خلافت عباسیہ (پہلی قسط)
عباسی خلافت کا پہلا خلیفہ ابو العباس عبداللہ سفاح تھا۔خلیفہ سفاح کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔
اس نے سال 750ء سے لیکر سال 754ء تک حکومت کیا۔اس خلیفہ کا تعلق خاندان عباسیہ سے تھا۔ عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے چچا تھے۔ آںحضرت ﷺ نے اپنے چچا عباس سے فرمایا تھا کہ تمہاری اولاد میں خلافت آیے گی اور یہ پیشنگوئی پوری ہویی۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے فرزند کا نام عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تھا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا نام علی بن عبداللہ اور علی بن عبد اللہ کے بیٹے کا نام محمد بن علی تھا۔
محمد بن علی کے تین بیٹے تھے:ابراہیم، سفاح اور المنصور۔تاریخ کے مطالعہ سے ہم یہ جانتے ہیں کہ اموی خلافت کے آخری ایام میں عباسی اور علوی خفیہ طریقے سے متوازی طور پر خلافت بنو امیہ کے خلاف تحریکیں چلا رہے تھے،اور ان دونوں تحریکوں کا مشترکہ ہدف خلافت بنو امیہ کو معزول کرنا تھا اور بالآخر اموی خاندان سے خلافت نبی کریم ﷺ کے چچا عباس کے خاندان میں منتقل ہو گیی۔اسی خاندان کا پہلا خلیفہ ابوالعباس عبداللہ سفاح تھا۔
سفاح کا معنی خون بہانے والا ہے۔قرآن مجید کے سورہ الانعام، آیت نمبر 145 میں دَمًا مَّسۡفُوۡحًا کا ذکر ہے،جس کے معنی بہتا ہوا خون ہوتا ہے۔
ابراہیم کے انتقال کے بعد جب اس کے بھائی سفاح کی قیادت میں عباسی تحریک جاری تھی اور جنگ زاب میں عباسیوں نے چن چن کر امیوں کا قتلِ عام کیا تھا اور اس کا آخری خلیفہ مروان بن محمد کا بھی قتل ہوگیا تب کوفہ میں سفاح اپنی خلافت کا آغاز کیا۔اس طرح اس کا ہاتھ امیوں کے خون میں ڈوبا ہوا تھا۔
سفاح کے خلیفہ ہونے ہر علویوں کے اندر ناراضگی پیدا ہو گیی۔انہوں نے عباسیوں کے ساتھ مل کر خلافت بنو امیہ کا خاتمہ کیا تھا اور اب عباسیہ خاندان میں خلافت کے چلے جانے سے علوی بالکل اسی طرح ناخوش تھے،جیسے کہ بنو امیہ میں خلافت کے چلے جانے سے ناراض تھے۔جس وقت بنو امیہ کے خلاف تحریکیں چلایی جا رہی تھیں،اسی دوران مکہ مکرمہ میں مستقبل میں خلیفہ کے تقرری سے متعلق ایک مجلس کا انعقاد ہوا۔اس مجلس میں سفاح کا بھائی المنصور بھی شامل تھا۔اس مجلس میں عباسیوں اور علویوں نے متفقہ طور پر یہ قرارداد پاس کیا تھا کہ محمد بن عبداللہ بن حسن مثنہ بن حسن بن علی نیے خلیفہ مقرر ہوں گے۔
ابو جعفر منصور نے محمد بن عبد اللہ کے ہاتھ پر بیعت بھی کی تھی،لیکن جب سفاح کو کوفہ میں خلیفہ بنایا گیا تو عبداللہ بن حسن مثنہ اور دوسرے علوی لوگ کوفہ میں آیے اور کہا کیا بات ہے کہ خلافت جو ہمارا حق تھا،اس پر تم نے قبضہ کر لیا تو سفاح نے عبداللہ بن حسن مثنہ کی خدمت میں دس لاکھ درہم پیش کر دیے اور دیگر علویوں کو بے دریغ مال و دولت دیکر خاموش کر دیا اور انعام و اکرام سے مالامال کرکے رخصت کیا۔اس طرح سفاح نے علویوں کی مخالفت کو ختم کیا اور اپنی خلافت کے قیام کو مستحکم کیا۔
موصل میں بغاوت!
