سیاست و حالات حاضرہ

موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داری

تحریر: اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

جس تیزی سے وطن عزیز میں مسلمانوں کے حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو مستقبل بہت تاریک نظر آرہا ہے۔ کوئی روز ایسا نہیں گذر رہا ہے جس میں مسلمانوں کے تعلق سے ایک نیا شوشہ نہ چھوڑا جارہا ہو۔ گزشتہ تین سالوں میں ہر حد پار کرنے کی جو دوڑ شروع ہوئی ہے اس کا اختتام سوچتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ جاہ اور دولت کی ہوس نے کچھ لوگوں کو اتنا اندھا کر دیا ہے کہ وہ حالات کے بگاڑ کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھنے کے لئے با لکل تیار نہیں ہیں۔ اصحاب اقتدار کے ذریعے ہر عمل کو کسی بات کا رد عمل اور ہر پر تشدد کاروائی کوکسی خود ساختہ تاریخی واقعہ یا بے سر وپیر کی کسی افواہ کا نتیجہ ٹہرانا معاشرے کو انارکی کے ایک ایسے اندھے کنوئیں میں دھکیلنے کی دانستہ کوشش ہے جس کے تہہ میں بھیانک تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مذہب اور وطن پرستی کے نام پر ہپناٹائز کرنے والے جذباتی نعروں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں نفرت اور تعصب کا زہر اس حد تک گھول دیا گیا ہے کہ وہ اچھے برے، غلط صحیح اور نیکی بدی کی تمیز کھوچکے ہیں اور ہر وہ کریہہ عمل کر گزرنے کو تیار ہیں جس سے انسانیت تو کیا شیطانیت بھی شرمسار ہو جائے۔

ایسے حالات میں ہم مسلمانوں پر دوہری ذمہ داری ٹہرتی ہے۔ پہلی ذمہ داری،حالات کو سمجھ کر اس کے پیچھے جو محرکات ہیں، مکاریوں اور عیاریوں سے بھرے جو منصوبے ہیں ان سے مکمل آگہی حاصل کر کے، ان سے بچاؤ کے لئے ملکی قانون اور انسانیت کے اعلیٰ معیاروں کو دھیان میں رکھتے ہوئے ایک لائحہ عمل تیار کر کے اس پر سختی سے عمل کرنا، دوسری ذمہ داری، جذباتی نعروں اور مذہبی عقیدت مندی کے نام پر مٹھی بھر سرمایہ داروں اور اقتدار کے ہوس میں مبتلا نام نہاد رہنماؤں کے جال میں پھنس کر، جو انہوں نے اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ میں بچھا رکھے ہیں، عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ جو بغیربات سمجھے وطن عزیز کو انارکی اور انتشار کی طرف لے جارہا ہے، اُسے داعیانہ خلوص و محبت، پیغمبرانہ حکمت اور دانائی سے صحیح بات سمجھانا، جھوٹ اور فریب کی مصنوعی روشنی سے نکال کر اُسے سچ کے سورج کے آگے کھڑا کرنا۔یہ ایسی ذمہ داری ہے جو انسانیت اور وطن عزیزکی حفاظت کی خاطر ہمیں ہر حال میں بحیثیت مسلمان اور ذمہ دار شہری کے نبھانی ہے۔

ان دونوں ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہمیں والہانہ شوق و جستجو اور جراءت رندانہ کی ضرورت ہے جو پہاڑوں سے ٹکرانے کا، بپھرے ہوئے سمندروں اور دریاؤں کو چیرتے ہوئے پار کرنے کا اور آسمانوں پر کمندیں ڈالنے کا عزم رکھتی ہو۔یہ جراءت رندانہ ہم میں اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب ہم اپنے رب پر کامل یقین پیدا کر لیں۔رب کی ذات پر توکل ہی ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس ہتھیار کے بل بوتے پر ہم وہ سب کچھ کر سکتے جس کا کوئی دوسرا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا میں ایک پتہ بھی خداکے حکم کے بغیر ہل نہیں سکتا، دنیا کے سارے مخلوقات مل کر کتنا بھی مکر کرلیں لیکن جب ہمارا رب مکر کرنے پر آئے گا تو سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے گا، زندگی اور موت اسی کے قبضہ ء قدرت میں ہے اور اس کے اذن کے بغیر نہ کوئی ہمیں زندگی کی ایک سانس دے سکتا ہے نہ اس کے مقرر کردہ وقت سے ایک لمحہ قبل موت۔ یہ سب باتیں ہمارے ایمان اور یقین کا حصہ ہیں، ہمیں بس اتنا کرنا ہے کہ اس یقین کو اپنی انتہا تک لے جانا ہے۔ اس احساس کے ساتھ کہ ہمارا رب عظیم ہمارے ساتھ ہے ہمیں ہر قسم کے حالات کے سامنے ڈٹ جاناہے۔ چاہے اپنی ذات کے بچاؤ کا مرحلہ ہو یا بھٹکے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کے لئے سچ کے سورج کو بلند کرنے کامرحلہ،ہمیں ہر حال میں یہ بات لازم پکڑنی ہوگی کہ جب تک ہمارا پروردگار نہ چاہے کوئی ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔

تاریخ گواہ ہے گزشتہ چودہ سو سالوں میں مسلمانوں پر بد سے بد ترین دور بھی گذرے، ایسے دور بھی گذرے جب دنیا کو لگا اب یہ ملت کبھی سر بلند ہو ہی نہیں سکتی لیکن زمانے نے دیکھا کہ مسلمان تازہ بہ دم اپنے ماضی سے سبق لیتے ہوئے اپنے جسم پر جمی اپنی تباہی و بربادی کی گرد جھاڑ کر انگڑائی لیتے ہوئے اٹھا اور وقت ایک بار پھر اس کی مٹھی میں آگیا۔ قدرت کے فیصلے عجیب ہوتے ہیں۔ وہ قوموں کی تقدیر اس طرح الٹتی پلٹتی رہتی ہے جیسے کوئی بچہ اپنی کتاب کے اوراق الٹتا پلٹتا ہے۔ اس لئے گھبرانے اور ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، حالات چاہے کچھ بھی ہوجائیں اگر ہم مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کرتے رہیں گے تو وقت بدلتے دیر نہیں لگے گی۔ لیکن اتنا یاد رہے،حد سے گذرنے والوں کو خدا کبھی معاف نہیں کرتا، ظلم چاہے کوئی بھی کرے ظلم ہی ہے، ظلم اور بے انصافی چاہے وہ رائی کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو حد سے گزرنا کہلاتا ہے۔ راہ اعتدال ہمارا طرہ امتیاز ہے، ہمیں ہر حال میں اس پر مضبوطی سے قائم رہنا ہے اور اس سے سر مو بھی نہیں ہٹنا ہے۔ وطن عزیز میں ہماری سر بلندی اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب ہم راہ اعتدال میں جمے رہیں، اخلاق اور انسانیت کے بلند اصولوں پر جو ہمیں ہمارے رب نے سکھائے ہیں کوئی سمجھوتہ کئے بغیر، داعیانہ فہم، بصیرت، للہیت ، خلوص، حکمت و دانائی کے ساتھ حالات سے مقابلہ کرتے رہیں۔

یقین رکھیں جھوٹ اور مکاری کی تاریکی چاہے کتنی ہی بھیانک اور خوفزدہ کرنے والی کیوں نہ ہو سچائی کاسورج جب طلوع ہوگا تو ایسے فنا ہوجائے گی جیسے کبھی اُس کا وجود تھا ہی نہیں۔