افسانہ نگار: حُسین قریشی
بلڈانہ مہاراشٹر
آج رضوانہ کے گھر پڑوس کی سہیلیاں عامر کو مبارکباد دینے آئی تھی۔ کل امتحان کے نتائج کا اعلان ہوا تھا۔ عامر نے جماعت میں تیسرا مقام حاصل کیا تھا۔ عامر جماعت ششم کا طالب علم ہے۔ وہ ہوشیار اور ذہین لڑکا ہے۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اسے کھیل میں بھی بہت دلچسپی ہے۔ رضوانہ اسے نہ صرف پڑھائی میں بلکہ اس کی پسند کے کھیل کود میں بھی مدد کرتی ہے۔ عامر کے والد وسیم ہمیشہ اپنے آفس کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی عامر سے تعلیم کے بارے میں پوچھ لیا کرتے تھے۔
ساجدہ نے کہا، "رضوانہ تم نے عامر کی تربیت بہت اچھی طرح سے کی ہے۔ وہ پڑھائی میں بھی اور کھیل میں بھی اچھے نمبرات و مقام حاصل کرتا رہتا ہے۔” ہاں!!! تم بالکل صحیح کہتی ہو۔ عامر ایک سلیقہ مند اور با اخلاق لڑکا ہے۔ وہ مدرسہ بھی جاتا ہے۔” کنیز نے بات جاری رکھتے ہوئے پُرمسرت اندازمیں کہا۔ "تمھیں بہت بہت مبارک ہو۔۔۔۔۔ رضوانہ، ماں ہوتو ایسی ۔۔۔۔۔۔۔ جو بچوں کی بہترین ترقی و تربیت کریں۔” نکہت نے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے ہوئے رضوانہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا۔ "میں تو کہتی ہوں۔ ہمیں رضوانہ سے تربیت حاصل کرنی چاہئے کہ وہ یہ سب کاموں کے لئے وقت کیسے نکالتی ہے۔ گھر کے تمام کام کاج ،بچوں کی اسکول و مدرسہ کی ذمداری، اچھے اخلاق نماز کی پابندی پر نظر، اور ہاں !!…… بچے کے پسندیدہ کھیل کود کے مواقع فراہم کرنا۔ چند ماہ پہلے اسکول میں کھیل کے مقابلے ہوئے تھے۔ اس میں بھی عامر بیڈمینٹ مقابلہ جیتا تھا۔” نیلوفر نے کھڑے ہوکر سب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
رضوانہ چائے کا ٹِرے لے کرآئی۔ اسے میز پر رکھا اور سب کو باری باری چائے کا پیالہ دینے لگی۔ رضوانہ نے کہا "آپ سبھی سہیلیوں کا دلی شکریہ ادا کرتی ہوں۔ آپ تمام کی ہمت افزائی یقیناً میرے لئے باعث فخر ہے۔ اس سے مجھے مزید محنت کی توانائی حاصل ہوتی ہیں۔” ساجدہ نے مسکراتے ہوئے کہا "وہ سب ٹھیک ہے رضوانہ ۔۔۔۔۔۔۔ مگرتم ہمیں سمجھاؤ کہ اتنی ساری ذمداریاں کامیاب طریقے سے کیسے انجام دیتی ہو؟ ابھی نیلوفر نے کہا کہ تم ہمیں اسکی تربیت دو۔۔۔۔۔۔ اس بات پر سبھی نے ہنسی کے قہقہے لگاکر خوشی کا اظہار کیا۔
"میں تربیت دینے کی قابل تو نہیں ہوں۔ مگر تمہیں اچھی طرح بتاسکتی ہوں کہ گھر کے کام کاج اور بچوں کی تعلیم وتربیت کے کثیر رکنی کاموں کو باآسانی کیسے کیا جاسکتا ہیں۔” رضوانہ نے سنجیدگی سے کہا۔ "ابھی !!!!!….. فرصت ہیں۔ بچے بھی باہر میدان میں کھیل رہے ہیں۔ رضوانہ تم ہمیں سمجھاؤ۔” نیلوفر نے سنجیدگی سے کہا۔ اسکی بات پر سبھی نے ایک آواز میں کہا ہاں!!!!!!! یہ اچھا موقع ہے۔
