خلافت عباسیہ (دوسری قسط)
پہلا عباسی خلیفہ سفاح نے یہ وصیت کی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا بھائی منصور خلیفہ ہوگا اور منصور کے وفات کے بعد اس کا بھتیجا عیسیٰ بن موسیٰ خلیفہ ہوگا۔سال 775 میں مکہ مکرمہ حج کی روانگی کے وقت راستہ میں خلیفہ منصور کی موت ہو جاتی ہے۔لیکن اپنی موت سے قبل خلیفہ منصور نے عیسیٰ بن موسیٰ کو کوفہ کے گورنر کے عہدہ سے معزول کر دیا اور اپنے بیٹے مہدی کے حق میں لوگوں سے بیعت حاصل کر لی اور عیسیٰ بن موسیٰ سے بھی کہا کہ وہ بھی مہدی کے ہاتھوں پر بیعت کرلے لیکن اس نے انکار کر دیا لیکن بالآخر عیسیٰ بن موسیٰ کو مہدی کا حق میں اپنے حق خلافت سے دستبردار ہونا پڑا۔منصور کے وفات کے دن اس کا آزاد کردہ غلام لوگوں کے سامنے منصور کی وصیت کو پڑھ کر سنایا کہ عیسیٰ بن موسیٰ نے خلیفہ ہونے کا دعویٰ چھوڑ دیا ہے اور اس لیے مہدی عباسی خلافت کا چوتھا خلیفہ مقرر کیا گیا۔ وہ 775 سے 785 تک دس سال تک خلیفہ کے منصبِ پر فائز رہا۔خلیفہ مہدی نے بہت سارے دینی خدمات انجام دیے۔ انہوں نے کعبہ شریف سے پرانے غلافوں کو ہٹا کر اسکی جگہ نۓ غلاف لگوائے۔اس نے مسجد نبوی کی توسیع کی اور مکہ جانے کے راستے میں گھروں کی تعمیر کروائ اور گھروں میں کنویں اور پانی کے حوض کا انتظام کروایا۔اس نے مسجد حرام کے احاطے کی بھی توسیع کروائ اوراس کے قرب و جوار میں گھروں کی خریداری بھی کی اور اسے مسجد حرام کے ساتھ جوڑ دیا۔ اس نے یہ حکم جاری کیا کہ جن مساجد کی منبر کی اونچائی مسجد نبوی کے ممبر سے زیادہ ہے اس کی اونچائی کم کر دی جایے۔ایک دفعہ بصرہ کی مسجد میں خلیفہ مہدی جمعہ کے خطبہ میں سورہ احزاب کی آیت ۵۵ تلاوت کی اور پھر اس دن سے یہ آیت جمعہ کی خطبہ کا حصہ بن گیا۔
مہدی نے بغداد سے لیکر مکہ، مدینہ اور یمن تک اونٹ اور گدھوں کو ذرائع مواصلات کے طور پر استعمال شروع کروایا تاکہ جلد سے جلد پیغام ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہونچایا جا سکے۔مہدی نے اپنی خلافت کی شروعات سیاسی قیدیوں کی رہائی سے کی۔وہ ایک سخی اور فیاض خلیفہ تھا، اس نے حج کے دوران ہزاروں غریبوں کے مابین مفت کپڑے تقسیم کرواۓ۔اس نے انصار کے پانچ سو خاندانوں کو مدینہ سے عراق لایا اور انہیں رہائشی کے لیے زمینیں دیں اور وظیفہ دینے کا بھی اہتمام کروایا۔خلیفہ مہدی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے دور خلافت میں زندیقوں پر ظلم و ستم کیا۔اس کے دربار میں ہر شخص بلا روک ٹوک آجا سکتا تھا۔بعض اوقات اس پر لوگوں نے قاضی کی عدالت میں دعوے دائر کیے اور وہ قاضی کی عدالت میں فریق مقدمہ کی حیثیت سے حاضر ہوا اور اور عدالت کے فیصلے کو اپنے اوپر تعمیل کرایا۔مہدی کے وقت میں بغداد ایک کاسموپولیٹن شہر بن چکا تھا، اور یہاں یہودی،عیسائی اور مجوسی ہر مذہب کے لوگ ایک ساتھ خوشی خوشی رہتے تھے۔اس کے زمانہ میں بغداد اتنا خوبصورت شہر بن چکا تھا کہ لوگ شام،ایران اور دوردراز خطوں مثلاً افغانستان اور اسپین سے یہاں سیر و تفریح کرنے آتے تھے۔
