ازقلم : اشرفؔ رضا قادری
مدیر اعلی سہ ماہی امین شریعت
دنیا کی کسی بھی متمدن اور ترقی یافتہ زبان میں محاورات اور روز مرہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ ان کے ذریعے نہ صرف زبان کی فصاحت بلکہ بعض اوقات اس کی بلاغت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ محاورے کو’’ زبان کا زیور ‘‘ کہا گیا ہے ۔ ان کی مدد سے سادہ بات اور عام خیال بھی خوب صورت اور سحر انگیز بن جاتے ہیں اور قارئین و سامعین مسحور ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ پچاس سے زائد علوم و فنون پر مہارتِ تامہ رکھتے تھے اور عربی و فارسی و اردو زبان و ادب کے رمز آشنا عالم و محقق اور ادیب و شاعر تھے ۔ انہوں نے اپنی نعتیہ شاعری میں زبان و بیان کے جملہ محاسن صوری و معنوی میں سمیٹ کر گویا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے ۔ دیگر شعری و لسانی خوبیوں کے علاوہ کلام رضا کی ایک ممتاز خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں اردو محاورات بڑے سلیقے اور فنی قرینے کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں ۔ آپ کے نعتیہ دیوان ’’حدائقِ بخشش ‘‘ میں شاید ہی کوئی ایسی نعت ہو جس میں دو چار محاورات نہ پائے جاتے ہوں ۔ اردو محاورات پر مشتمل چند معنی خیز اشعار ملاحظہ ہوں:
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
دل عبث خوف سے پتہ سا اڑا جاتا ہے
پلا ہلکا سہی بھاری ہے بھروسہ تیرا
میری قسمت کی قسم کھائیں سگانِ بغداد
ہند میں رہ کے بھی دیتا رہوں پہرا تیرا
شاخ پر بیٹھ کے جڑ کاٹنے کی فکر میں ہے
کہیں نیچا نہ دکھائے تجھے شجرہ تیرا
بازِ اشہب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی
دیکھ اڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا
دلِ اعدا کو رضاؔ تیز نمک کی دھن ہے
اک ذرا اور چھڑکتا رہے خامہ تیرا
(ماخوذ از خیابانِ نعت)