رہا کر اے مرے دلِ ناداں
کریں گے پوری یقینا ہر التجا خواجہ
ہو کیوں نہ آپ کا رتبہ بلند و بالا جب
رسول پاک سے ملتا ہے سلسلہ خواجہ
سمٹ کے آگیا کوزے میں آب ساگر کا
جو حکم اس کو تمہارا ملا ہے یا خواجہ
زمانہ کیوں نا کرے ناز سیدی تم پر
عطائے مصطفٰی ہو اور مرتضٰی خواجہ
نہیں ہے ڈر کبھی ہم جیسے بے سہارے کو
ہمارے ہند میں ہے ایک آسرا خواجہ
زمانہ تب سے مجھے بادشہ سمجھنے لگا
تمہارے در کا گدا جب سے بن گیا خواجہ
تمہاری شان فریدی بیاں کرے کیسے
ہو تم رسول مکرم کی جب عطا خواجہ