حکیم مقنع خراسانی کا فتنہ:مہدی کی خلافت کے پہلے ہی سال میں حکیم مقنع خراسانی کا ظہور ہوا۔اس کا اصل نام ہاشم تھا اور ابو مسلم خراسانی کے فوج کا سپہ سالار تھا۔یہ شخص مرو کا باشندہ تھا، اور یہ اس بات کے لیے مشہور تھا کہ وہ اپنے چہرہ کو سونے کے بنے ایک چہرہ سے ڈھنکا رکھتا تھا۔
اس کا عقیدہ غیر اسلامی تھا۔اس نے خود کو معبود ہونے کا دعویٰ کیا۔اس کا عقیدہ تھا کہ میرے اندر اللہ تعالی کی روح ہے یعنی مجھ میں اللہ تعالی نے حلول کیا ہے۔حکیم مقنع کا یہ بھی عقیدہ تھا،کہ یحییٰ بن زید مارے نہیں گئے بلکہ روپوش ہوگیے ہیں اور کسی وقت اپنا بدلہ لینے کے لیے ظاہر ہوں گے اور دشمنوں کو ہلاک کریں گے۔مقنع کے ظہور پر بہت سے خراسانی اس کے متبع ہو گیے اور اس کو سجدہ کرنے لگے۔ماوراء النہر کے ترکوں نے اس کی قیادت میں عباسیوں کے خلاف بغاوت شروع کی اور مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔مہدی نے ایک لشکر اس کی سرکوبی کی لیے بھیجا،لیکن مقنع کو جب اپنی ناکامی کا یقین ہو گیا تو اس نے آگ جلا کر اپنے تمام اہل و عیال کے ساتھ جل کر مرگیا۔ مسلمانوں نے اس کے قلعہ پر قبضہ کیا اور مقنع کا سر کاٹ کر مہدی کے پاس روانہ کیا۔اس طرح یہ فتنہ ختم ہوا۔
ایک دفعہ حج کے موقع پر خلیفہ مہدی مدینہ منورہ گیا تو خلیفہ نے حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کی اور خواہش ظاہر کی کہ اس کے بیٹوں موسیٰ اور ہارون کو حدیث کا علم دیں۔جب خلیفہ مہدی نے امام مالک کی رضامندی دیکھی تو اگلے ہی روز اراکین سلطنت کو بچوں کو گھر پر تعلیم دینے کے لیے آپ کی خدمت میں بھیجا۔
امام مالک نے فرمایا:علم ایک قابل احترام چیز ہے۔ اس کے پاس جانا چاہیے۔یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ علم خود چل کر طالب کے پاس جایے۔
خلیفہ مہدی کے انتقال کے بعد اس کا لڑکا ہادی خلافت عباسیہ کا چوتھا خلیفہ ہوا۔وہ جولائی 785 ء سے لیکر ستمبر 786ء تک مختصر وقت کے لیے خلیفہ رہا۔اسکے زمانہ کے کچھ اہم واقعات اس طرح ہیں۔
حسین ابن علی کا خروج:حسین ابن علی ابن حسن مثلث ابن حسن مثنہ ابن حسن ابن علی ابن ابو طالب دیگر آل ابوطالب کے ساتھ ملکر عباسی خلیفہ ہادی کے خلاف شہر مدینہ میں بغاوت کی۔ یہ لوگ مدینہ کے گورنر عمر بن عبدالعزیز بن عبداللہ کے گھر کا محاصرہ کیا اور بیت المال پر حملہ کرکے اس کے خزانے کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ بنو عباس کے حامی ان کے ساتھ لڑائی کی اور بالآخر مدینہ پر حسین ابن علی کا فتح ہو گیا اور اہل مدینہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ۲۱ روز کے بعد حسین ابن علی مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہویے ۔ جب خلیفہ ہادی کو حسین ابن علی کے خروج کا علم ہوا تو انہوں نے ایک خط محمد بن سلیمان کے نام لکھا جو مکہ مکرمہ حج پر گیے ہویے تھے۔ انہیں خط میں یہ حکم دیا گیا کہ وہ حسین ابن علی کے لشکر کے ساتھ مقابلہ کریے اور اس مہم میں اسے دیگر عباسی سرداران جو مکہ حج کے لیے گئے ہویے تھے ان کے تعاون کا بھروسہ دیا گیا۔اس کے بعد دونوں گروہوں میں جنگ ہویی جسے Battle of Fakkh کہتے ہیں۔ یہ جنگ 11 جون 786 کو ہویی تھی۔ اس جنگ میں حسین ابن علی کا سر قلم کر دیا گیا، اس کے بہت ساتھی میدان جنگ سے فرار ہو گیے ۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا ان کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔آل ابوطالب میں سے ایک شخص ادریس بن عبداللہ ابن حسن مثنہ کسی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا اور وہ مصر بھاگ گیا اور پھر وہاں سے ایک مصر کے محکمہ ڈاک کا ایک آدمی جس کا نام وادہ تھا اس کی مدد سے مراکش چلا گیا۔سال 788 میں یہی شخص مراکش میں خاندان ادریسیہ کے نام سے حکومت قائم کی اور تین سال تک حکومت کی۔
خلیفہ ہارون الرشید کا تخت نشینی: خلیفہ مہدی نے ہادی کے بعد اپنے دوسرے بیٹے ہارون رشید کو ولی عہد مقرر کیا تھا لیکن ہادی نے تخت خلافت پر بیٹھتے ہی یہ کوشش کی کہ اپنے بھائی ہارون کو ولی عہدی سے معزول کرکے اپنے بیٹے جعفر کو ولی عہد بنانے لیکن وہ اپنے اس کوشش میں ناکام رہا اور ہادی کی وفات کے بعد اس کا بھائی ہارون رشید عباسی خلافت کا پانچواں خلیفہ مقرر ہوا۔ اس کا دور خلافت سنہ 786 سے لیکر سنہ 809 تک تھا۔ یہ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ ایک ہی رات میں ایک خلیفہ فوت ہوا۔ دوسرا تخت نشیں ہوا اور تیسرا خلیفہ پیدا ہوا۔یعنی جس دن خلیفہ ہادی فوت ہوا اسی دن ہارون رشید خلیفہ بنا اور اسی دن مستقبل میں ہونے والا خلیفہ مامون پیدا ہوا۔سنہ 792 میں جبکہ امین کی عمر صرف پانچ برس کی تھی ہارون الرشید نے لوگوں سے امین کی ولی عہدی کی بیعت لی۔پھر چھ سال بعد 798 میں ہارون نے اپنے بیٹے مامون کو جبکہ اس کی عمر بارہ سال کی تھی ولی عہد بنایا یعنی لوگوں سے اس بات کی بیعت لی کے امین کے بعد مامون تخت خلافت کا مالک ہوگا۔پھر سال 803 میں ہارون نے اپنے تیسرے بیٹے موتمن کو بھی ولی عہد بنایا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر موتمن لایق ہو تو مامون کا جانشین بنے گا ورنہ مامون کو یہ اختیار حاصل ہوگا وہ اس کو معزول کرکے کسی دوسرے کو اپنا ولی عہد بنایے۔
