از قلم: بدرالدجی امجدی تلسی پور بلرام پور
آج کل کے محققین اور مفتیان کرام کا حال یہ ہے کہ وہ خود نہیں بدلتے بلکہ فتوے کو ہی بدل دیتے ہیں
ابھی حال ہی میں پاکستان کے ایک عالم کی تحقیق ہماری آنکھوں سے دو چار ہوئی جن کو دنیائے پاکستان الیاس گھمن کے نام سے جانتی ہے
حضرت والا نے اپنے ایک سوال کے جواب میں کہاں قربانی کی نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت قربانی کے نصاب کے لیے ہونا چاہیے اور اس پر انھوں نے اپنے جدید تحقیق کا ایسا دریا بہایا کہ انکا ہی تحقیق ان کو اپنی ہی طوفانی موجوں میں لے ڈوبا
حضرت والا کی تحقیق چونکہ ” شروع میں دونوں نصابوں کی مالیت برابر تھی تو فقہائے کرام اختیار دیتے تھے دونوں میں سے جس کو چاہے نصاب مقرر کر لے لیکن بعدازاں مشائخ حنفیہ نے اس کی تشریح میں فرمایا جو نصاب پہلے پورا ہوجائے اسے نصاب بنایا جائے گا کیونکہ اس میں فقراء و مسکین کا زیادہ فائدہ ہے_ زمانے ماضی قریب سے تا حال محققین علمائے امت ان چیزوں کی مجموعی مالیت کے لئے ساڑھے باون تولہ چاندی کو ہی بتاتے چلے آئیں اور امت اسی میعاری کے مطابق عمل کرتی آرہی ہے کیونکہ چاندی کا نصاب پہلے پورا ہوجاتا تھا_
موجودہ دور میں چاندی کی مارکیٹ ویلیو بہت بری طرح گر گئ ہے عالمی مارکیٹ میں تجارت کے لئے میعاری کرنسی اب سونا ہی قرارپاچکا ہے جبکہ چاندی میں لوگوں کی رغبت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوچکی ہے
جس کی وجہ سے اس کی مالیت بری طرح متاثر ہوئی ہے اب معاشرے میں وہ لوگ جو مالی طور پر پسماندہ اور غریب سمجھے جاتے ہیں ان کے پاس بھی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر مذکورہ اموال موجود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ بھی "صاحب نصاب” سمجھے جاتے ہیں اگر مذکورہ نصاب کے مطابق ان پر قربانی واجب قرار دی جائے تو یہ لوگ سخت تنگی اور حرج میں مبتلا ہوتے ہیں حتی کہ بیشتر افراد کے لئے اپنے مال کا تہائی بعض ممالک میں نصف حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے جس سے حرج کا تحقق واضح ہے” _
حضرت والا سے میرے چند سوالات ہیں
- حضرت والا نے اپنے فتوی میں فرمایا "چونکہ شروع میں دونوں کی مالیت تقریباً برابر تھی تو فقہائے کرام مالک کو اختیار دیتے تھے کہ دونوں میں سے جسے چاہے نصاب مقرر کر لے لیکن بعدازاں مشائخ حنفیہ نے اس کے تشریح میں فرمایا جو نصاب پہلے پورا ہوجائے اسے میعار بنایا جائے گا کیونکہ اس میں فقراء و مساکین کا زیادہ فائدہ ہے”
مشائخ حنفیہ نے فرمایا کہ جو نصاب پہلے پورا ہوجائے اسے میعار بنایا جائے گا کیونکہ اس میں فقراء و مساکین کا زیادہ فائدہ ہے اب ہمے حضورے والا یہ بتائیں کہ اس دور میں چاندی کی مالیت سونے سے کم ہے تو چاندی کو میعار نصاب بنانے میں فقراء و مساکین کا زیادہ فائدہ ہوگا یا سونے کو؟؟؟ - ابھی چاندی کی مالیت کم ہے سونے کے مقابل میں تو چاندی کو میعار نصاب مقرر کرنے میں لوگ حرج، تنگی، اور مفلسی میں مبتلا ہو جائیں گے جیسا کہ حضور نے اپنے فتوی میں ذکر کیا ہم کہتے ہیں کہ اگر کل سونے کی مالیت چاندی سے بھی زیادہ گرجائے تو کیا- کیا آپ اس فتوی کے طرف الٹے ہی قدم آئیں گے جو مشائخ حنفیہ نے کہا ہے؟؟؟.
- کیا آج کے دور میں چاندی کی گراوٹ اعلی حضرت کے دور سے بھی زیادہ ہے جبکہ حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃاللہ علیہ اپنے ایک فتوی میں فرماتے ہیں ” قربانی واجب ہو نے کے لئے صرف اتنا ضروری ہے کہ وہ حاجت اصلیہ کے علاوہ 56 روپیہ (اعلیٰ حضرت رحمۃاللہ علیہ کےدور میں رائج الوقت چاندی کے سکے) کا مالک ہو چاہے وہ مال نقد ہو یا بیل بھینس یا کاشت _ کاشتکار کے ہل بیل اس کے حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ان کا شمار نہ ہو…. اور جس پر قربانی واجب ہے اس کے پاس نقد مال نہ ہو تو چاہیے قرض لے کے کرے ". ( فتاوی رضویہ ج 20، ص 370) .. اس دور میں 56 روپیہ پر قربانی واجب تھی آج تو چاندی کی مالیت کی نصاب اس سے کئی گنا زیادہ ہے پھر آج کیوں چاندی کی نصاب کی مالیت بدلنے کی مسائل پیچیدہ اور جدیدہ کی ضرورت؟؟؟
اس طرح کے اور بھی سوالات کا ذخیرہ میرے ذہن کے حاشیہ پر گردش کر رہا ہے ہم آپ سے مودبانہ، مخلصانہ انداز سے آپیل کرتے ہیں کہ ایسی تحقیق، تحریر اور تجدید جس سے فتنے کا دروازہ بند ہو نے کے بجائے اور فتنے کا دروازہ ایک بعد دیگرے راج دھانی ایکسپریس کی رفتار کے طرح کھلتا چلا جائے خدا را ایسی تحریر، تجدید اور تحقیق کو طلاق دے کر بغیر تحریر، تجدید اور تحقیق کے زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