موصل کے لوگ بنو عباس سے منحرف تھے،ان لوگوں نے سفاح کے خلاف بغاوت کی۔خلیفہ نے اپنے بھائی یحییٰ بن محمد بن علی کو بغاوت کی استیصال کے لیے بارہ ہزار(12000) کی جمیعت دیکر بھیجا۔ یحییٰ نے یہ اعلان کروا دیا کہ جو کوئی بھی مسجد میں پناہ لیگا اس کی جان بخش دی جائے گی،لیکن اس کے برعکس یحییٰ نے مسجد میں قریب گیارہ ہزار (11000) پناہ گزینوں کا قتل کروا ڈالا۔
پھر شہر میں قتلِ عام کیا گیا۔تین دنوں تک شہر موصل میں قتل عام جاری تھا۔مرد،عورتیں اور بچے مارے جا رہے تھے۔اتنا ہی نہیں یحییٰ کے لشکر میں جو زنگی سپاہی تھے انہوں نے عورتوں کی عصمت دری کی جس کے باعث دوسرے دن جب یحییٰ کو خبر ہویی تو اس نے ان تمام زنگی سپاہیوں کا بھی قتل کروا دیا۔
خلیفہ بننے کے ڈیرھ سال کے بعد جولائی 751ء میں ایک جنگ ہویی،جسے معركة نهر طلاس (Batle of Talas) کہا جاتا ہے۔یہ جنگ چین کے Tang Dynasty کے خلاف ہویی تھی اور اس جنگ میں تبت کے شہنشاہ نے عباسیوں کا ساتھ دیا تھا۔یہ جنگ کرغزستان میں نهر طلاس کے کنارے ہویی تھی۔اس جنگ کا مقصد وسط ایشیا میں دریا Syr کے خطہ کا کنٹرول کرنا تھا۔اس جنگ میں قریب بیس ہزار(20000) قارلوق ترک فوج چینی لشکر سے انحراف کر گیے،جس کی وجہ سے چین کو شکست ہوئی اور ٹینگ خاندان کا خاتمہ ہوا اور اگلے چار سو سالوں(400) تک وسط ایشیا مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا۔اس جنگ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ جو چینی قیدی گرفتار ہویے تھے،ان کے ذریعہ کاغذ تیار کرنے کی ہنر سے مشرق وسطیٰ کے لوگ متعارف ہویے۔سمرقند میں کاغذ کے کارخانے کھولے گیے اور پھر مشرق وسطیٰ سے یہ ٹیکنالوجی ترقی کرتے ہوۓ یورپ تک پہونچی۔
سفاح چار برس آٹھ مہینے خلافت کی۔اس نے مرنے سے پہلے اپنے بھائی ابو جعفر منصور اور اس کے بعد اپنے بھتیجا عیسیٰ بن موسیٰ کو ولی عہد مقرر کیا۔سفاح نے عراق کے شہر انبار ( Anbar) کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔
حج سے واپسی کے دوران ابو جعفر منصور کو خلیفہ سفاح کے انتقال کی خبر موصول ہوئی اور پھر سفاح کے وصیت کے مطابق اسے خلافت کے منصب پر فائز کیا گیا۔وہ سال 754 سے لیکر سال 775 تک قریب اکیس سالوں تک حکومت کی۔خلیفہ ہونے کہ فوراً بعد ہی اس نے ابو مسلم خراسانی کے قتلِ کا منصوبہ بنایا۔ابو مسلم خراسانی نے دعوت عباسیہ کو کامیاب بنانے میں سب سے بڑا کام انجام دیا تھا۔وہ اپنے آپ کو خلافت عباسیہ کا بانی سمجھتا تھا اور اپنے آپ کو خلیفہ سفاح کا سرپرست جانتا تھا۔ خلیفہ سفاح نے اسے خراسان کا گورنر بنا دیا تھا۔ وہ خلیفہ سفاح کو امور سلطنت میں مشورے دیتا لیکن خراسان کے معاملات میں وہ سفاح سے اجازت یا مشورہ لینا ضروری نہیں سمجھتا تھا۔ اس طرح ابو مسلم خراسانی کا اقتدار و اثر اور اختیار و تسلط کافی بڑھ چکا تھا۔