ہارون الرشید نے تخت نشیں ہوتے ہی اپنے وفادار وزیر یحییٰ بن خالد برمک کو امور سلطنت کی ساری زمہ داری سونپ دی اور اسے مختار کل بنا دیا۔ خالد بن برمک ایرانی تھا اور خلیفہ اول سفاح اور خلیفہ منصور کے دور حکومت میں وزیر تھا اور مہدی کا اتالیق تھا۔ دربار میں اس کا بہت ہی اثر و رسوخ تھا۔برمک خاندان بلخ کے باشندے تھے اور آتش پرست تھے۔مسلمان کے بلخ کے فتح کے بعد خالد بن برمک دین اسلام قبول کیا۔ جیسا کہ عموماً ہوتا ہے کہ جب کوئی خلیفہ خلافت کا عہدہ سنبھالتا ہے تو اس کے مملکت میں یہاں وہاں بغاوتیں شروع ہو جاتی ہیں، ویسے ہی خلیفہ ہارون الرشید کے متمکن ہونے کے فورا بعد سال 792 سے 798 تک کچھ صوبوں مثلاً شام، مصر، موصل خراسان وغیرہ میں بغاوتیں شروع ہو گی لیکن ان سب بغاوتوں کو کچل دیا گیا۔
یحییٰ بن عبداللہ کا خروج: سال 792 میں یحییٰ بن عبداللہ بن حسن مثنہ نے ویلم (Daylem) میں خلافت عباسیہ کے خلاف خروج کیا۔ ہارون الرشید اس خبر کو سن کر بہت گھبرا یا اور پچاس ہزار زبردست فوج کے ساتھ فضل بن یحییٰ بن خالد بن برمک کو اس فتنہ کے فرو کرنے کے لیے روانہ کیا۔ یحییٰ بن عبداللہ صلح کے لیے تیار ہو گیا اس شرط کے ساتھ کہ اگر ہارون الرشید اپنے قلم سے صلح نامہ لکھے اور اس پر فقہاء، قضاۃ اور سرداران بنو ہاشم کے دستخط بطور گواہ ثبت ہو۔ یہ شرط منظور کر لی گئی؛ چنانچہ یحییٰ اور فضل دونوں بغداد پہنچے اور ہارون نے نہایت عزت اور تپاک کے ساتھ یحییٰ بن عبداللہ سے ملاقات کی۔ ان کے لیے جاگیر مقرر کی اور انعامات دیے ۔ اس طرح سے یہ بغاوت ختم ہویی۔
وہب بن عبداللہ نسائی کا خروج: سال 798 میں وہب بن عبداللہ نسائی علم بغاوت بلند کرکے خراسان میں لوٹ مار شروع کی۔ جب عیسیٰ بن علی اس کا تعاقب کیا تو وہب نے خایف ہوکر امان طلب کی۔ چنانچہ اس کو امان دی گئی اور وہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔اس فتنہ کے فرو کے بعد حمزہ بن اترک خارجی نے خروج کیا۔ اس کے خلاف عیسیٰ بن علی کو ایک لشکر جرار دیکر بھیجا گیا۔ مقام نیشاپور میں حمزہ کی شکست ہوئی اور تیس ہزار خوارج کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ اس کے بعد خراسان میں امن و امان قائم ہوا اور علی بن عیسیٰ نے اہل خراسان پر سختی و تشدد شروع کیا۔
صوبہ آرمینیا کا فساد: سال 799 میں خاقان (چینی بادشاہ اور ماوراء النہر کے بادشاہ کو خاقان کہا جاتا ہے) نے صوبہ آرمینیا میں ایک لاکھ مسلمانوں کو قتلِ کر دیا اور ہزارہا مسلمانوں اور ان کے عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر کے سخت ترین اذیتیں پہنچائیں گئی۔خلیفہ ہارون الرشید نے یزید بن مزید جو آزربائجان کا عامل تھا اسے آرمینیا کی گورنری پر مامور کرکے روانہ کیا۔ یزید کی فوج جیسے ہی حدود آرمینیا میں داخل ہویی اہل خاقان آرمینیا کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور اسلامی فوج نے دوبارہ اپنا قبضہ و تسلط قائم کیا۔
