زین العابدین ندوی
مقیم حال کرلا کمانی، ممبئی
پچھلے دو دن قبل کرلا سے نیرل جانا ہوا، ریلوے اسٹیشن پہونچا تو انسانوں کی ایسی بھیڑ کہ رائی گرانے کی جگہ نہیں، شور پکار ہو، ہا کی کیفیت کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے، اتنے میں ٹرین پہونچتی ہے، خدا کی پناہ ابھی ٹرین نے سانس بھی نہ لیا تھا کہ لوگ اس پر مانند باز ٹوٹ پڑے، راقم بھی انہیں میں سے ایک تھا، ایسا ازدحام کہ کوئی ٹس سے مس نہیں کر سکتا، ہر ایک کی عافیت اسی میں تھی کہ جو جہاں جس حالت میں کھڑا ہے بس کھڑا رہے، ایسے وقت میں جبکہ بدن پسا جا رہا ہو، ہڈیاں بھی آواز لگا رہی ہوں، سینہ اور پشت کا اندازہ نہ ہو، ہر ایک نے چہرہ پر ماسک نامی لائق صد احترام باریک سا کپڑا لگا رکھا تھا، جو پانی پڑنے پر بھی پگھل جاے، آخر اس میں ایسی کون سی خوبی اور کیسی ویکسین شامل ہے کہ جان جاے تو جاے مگر ماسک اور منہ کا ساتھ چھوٹنے نہ پائے۔
ماسک بھی اگر کوئی با شعور شی ہوتا تو ضرور سوچتا کہ آخر یکا یک مجھے اتنی عزت کیوں دی جا رہی ہے؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کی جا رہی ہے، اس کو ہم سمجھنے کے بجائے اس پر عمل درآمدی کو ہی ضروری سمجھتے ہیں، اول اول یہ کہا گیا کہ یہ وائرس ٹچنگ سے پھیلتا ہے، جس کے نتیجہ میں لاک ڈاؤن کیا گیا اور لوگوں کو آپسی میل ملاپ سے دور رکھنے کی تلقین کی گئی، پھر یہ اعلان ہوتا ہے کہ یہ وائرس ہوا میں محلول ہو جاتا ہے جس کا سیدھا سا مطلب یہ تھا کہ اس سے بچاو کی کوئی ترتیب نہیں، اس لئے کہ انسان ہوا کے بغیر رہ نہیں سکتا، اب عزت مآب ماسک صاحب کو باقی رکھ کر باقی سب کو آزاد کر دیا گیا، واہ بھائی واہ۔۔
پورے معاملہ پر اگر نظر رکھی جائے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو مرض کم اور مرض کے نام پر کالا بازاری زیادہ نظر آتی ہے۔۔ باقی آپ تمام احباب کی کیا رائے ہے؟