وہ اپنا اثر خراسان کے علاوہ حجاز اور عراق میں بھی بڑھانا چاہتا تھا۔ ابو جعفر منصور نے ابو مسلم خراسانی کی طاقت کو ضعف دینے کے لیے اسے خراسان کی گورنری سے معزول کرکے مصر اور شام کا گورنر بنا دیا اور اسے پیغام بھیجوایا کہ وہ المنصور کے سامنے حاضر ہو۔
شروع میں ابو مسلم نے آنے سے انکار کیا لیکن بعد میں حاضر ہونے پر راضی ہو گیا۔جب وہ دربار میں حاضر ہوا تو منصور نے پہلے ہی سے چند لوگوں کو پس پردہ چھپا کر بیٹھا دیا اور حکم دے دیا تھا کہ جب میں اپنے ہاتھ پر ہاتھ ماروں تو تم نکل کر فوراً ابو مسلم کو قتل کر ڈالنا اور ٹھیک اسی منصوبہ بندی کے مطابق اس کا قتل کر دیا گیا۔
خروج سندباد!
جیسے ہی ابو مسلم کے قتل کی خبر عام ہویی تو سندباد ( Sunbadh) نامی ایک ایرانی شخص نے طبرستان اور جبال ( یہ دونوں شہر کیسپین سمندر کے جنوب میں واقع ہیں) کے عوام کی مدد سے عباسیوں کے خلاف بغاوت شروع کی، اور رے اور نیشاپور (ایران کے شہروں) پر اپنا قبضہ جما لیا۔ سندباد نے لوگوں کے مال و اسباب کو لوٹا اور ان کو گرفتار کرکے باندی غلام بنایا اور مرتد ہوکر اعلان کیا کہ میں خانہ کعبہ کو منہدم کرنے جاتا ہوں۔ اس بغاوت کی استیصال کے لیے منصور نے دس ہزار کا لشکر جوہر ابن مرار کو دیکر سندباد کے خلاف بھیجا۔سندباد کی اس جنگ میں شکست ہوئی اور دوبارہ خراسان عباسیوں کے قبضہ میں آیا۔
فرقہ راوندیہ!
ایران اور خراسان میں شیعہ کا ایک فرقہ تھا،جسے راوندیہ کہا جاتا ہے۔ یہ حلول کے قایل تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نعوذ باللہ منصور میں حلول کیا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ خلیفہ منصور کو اللہ سمجھ کر اس کی زیارت کرتے تھے اور منصور کے درشن کرنے کو عبادت جانتے تھے۔یہ لوگ دارالخلافہ میں آکر اپنے اعمال و عقائد کا اعلان کرنے لگے تو منصور نے ان میں سے بعض لوگوں کو پکڑ کر قید کر دیا۔اس کے ردعمل میں فرقہ راوندیہ کے لوگوں نے خلیفہ منصور کے محل کا محاصرہ کر لیا۔ایسے نازک وقت میں معن بن زائدہ نامی ایک سابق اموی سپہ سالار نے خلیفہ منصور کی جان بچایی اور تمام بلوائیوں کو قتل کرکے رکھ دیا۔منصور نے معن بن زائدہ کو امان دی اور اسکی عزت و مرتبہ کو بڑھایا۔
علویوں کی قید و گرفتاری: سفاح نے اپنے عہد خلافت میں علویوں کو انعام و اکرام دیکر ان کو خوش رکھا اور مخالفت اور خروج پر آمادہ نہ ہونے دیا۔منصور جب خلیفہ ہوا تو اس نے سفاح کے زمانے کی سخاوت کو باقی نہ رکھا۔جب منصور خلیفہ ہوا تو عبداللہ بن حسن نے اپنے بیٹے محمد ( جو محمد مہدی کے نام سے پکارے جانے لگا) کو اس خیال سے غائب کروا دیا کہ کہیں منصور ان کو قتلِ نہ کرا دے ۔ محمد ہی وہ شخص تھا جس کے ہاتھ پر سفاح اور خود منصور نے اسے خلیفہ بنانے ہر اس کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔منصور نے محمد کا زندہ رہنا اپنی خلافت کے لیے خطرہ محسوس کیا اور اسے راستہ سے ہٹانے کے منصوبہ بندی کرنے لگا ۔