تحریر: محمد ذاکر فیضانی پھلودی
سر زمین سندھ عرصہ دراز سے اولیاء کاملین کا مرکز رہی ہے اور ان بزرگان دین نے اپنی زندگیاں مذہب اسلام دعوت و تبلیغ کرنے میں گذار دی
اور انہیں نفوس قدسیہ میں ایک بڑی جماعت "پیران پگارا” کی ہیں جنہوں نے اپنے لیل و نہار کو دین حق کے لیے بسر کردیے اور اپنے مریدین و معتقدین و متوسلین کو راہ ہدایت کے راہی بناتے رہے
پیران پگارا کے مختصر حالات
پانچویں صدی میں ریاست سندھ کے راجا دلورائے نامی جس کا رجحان ہندو دھرم کی طرف تھا جو لوگوں پر ظلم و تشدد کیا کرتا تھا اور مسلمانوں کا جانی دشمن بن گیا تھا جو اس کے مخالف کرتا اس کا قتل وغارت گری کروا دیا کرتا تھا جب والیان ریاست اس کے ظالمانہ رویہ کو برداشت کرنے حد کو پہونچ گیے تو خلافت عباسیہ ( معتمد باللہ ) کے نام ایک خط لکھ کر بھیجا جب خلیفہ وقت نے خط کو ملاحظہ کیا تو ایک لشکر کو تیار کیا اور اس کے سپہ سالار حضرت سید علی مکی ہاشمی قدس سرہ کو مقرر کر کے ہندوستان کے لیے روانہ کیا
جب لشکر اور سپہ سالار حضرت سید علی مکی ہاشمی قدس سرہ ہندوستان کے سرحد میں داخل ہوئے اور لوگوں کو اس ظالم و جابر حکمران کے پنجے سے نجات دلا کر ریاست میں عدل و انصاف کا نظام قائم کیا دین حنیف کی دعوت پیش کی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ وادی کفر کی ظلمت کو ترک کرکے آپ کے دست حق پرست پر مشرف با اسلام ہوئے اور حلقہ ارادت میں داخل ہوکر اپنی حیات بعد ممات کو کامیاب کرنے میں لگ گیے مختصر یہ کہ آپ کے خاندان کے ہر فرد نے والیان سندھ و بیرون سندھ کی ہر میدان میں رہنمائی فرماتے رہے
یوں تو اس خاندان کے ہر فرد نے اپنے زمانے میں چمکتے ہوئے ستاروں کی مانند چمک کر طالبان معرفت کو شریعت و طریقت کے جام شیریں سے سیراب کرتے رہے مگر اس خاندان میں ایک ایسی شخصیت نے آنکھ کھولی جنہوں نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کو راہ ہدایت پر گامزن کرتے رہے وہ ذات امام العارفین سیدنا و مرشدنا حضرت پیر سائیں محمد راشد روزے دھنی قدس سرہ کی ہیں
جن کی ولایت کی بشارتیں ولادت سے قبل مل چکی تھیں ایک روایت میں ہے کہ سندھ کے مشہور و معروف بزرگ و شاعر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی اپنے چند فقیروں کے ساتھ گھوٹکی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں امام العارفین کے والد بزرگوار حضرت سید بقا شاہ شہید پٹ دھنی قدس سرہ سے ملاقات ہوئی خیریت و عافیت کے بعد جب روانہ ہونے لگے تو آپ نے خوش مزاجی کے طور پہ فرمایا شاہ صاحب کیوں ان فقیروں کو اپنے ساتھ لیے گھوم رہے ہو ؟ شاہ صاحب فرمانے لگے سید صاحب میرے ہمراہ تو یہ چند فقرا ہیں مگر تمہاری پشت میں ایک ایسا فرد آ رہا ہے جس کے پیچھے لاکھوں لوگ دیوانہ بن کر گھومتے پھریں گے اس طرح مختلف روایات سے معلوم ہوا کہ آپ کی ولادت سے پہلے آپ کے چرچے لوگوں میں ہو رہے تھے
اسی لیے آپ کے والد بزرگوار حضرت سید بقا شاہ شہید پٹ دھنی قدس سرہ کو آپ کی آمد کا شدت سے انتظار تھا
ولادت باسعادت
حضرت سید محمد راشد روزے دھنی قدس سرہ چھ رمضان المبارک سنہ ھ ١١٧١ میں بمطابق ١٧٨٥ء کو سندھ کے مشہور شہر خیرپور کے گاؤں رحیم ڈنہ کلہوڑا میں حضرت سید بقا شاہ شہید پٹ دھنی قدس سرہ کے گھر پیدائش ہوئی
اور آپ رحمتوں والے مہینے رمضان المبارک میں پیدا ہوتے ہی اپنے جد امجد کی طرح آپ نے بھی مکمل ماہ صیام میں تمام روزے رکھے اپنی والدہ محترمہ کا دودھ نوش نہیں فرمایا تھا اسی لیے آپ کو روزے دھنی کہا جاتا ہے یہ سندھی جملہ ہے جس کا معنی صاحب الصوم ہے
تعلیم و تربیت
