ازقلم: جمال احمد صدیقی
3 ھجری 17 رمضان المبارک مقامِ بدر میں تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان یادگار دن ہے کہ ۔ جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس میں کفارِ قریش کے طاقت کا گھمنڈ خاک میں ملنے کے ساتھ اللّٰہ کے مٹھی بھر نام لیواؤں کو وہ ابدی طاقت اور رشکِ زمانہ غلبہ نصیب ہوا کہ جس پر آج تک مسلمان فخر کا اظہار کرتے ہیں ۔
13 سال تک کفارِ مکہ نے محمد رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ۔ ان کا خیال تھا کہ مٹھی بھر یہ بےسروسامان سر پھرے ۔ بھلا ہمارے جنگی طاقت کے سامنے کیسے ٹھہر سکتے ہیں ۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔
اللّٰہ رب العزت کی خاص فتح ونصرت سے 313 مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا بڑے لاؤ ولشکر کو اس کے تمام تر مادی اور معنوی طاقت کے ساتھ خاک چاٹنے پر مجبور کردیا تھا ۔
دعائے رسول اکرم ﷺ اور جذبہ ایمانی سے سرشار چودہ صحابہ کرام نے دادِ شجاعت کی تاریخ رقم کرکے ستر جنگجو دشمنان اسلام کو واصل جہنّم کرنے کے بعد جام شھادت نوش کرلیا ۔
اس دن حضور ﷺ نے یہ دعا فرمائی تھی ۔
اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا کر ۔ یااللہ ۔ اگر تیری مرضی یہی ہے کہ ( کافر غالب ہوں ) تو پھر زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا ۔
اسی لمحے رب العالمین نے فرشتوں کو وحی دے کر بھیجا ۔ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ تم اہلِ ایمان کے قدم جماؤ ۔ میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا۔ سنو ! تم گردنوں پر مارو (قتل) اور ان کی پور پور پر مارو۔ (سورہ انفال آیت 12)
مقام بدر میں لڑی جانے والی اس فیصلہ کن جنگ نے یہ ثابت کیا کہ مسلمان نہ صرف ایک قوم بلکہ مضبوط اور طاقتور فوج رکھنے کے ساتھ بہترین نیزہ باز ۔ گھڑ سوار اور دشمن کے وار کو ناکام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر اسلام کے فلسفہ جہاد کا نقطۂ آغاز ہے ۔ یہ وہ اولین معرکہ ہے جس میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے جنت میں داخل ہونے میں بھی پہل کرنے والے ہیں ۔ قرآن مجید کی کئی آیات اور احادیث مبارکہ غزوۂ بدر میں حصہ لینے والوں کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔
ایک آیت میں اللّٰہ رب العزّت فرماتا ہے کہ:
میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے سے آئیں گے۔ (سورہ انفال آیت 9)
غزوۂ بدر کو چودہ سو سال گزر گئے ہیں لیکن اس کی یاد آج کے گئے گزرے مسلمانوں کے ایمان کو بھی تازہ کردیتی ہے ۔ صدیوں بعد آج بھی مقام بدر کفار مکہ کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح وکامرانی کی گواہی دیتا ہے ۔ مقام بدر کے آس پاس رہائش پذیر شہریوں کو اس مقام کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کا ادراک ہے ۔
فضائے بدر کو اک آپ بیتی یاد ہے اب تک ۔
یہ وادی نعرۂ توحید سے آباد ہے اب تک ۔
غزوۂ بدر کو چودہ سو سال گزر چکے ہیں لیکن اس کی یاد آج بھی مسلمانوں کے ایمان کو تازہ کردیتی ہے ۔ صدیوں بعد آج بھی مقام بدر کفارِ مکہ کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح وکامرانی کی گواہی دیتا ہے ۔
موجودہ دور میں مسلمانوں کی زوال پزیری اور کفار کے غالب آنے کی وجہ یہی ہے کہ آج مسلمانوں کے پاس تمام وسائل موجود ہونے کے باوجود بھی وہ بدر واحد کے جذبے سے آرای ہیں۔
ہتھیار ہیں اوزار ہیں افواج ہیں لیکن
وہ تین سو تیرہ کا لشکر نہیں ملتا