ابراہیم بن اغلب جو زاب کا عامل تھا اس نے ہارون الرشید کو درخواست بھیجی کہ مجھ کو صوبہ افریقہ کا گورنر بنا دیا جائے تو میں چار لاکھ سالانہ خراج خزانہ خلافت میں بھجواتا رہوں گا۔ مشیروں سے مشورہ کے بعد ابراہیم بن اغلب کو سند گورنری بھیج دی گئی اور اس نے تمام باغی سرداروں کو جن سے ابراہیم خوب واقف تھا چن چن کر گرفتار کیا اور بغداد بھیج دیا جس سے تمام شورش یکایک فرو یو گئی۔ اس کے بعد ابراہیم نے قروان کے پاس ایک شہر آباد کیا اور اس کا نام عباسیہ رکھا۔ اسی عباسیہ کو اس نے دارلحکومت بنایا اور الأغالبة نام کی حکومت کی بنیاد ڈالی جسے سال 909 میں فاطمیوں نے ختم کر دیا۔
خلیفہ ہارون الرشید کے عہد خلافت میں فرانس کا شہنشاہ شارلیمین اٹلی اور شمالی جرمنی کے علاقوں کو فتح کیا اور وہاں کے لوگوں کو زبردستی عیسائی مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا۔ شارلیمین کے بڑھتی ہوئے طاقت اقتدار اور سلطنت کے وسعت سے مشرقی رومی سلطنت یعنی بازنطینی سلطنت کی ملکہ ایرینی (Irene) خایف ہو گیی۔ایرینی بارہا کوشش کی کہ شارلیمین سے اسکی شادی ہو جائے لیکن اس کی یہ خواہش ناکام ہو گیی۔ شارلیمین کے ساتھ عسکری تصادم سے بچنے کے لیے اس نے ہارون الرشید سے صلح کرنے اور سالانہ خراج دینے کی پیشکش کی۔ سال 802 میں ایرینی معزول یو گئی اور اس کی جگہ نقفور اول ( Nikephoros I) بازنطینی شہنشاہ مقرر ہوا۔تخت نشیں ہوتے ہی قیصر روم نے خلیفہ ہارون الرشید کو سالانہ خراج دینے سے انکار کر دیا اور یہ خط لکھا: ملکہ نے اپنی فطری کمزوری کے سبب تم سے دب کر صلح کر لی تھی اور تم کو خراج بھی دیتی رہی لیکن یہ اس کی نادانی تھی۔ اب تم کو چاہیے کہ جس قدر خراج تم ہماری سلطنت سے وصول کر چکے ہو وہ سب واپس کرو اور جرمانہ میں ہم کو خراج دینا منظور کرو ورنہ پھر تلوار کے ذریعہ تم کو سزا دی جائے گی۔ خط پڑھتے ہی ہارون طیش میں آیا اور اس خط کی پشت پر لکھا کہ: "بسم اللہ الرحمن الرحیم، از جانب امیرالمومنین ہارون الرشید بنَام سگ روم، او کافر کے بچے میں نے تیرا خط پڑھا۔ اس کا جواب تو آنکھوں سے دیکھے گا سننے کی ضرورت نہیں۔” یہ جواب لکھ کر خط واپس بھیج دیا اور اسی روز لشکر لے کر بغداد سے بلاد روم کی طرف روانہ ہو گیا اور بہت سے قلعوں کو فتح کر کے مسمار کر دیا۔شہر ہرقلہ(Heraclius) کا محاصرہ کیا گیا اور اسے برباد کر دیا گیا۔
نفقور حیران و پریشان ہو گیا اور اس نے عاجزانہ معافی کی درخواست پیش کی اور مغلوب اور ذلیل ہوکر جزیہ دینے کا اقرار کیا۔ دونوں طرف سے قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا گیا۔