کیوں کہ آپ کی ولایت کا علم آپ کے والد گرامی کو ہوچکا تھا اس لیے آپ پر گہری نظر رکھتے تھے اور ابتدائی تعلیم کے لیے حافظ زین الدین اور میاں محمد اکرم رحمہما اللہ کو مقرر فرمایا بعدہ اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ کو اور آپ کے برادر محترم سید مرتضی علی شاہ کو شکار پور کے مشہور بزرگ حاجی فقیراللہ علوم علیہ الرحمہ کے یہاں داخلہ کروایا اور چند روز بعد جب آپ کی والد گرامی مدرسہ آئے اور کیا دیکھتے ہے کہ آپ کے دونوں شہزادوں کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ رکھا جارہا ہے تو آپ نے فرمایا جہاں پر اتنا آرام دیا جائے وہاں حصول علم کی پیاس بجھنا مشکل ہے پھر کوٹڑی کبیر میں مخدوم میاں یار محمد کے پاس لے آئے اور شہزادوں نے بڑی انہماکی سے اپنی تعلیم کا آغاز کر دیا جب آپ کوٹڑی میں زیر تعلیم تھے تب آپ نے فرمایا مسافری کی دقت طبیعت پر گراں گزرنے لگی تو ہم نے ایک قدم پر کھڑے ہوکر ایک رات میں پانچ ہزار مرتبہ درود شریف کا نذرانہ بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں پیش کیا اس طرح درود شریف کے صدقے تمام مشکلات آسان ہوگئی اور گوہر علم و عرفاں سے ہمیں مصطفیٰ کریم ﷺ نے نوازا ۔کوٹڑی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد حدیث مصطفیٰ ﷺ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ گھوٹھ خیر محمد آریجہ کے مشہور بزرگ حضرت مفتی محمد آریجوی کے پاس تشریف لے آئے جہاں علوم ظاہری کی تحصیل کی تکمیل ہوئی
اس کے بعد آپ کے والد بزرگوار نے آپ کو اور آپ کے برادر محترم و مکرم کو نقشبندی سلسلے میں بیعت دی مگر آپ کو اس میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی تو آپ کے والد گرامی قدر نے آپ کو سلسلہ قادریہ بیعت لے لی جو کہ آپ کو سلسلہ قادریہ کے چشم و چراغ حضرت سید عبدالقادر گیلانی آخرین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملی ہوئی تھی
سجادہ نشینی و دیگر حالات زندگی
حضرت سید محمد راشد روزے دھنی قدس سرہ کی جب عمر شریف اٹھائیس کو پہنچی تو کسی سفر میں لٹیروں نے شہید کردیا تو آپ کے والد بزرگوار کا سایہ شفقت و محبت آپ کے سر سے اٹھ گیا اس وقت آپ اپنے والد محترم کے سجادہ نشین مقرر ہوئے اور خانقاہ کے مکمل امور آپ کے سپرد کر دیے گیے
آپ اپنے اکثر اوقات یاد الٰہی صوم و صلوۃ تسبیح و تہلیل ذکر وفکر میں بسر کرتے تھے آپ پوری زندگی سنت رسول ﷺ پر عمل کرکے گذاری اور صبر و قناعت کا درس دیا اور اس کو عملی جامہ پہنا کر بتایا آپ کی ملفوظات میں ہے کبھی کبھار مسلسل فاقہ کشی رہتی تھی اس کے باوجود آپ صبر کا دامن تھامے رکھتے تھے اور آپ مسلسل کئی مہینوں تک سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے مختلف علاقوں جیسے عمر کوٹ ، بہاولپور ، جیسلمیر ، جودھپور ، ایران ، افغانستان جاکر لوگوں کی تربیت فرمایا کرتے تھے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نو مہینے سفر پر رہتے تھے اور طالبان حق کو سیراب کرتے تھے اور سال کے باقی تین ماہ آپ خانقاہ شریف میں رہ کر لوگوں کی اصلاح و تربیت فرماتے تھے اور انہیں اسفار کے دوران آپ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت فرماتے رہتے تھے
اس طرح لوگ آپ کے پاس جوق در جوق آتے اور حلقہ ارادت میں داخل ہوتے رہتے ان مریدین کی آپ خود تربیت فرماتے یا بڑے خلفاء کے سپرد کر دیتے تھے جو نئے سالکین طریقت کی تربیت فرماتے تھے آپ کے خلفاء کی تعداد ١٢٠٠ سو سے زائد ہیں جن میں سب لوگ صاحب مسند ارشاد تھے
آپ اپنے ملفوظات شریف میں فرماتے ہے کہ نماز پنجگانہ اور دو وقت کا ذکر میرے ہر مرید پر لازم ہے اور جو پابند نہیں وہ میرے حلقہ ارادت سے خارج ہے اور ساتھ ہی پوری زندگی سنت نبوی ﷺ پر گذارنے کی تلقین فرماتے رہتے تھے
تصنیفات
جمع الجوامع ، آداب المریدین ، مکتوبات شریف ، شرح اسماء الحسنٰی ، مجمع الفیوضات ان کی علاوہ بھی آپ نے مختلف موضوعات پر مشتمل کتب تصنیف فرمائی
وصال پر ملال
امام العارفین حضرت سید محمد راشد روزے دھنی قدس سرہ نے اپنی پوری زندگی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے میں بسر کی اور بحمدہ تعالیٰ آپ تریسٹھ سال کی عمر پا کر دارفانی کو الوداع کہہ کر آپ اپنے مالک حقیقی سے جاملے ١ شعبان المعظم اور مطابق ٢٠ مارچ کو آپ اس جہاں سے چل بسے
انا للہ و انا الیہ رجعون