از قلم۔محمد معین الدین قادری
مقام وپوسٹ پکری آراضی، ضلع سنت کبیر نگر
قلم سے قوموں کی تقدیریں لکھی جاتی ہیں -اگر لکھنے والے کسی غلط بات کی حمایت ایک مد ت تک کرتے ہیں تو آنے والی نسل اُس غلط بات کو کئی مدتوں تک صحیح تسلیم کرتی ہے اس کی جیتی جاگتی مثال تاریخ آزادی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جو زندگی بھر انگریزوں کے تلوے چاٹتے رہے اور ان سے ماہانہ تنخواہیں لیکر ان کی غلامی کرتے رہے آج وہی لوگ شہید وطن اور غازی کے لقب سے یاد کۓ جاتے ہیں۔ اور جنہوں وطن عزیز کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا آج ان کا کوئی ذکر و تذکرہ نہیں یہ قلم ہی کا دین ہے اور اس لیے کہ ہمارے قوم کے بچوں کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے موبائل فون ہیں۔
یاد رہے کہ قلم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، کیونکہ قلم سے بہت سے دینی و دنیوی مصالح و فوائد وابستہ ہیں اور جب ہم اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کی ذات کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ نے جتنا زور قلم و قرطاس پر دیا اتنا کسی اور چیز پر نہیں۔
یہ بھی بات سچ ہے کہ خطیب کے خطاب کے ذریعہ قوم مسلم کے دلوں میں جوش و جزبے کی دبی ہوئی چنگاری کو دہکایا جا سکتا ہے مگر زبان کی طاقت متعین وقت کے لئے ہے جب تک زبان میں طاقت و قوت ہے اس وقت تک انسان زبان کے ذریعہ کام کر سکتا ہے۔
مگر قلم ایک ایسی طاقت ہے جو تا قیامت رہے گی کتابت و تحریر ایک ایسی چیز ہے جس کا اگر چہ آہستہ آہستہ اثر ہوتا ہے مگر اس تحریر کا اثر صدیوں تک بر قرار رہتا ہے،آنے والی نسلیں اس سے اپنے آباء واجداد کے حسین کارناموں کو دیکھ کر اس پر عمل پیرا ہوتی ہیں آپ ذرا غور وفکر کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر یہ تصور کریں کہ اللہ ربّ العزت نے قرآن شریف میں کیوں قلم کی قسم کھائی ہے،اور آپ یہ بات بھی ذہن نشیں کر لیں کہ قسم اس کی کھائی جاتی جس کی عظمت و رفعت ہمارے درمیان اہم ہو ،لہذا واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قلم کی ایک بڑی اہمیت ہے اس لیے اللہ تعالٰی نے قرآن شریف میں قلم کی قسم کھائی،تاکہ لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہو جائیں کہ قلم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ،اور لوگ قلم کی اہمیت و افادیت کو سمجھیں
ابن حاتم حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ قول نقل فرماتے ہیں کہ قلم اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک عظیم نعمت ہے،اگر قلم نہ ہوتا تو دین قائم نہ رہتا اور نہ زندگی کی اصلاح ہوتی۔
اس سلسلے میں ایک بات اور ملاحظہ فرماتے چلیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں کوئی بھی مجھ سے زیادہ حدیث بیان کرنے والا نہیں مگر عبداللہ بن عمرور ضی اللہ عنہ کیوں وہ تحریر کرتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا،اس حدیث شریف سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کو مستثنیٰ فرمانا محض کتابت و تحریر کی وجہ سے تھا کیونکہ لکھنے سے باتیں محفوظ رہتی ہے۔ایک مقام پر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ،علم کو لکھ کر محفوظ کر لو(مستدرک جلد اول صفحہ ۱۰۲)
جیسا کہ ہم نے پہلے ہی کہا ہے کہ ملک کو تباہی کے دلدل تک پہنچانے والے غازی وطن کہلاتے ہیں،یہ اس لیے کہ ہم نے تحریری میدان میں زیادہ زور نہیں دیا ہےاگر ہمارے جوانوں میں تحریری جزبہ ہوتا تو ہم شاید ( سن۱۸۵۷ء)
کی وہ تاریخ کو نہ بھولتے کہ جب انگریزوں کی ناپاک حکومتیں علماء حق سے صرف ایک مطالبہ کر رہے تھے کہ اے قوم مسلم کی اصلاح کرنے والے عالموں اپنے قدم کو پیچھے ہٹا لو نہیں تو مارے جاؤ گے مگر وہ علماء حق جنہوں نے حضور ﷺ کی تعلیم کو اپنے سینے میں قیمتی موتی کی طرح بسا لیا ہو وہ کہاں میدان چھوڑ کر بھاگنے والے تھے
اور کہتے تھے کہ تم ہمارے جسموں سے ہماری جانیں جدا کر دو مگر ہم آخری سانس تک اپنے ملک کی حسن و بقا کی خاطر لڑتے رہیں گے، اور آخر وہ وقت بھی آیا کہ علماء کرام کو گرفتار کرکے ان کی گردنیں کاٹ لی گئ اور ان کی گردنوں کا مینار بنایا گیا اور یہاں تک اسی ہندوستان میں ایک جگہ ہے جو چاندنی چوک گلی کے نام سے مشہور ہے وہاں کی گلیوں میں صرف علماء کرام کی گردنیں نظر آ رہی تھیں اور ایک کڑھائی میں تیل کو گرم کرکے اس میں علماء کرام کو بلا لباس ڈالا جاتا تھا اللہ اکبر
المختصر قوم مسلم کے نوجوانوں کو تحریری میدان میں آنا ہوگا
اور قلم کے ذریعے سے قوم کی اصلاح کرنی ہوگی تاکہ ہم ہر میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیں
میری ہمت کو سرا ہو میرے ساتھ چلو
ہم نے ایک دیپ جلایا ہے اندھیروں کے خلاف