خلیفہ ہارون الرشید کو تین چیزوں کا بڑا شوق تھا۔۔۔۔ ایک جہاد کرنا، دوسرا حج کرنا اور تیسرا خیرات تقسیم کرنا۔۔ اس کا دستور تھا کہ ایک سال کفار سے جہاد کرتا اور ایک سال حج کے لیے جاتا۔ کسی خلیفہ نے اس قدر حج نہیں کیے جس قدر ہارون الرشید نے کیے۔ ہارون کا 186 ہجری کا حج قابل تذکرہ ہے کیونکہ اسی حج ایام میں خانہ کعبہ پر وہ عہدنامہ لٹکایا گیا جس کا تعلق ہارون الرشید کے تینوں بیٹوں کے ولی عہدی سے تھا۔ حج کے موقع پر حرمین شریفین میں اپنی سخاوت اور دریا دلی کا خوب اظہار کیا۔ اہل مکہ اور اہل مدینہ کو انعامات سے مالامال کیا اور غرباء کو خیرات میں اشرفیاں تقسیم کیں۔
خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں بغداد علم تمدن اور تجارت میں دنیا کا ایک مرکز بن گیا تھا۔ اس نے علم اور فنون لطیفہ کو فروغ دیا اور بغداد میں دارالحکمہ (House of wisdom) قائم کیا۔اس کے زمانہ میں عبرانی زبان میں تحریر شدہ کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔موسیقی اور شاعری کو فروغ حاصل ہوا۔وہ خود ایک تعلیم یافتہ خلیفہ تھا۔ انہوں نے امام مالک رح سے علم حدیث سیکھی۔ اسے صوفیوں،فقہاء اور محدثین کے مابین تشریف رکھنے اور علم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ تحصیل علم کے لیے وہ دور دراز تک کا سفر کرتا تھا۔وہ اپنے دونوں بیٹوں کو امام مالک رح سے تحصیل علم حدیث کے لیے بغداد سے مدینہ منورہ تک سفر کیے۔ خلیفہ کا فرانس کے شہنشاہ شارلیمین کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔جب کبھی فرانس سے شاہی وفد ہارون سے ملاقات کے لیے آتے تو واپسی پر ہارون شارلیمین کو نہایت شاندار تحائف پیش کرتے۔ ہارون الرشید کے دور خلافت میں اندلس میں بنو امیہ کی خلافت قائم ہو چکی تھی اور عبدالرحمن بن معاویہ اموی اندلس کا خلیفہ تھا۔شارلیمین کے ساتھ عباسی خلفاء کے اچھے تعلقات کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ شارلیمین سے خط و کتابت کرکے اس کو ملک اندلس پر حملہ کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔خلیفتہ المسلمین مہدی جو تمام عالم اسلام کے دینی و دنیوی پیشوا سمجھے جاتے تھے ان کا منشاء یہ تھا کہ عبدالرحمن کی حکومت کو مٹا دیا جائے۔ ہارون الرشید نے بھی شارلیمین سے دوستی کے تعلقات پیدا کرنے میں اموی سلطنت کی مخالفت مد نظر رکھی تھی۔شیعوں کے ساتویں امام موسیٰ کاظم ابن امام جعفر صادق کو ہارون الرشید نے بغداد میں قید کرکے رکھا اور علویوں کے خروج کے ڈر سے ان کو بغداد سے نکلنے کی اجازت نہیں دیتا یہاں تک کی انکی موت ہو گیی اور بغداد میں مدفون ہوۓ۔ہارون الرشید ایک محتمل مزاج خلیفہ تھا۔وہ دوسرے مذاہب کی ناقدری نہیں کرتا تھا۔ وہ یہودی اور نصاریٰ علماء کی قدر کرتا تھا۔اس کی فوج کا سپہ سالار عیسائی تھا اور اس کا شاہی طبیب یہودی تھا۔
تحریر: ریاض فردوسی، پٹنہ 9968012976