میں سب سے پہلے دن بھر کے کاموں کا منصوبہ تیار کرتی ہوں۔ اسکی فہرست میرے ذہن میں ہوتی ہے۔ اب ان کاموں کو فوقیت کے حساب سے ترتیب دیتی ہوں ۔ یعنی کونسا کام اشد ضروری ہے۔ اسے پہلے ۔۔۔۔۔ پھر اسکے بعد دوسرا ۔۔۔۔۔ پھر تیسرا۔۔۔۔۔۔ اس ترتیب سے ہمارا بوجھ کم ہو جاتا ہے۔ ایک وقت میں ایک ہی کام کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے ناشتہ بنانا ہے یا چائے ، کچن کی صفائی کرنا ،گھر کی صفائی اور دیگر کام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے بعد بچوں کو وقت کب دینا ہے انکے مدرسے اور اسکول کا وقت مقرر ہے اس سے پہلے میں گھر کے دوسرے کام پورے کرلیتی ہوں۔
بچے جب اسکول سے آجائے تو انھیں فریش کروائے۔ کوئی اچھی مقوی چیز کھانے کے لئے دے۔ وہ کونسے کھیل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسکی شناخت کرے اوراس کھیل میں انکی رہنمائی کرے۔ انکی تعریف کرے۔اس کے بہتر وسائل و لوازمات خریدکردے۔ رات کے وقت انکے ساتھ پڑھنے کے لئے بیٹھے۔ یاد رکھے انھیں پڑھانا نہیں ہے۔ انکی صرف رہنمائی کرنا ہے۔ بچوں کو بار بار صرف نمبرات حاصل کرنے کی تلقین نہ کریں۔ کیونکہ نمبرات ہی بچوں کی ہمہ جہت ترقی نہیں ہیں۔ اسکے ساتھ کھیل کود ، دوسروں کا ادب و احترام ، اپنے ساتھیوں کی امداد نماز و روزے کی پابندی پر خصوصی دھیان دیتی ہوں۔ بچے ایسے کام کرے تو انکی بھربور تعریف کریں۔ انکو چھوٹے چھوٹے انعامات دیتے رہے۔
"عامر جماعت میں تیسرے نمبر پر آیا ہے۔ میں نے اسے یہ نہیں پوچھا کہ تم پہلے نمبر پر کیوں نہیں آئے ہو؟ ” بلکہ اسکی دل کھول کر تعریف کی ۔ اسکے والد نے اسے نیا بیڈمینٹ کِٹ انعام دیا۔ اسطرح بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ان پرکسی بھی کام کا بوجھ نہ ڈالے انھیں اس کام کی عملی معلومات دیں۔ اچھے کاموں کے فوائد اور بُرے کاموں کے نقصانات بتاتے رہے۔ بچے بخوشی مسرت بھرے ماحول میں سیکھتے ہیں۔
میں گھر کے ہرکام کی طرف توجہ دیتی ہوں۔ جیسے۔۔۔۔۔۔ دودھ گرم کرنے کے لئے گیس پر رکھا۔۔۔۔۔ ادھر ناشتہ تیار کرنے کے سبزیاں دھونا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔ نل بند کیا۔۔۔۔۔۔۔ فریج سے سامان نکالا۔۔۔۔۔ دودھ اُبل نہ جائے اس طرف بھی دھیان رکھا۔۔۔۔۔۔۔ ماں جی نے آواز تو نہیں دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جانب بھی توجہ مرکوز رکھی۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ بہت آسان ہے۔
واہ واہ!!!! ۔۔۔۔۔۔ "رضوانہ ۔۔۔۔۔ تم نے مختصر انداز میں بہت سی کارآمد و مفید باتیں بتائی ہیں۔ ہم ضرور اس طرح منصوبے تیار کرکے اپنے کام کرینگے اور بچوں کی ہمہ جہت ترقی اور تربیت کرنے کی کوشش کرینگے۔” نیلوفر نے رضوانہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ساجدہ نے بھی شکریہ ادا کیا۔ سب خوشی خوشی گھر واپس جانے کے لئے کھڑے ہو گئے۔