خلیفہ ہونے کے بعد منصور برابر محمد مہدی کا حال لوگوں سے معلوم کرتا رہتا تھا۔وہ محمد مہدی کا سراغ لگوائے کے لیے حجاز میں جاسوس تک چھوڑ رکھا تھا۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے محمد اپنے بھائی ابراہیم کے ساتھ چھپنے کی جگہ برابر بدلتے رہے۔ وہ دونوں حجاز سے بصرہ، بصرہ سے عدن اور عدن سے سندھ، پھر سندھ سے کوفہ اور پھر مدینہ اور مدینہ سے مکہ کا سفر کرتے رہے۔ اس طرح یہ اپنے چھپنے کے مقام بدلتے رہے یہاں تک کہ منصور ان دونوں کا سراغ معلوم کرنے میں ناکام رہا ۔بالاخر منصور نے جب رباح بن عثمان کو مدینہ عامل بنایا تو اس نے مدینہ میں علویوں کی گرفتاری شروع کروا دی اور محمد مہدی کے والد، چچا وں اور چچازاد بھایئوں کو گرفتار کروایا اور قید میں ڈال دیا۔
محمد مہدی نفس زکیہ کی تحریک!
محمد مہدی کو مدینہ میں جب یہ خبر ملی کے منصور نے اس کے والد اور چچاوں اور دیگر اہل بیت کو قتلِ کروا دیا تو اس نے اپنے ہمرایوں کے ساتھ خروج کرنے کا فیصلہ کیا۔محمد مہدی کے خروج کی خبر جب منصور کے پاس پہونچی تو اس نے ایک خط محمد مہدی کے نام لکھا کہ میں تم کو، تمہارے اہل خاندان کو اور تمہارے پیروکار کو جان مال اور اسباب کی امان دیتا ہوں۔ اس خط کے جواب میں محمد مہدی نے منصور کو لکھا کہ حکومت ہمارا حق ہے۔ تم غاصب ہو، ہم شریف اور صحیح النسب لوگ ہیں۔ ہم علی رضی اللہ عنہ کے خاندان سے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔فاطمہ رضی اللہ عنہا انکی زوجہ ہیں جنکو تمام جہاں کی عورتوں پر فضیلت ہے۔حسن اور حسین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین انکے بیٹے ہیں جو اہل جنت کے سردار ہیں۔یعنی اس خط میں محمد مہدی نے اپنے خاندان کی فوقیت اور برتری عباسیوں پر دکھانے کی کوشش کی۔اس خط کو پڑھنے کے بعد خلیفہ منصور آگ ببولہ ہو گیا اور ایک دوسرا خط محمد مہدی کو لکھا :یہ ایک طویل خط تھا جس میں خلیفہ نے حضرت علیؓ اور انکے بیٹے حسن اور حسین رض کی شان میں دل آزاد باتیں لکھی۔پھر اس نے تحقیری الفاظ میں بنو امیہ کے ہاتھوں اہل بیت پر ہویے ظلم کا ذکر کیا مثلاً بنو امیہ نے اہل بیت کو قتلِ کیا، یحییٰ بن زید کو خراسان میں قتل کیا؛ پھر آکے لکھا کہ تمہارے اوپر ہونے ظلم کا بدلہ تم تو نہ لے سکے لیکن تمہارے خونوں کا بدلہ ہم نے لیا۔پھر خلیفہ نے اپنے خاندان کی بزرگی بیان کی جیسے جاہلیت میں ہم لوگ حجاج کو پانی پلاتے تھے، اور مدینہ میں قحط کے وقت عمر فاروق رض نے عباس رض کے توسل سے اللہ تعالی سے دعا کی تھی اور اللہ تعالی نے پانی برسایا تھا۔ خط و کتابت کے بعد منصور نے عیسیٰ بن موسیٰ کو محمد مہدی سے جنگ کرنے کے لیے روانہ کیا۔6 دسمبر 762ء کو مدینہ میں ایک جنگ ہویی جس میں مہدی کی فوج کو شکست ہویی۔ مہدی کا سر کاٹ کر اسے خلیفہ کے پاس بھیج دیا گیا اور اس کا جسم سولی پر لٹکا دیا گیا۔
ابراہیم بن عبداللہ کی تحریک!
مہدی کی موت کے بعد اس کا بھائی ابراہیم بن عبداللہ کوفہ میں منصور کے خلاف بغاوت کی۔کوفہ میں ہزاروں لوگ ابراہیم کے ہاتھ پر بیعت کیے۔ایک لاکھ کا لشکر لیکر ابراہیم میدان جنگ میں پہونچا لیکن جنگ کے دوران ایک تیر اسکی گردن میں لگی اور وہ فوت ہو گیا اور اسکی فوج منتشر ہو گیی۔اس طرح خلیفہ منصور نے علویوں کی تحریک کا خاتمہ کیا۔
خلیفہ منصور نے دریا دجلہ کے کنارے شہر بغداد کی بنیاد ڈالی اور یہ شہر بعد کے عباسی خلفاء کے لیے دارالخلافہ بنا۔ منصور کے دور خلافت میں علماء دین نے علم دین کے تدوین کا کام شروع کیا۔مکہ میں ابن جریر، مدینہ میں امام مالک، شام میں اوزاعی اور کوفہ میں سفیان ثوری نے احادیث کی کتابیں لکھنا شروع کی۔اسی طرح ابن اسحاق نے مغازی پر اور امام ابو حنیفہ فقہ پر کام کرنا شروع کیے۔خلیفہ منصور نے امام مالک اور امام ابو حنیفہ کو سزائیں بھی دیں۔ امام مالک نے مہدی کے خروج کو جایز قرار دیا تھا اور امام ابو حنیفہ نے ابراہیم کے خروج کو جایز ٹھرایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ منصور نے امام ابو حنیفہ کو قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول کرنے کو کہا لیکن انہوں نے قاضی القضاۃ بننے سے صاف صاف انکار کر دیا۔ خلیفہ منصور نے امام کے انکار کو اپنی توہینِ سمجھا اور ناراضگی میں اسے قید کرنے اور روزانہ دس کوڑے لگانے کا حکم دیا۔امام کا عہدہ کی قبولیت کے انکار کی وجہ عدالت پر خلافت کا غلبہ تھا۔عدالت مکمل طور پر آزاد نہیں تھی اور خلیفہ اپنے دور حکومت اور عنان سلطنت کے استحکام اور دوام کے لیے عدلیہ کو استعمال کرنا چاہتا تھا۔اس کا مقصد عوام کو یہ باور کرنا تھا کہ اس کا ہر اقدام شرعی اور قانونی ہے جبکہ امام ابو حنیفہ اس عمل کو انصاف کے تقاضوں کے برخلاف سمجھتے تھے۔ خلیفہ منصور کے اصرار پر امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے مؤطا کی تالیف کی۔اس کے دور خلافت میں سریانی اور عجمی زبانوں سے کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہونے لگا۔ کسی نے کہا کہ آپ نے سزا دینے پر ایسی کمر باندھی ہے کہ کسی کو گمان بھی نہیں ہوتا کہ آپ معاف کرنا بھی جانتے ہیں۔منصور نے جواب دیا کہ ابھی تک آل مروان کا خون خشک نہیں ہوا اور آل ابی طالب کی تلواریں بھی ابھی تک برہنہ ہیں۔یہ زمانہ ایسا ہے کہ ابھی تک خلفاء کا رعب ان کے دلوں میں نہیں قائم ہوا اور یہ رعب اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک وہ عفو کے معنی نہ بھول جائیں اور سزا کے لیے ہر وقت تیار نہ رہیں۔
تحریر: ریاض فردوسی، پٹنہ۔ 9968012976