تعلیم

اسلامی اسکول کا قیام بے حد ضروری

ازقلم: برکت خان امجدی فیضانی، پیپاڑ

آج اس دور ارتداد میں یہود، ہنود اور نصاری اپنی مذہبی تعلیم کو بڑے حسین انداز میں عصری علوم کے ساتھ ضم کئے ہوئے ہیں جس سے ان کے مذہب کے ماننے والے کبھی ترک مذہب کے شکار نہیں ہوتے ہیں دانش انور صاحب کی تحریر کے مطابق٫٫ اس میں کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ چھوٹے بچوں کو سلیب یا حضرت عیسیٰ و حضرت مریم و حضرت عزیر علیھم السلام و سرسوتی کی ان کے خود ساختہ مجسموں کے آگے مناجات ان کی عبادت کے مطابق کروائے جاتے ہیں اب یہ تو یقین ہے کہ یہ پراتھنا کفر و شرک سے خالی نہیں اور ساتھ ہی ان کی مذہب کی اکثر کتب پڑھائی جاتی ہے اور ان اسکولوں میں مسلم بچے بھی داخل ہوتے ہیں،،
جو آخر میں جاکر ارتداد کے شکار ہو جاتے ہیں اور اسلام سے رو گردانی کر لیتے ہیں۔
اس کا رد فقط اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہمارے پاس اعلی معیار کے اسلامی اسکول ہوں اور ان میں عصری علوم اعلی نہج پر ہو اور ساتھ ہی ساتھ دینی مضامین بھی ضروری ہو اس سے یہ ہوگا کہ ایک سادہ لوح بچہ ارتداد کا شکار نہ ہوگا غیر مسلموں کے سارے ایجنڈے ناکام ہو جائیں گے ورنہ آج تو ہوتا یوں ہے کہ کافی لوگ اتنے سیکولر ہو جاتے ہیں کہ اپنے مذہب کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
ان اسکولوں کے کمروں میں اسلامی مقدس مقامات کی تصاویر چسپہ کر دی جائیں اور بچوں کو بتایا جائے کہ یہ فلاں مقام ہے اس کی تاریخ یہ ہے ورنہ آج یہودیوں کی ایک بڑی چال ہے کہ قبة الصخراء کو بیت المقدس بتاتے ہیں اور اصلی بیت المقدس کو چھپانے میں لگے ہوئے ہیں اور مسلم اسی قبة الصخراء کو مسجد اقصیٰ سمجھ بیٹھے ہیں نیز قرآن مجید کے ساتھ عقائد و عبادات و مسلک و تاریخ اسلام و سیر کے متعلق کتب پڑھائی جائے جس سے نسل نو دین پر قائم رہے گی ان شاءاللہ تعالیٰ
اب ایسے بھی ہزاروں لوگ ملتے ہیں جو بظاھر مسلم لگتے ہیں لیکن ان کے عقائد ونظریات حد کفر تک پہنچ چکے ہیں یہ لوگ سادہ لوح مسلم بچوں کو خاص طور پر صرف عصری علوم سے وابستگان کو کچھ اس طرح بہکاتے ہیں اولا جو چیز ذکر کرتے ہیں وہ یہ کہ آپ فرقہ پرستی چھوڑ دیں یہ سب مولوی لوگوں کے بنائے ہوئے گروہ ہیں باقی سب لوگ ایک ہی ہے دوسرا بڑا ہتھکنڈا یہ استعمال کرتے ہیں کہ آپ کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے تو آئمہ مجتہدین کے بتائے ہوئے مسائل پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے تیسری بات یہ کہتے ہیں کہ ہم نہ سنی ہیں نہ وہابی ہم صرف مسلم ہیں لھذا آپ بھی مسلم بن جائیں ان باتوں کو آج اکثر عصری علوم سے وابستگان حضرات تسلیم بھی کرتے ہیں اور ان کی اس ایک طرفہ سوچ کے شکار بھی ہو جاتے ہیں لیکن کریں بھی تو کیا آج ہمارے ملک میں غیر مقلدیت فکر و نظر کے ماننے والوں کے پاس بڑی بڑی یونیورسٹیز موجود ہے لیکن ہمارے مسلک کے ماننے والوں کی یہ حرمہ نسیبی ہے کہ ان کے پاس کوئی اس کا بدل نہیں ہے اگر ہے بھی تو فقط عصری علوم اس میں داخل ہے دینی تعلیم آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں بس فقط اردو مضمون کو داخل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی اسلام ہے
ہماری اس کمزوری کے سبب آج آپ کو مسلم نام والے ڈاکٹر، انجینئر، آفیسر اور نامور کاروباری مسلم ہوتے ہوئے غیر مقلد ہوتے ہیں اگر عالمی جائزہ لیا جائے تو اکثر عالمی شناخت والے لوگ یہودیت کے شکار ہے بلکہ خود مسلم ممالک یہود کے غلام ہیں
اگر اس کا رد راجستھان کی زمین پر دیکھا جائے تو بہت کم ملتا ہے ان میں ایک فیضان اشرف سینئر سیکنڈری اسکول جہاں بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ دینی علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں اور خاص طور پر قرآن اور عقائد و عبادات پر نظر کی جاتی ہے ہمارے شیخ مصلح قوم و ملت حافظ سعید صاحب اشرفی کی دور اندیشی ہے آپ کی اس کوشش سے کئی ایک غیر مقلدوں کے پسینے چھوٹ نے لگے ہیں آپ کا عزم عالی ہے کہ جہاں بچہ عصری علوم حاصل کرے ساتھ ہی ساتھ دینی علوم سے اس طرح مزین ہو جائے کی وہ اپنے عقائد و ایمان کی حفاظت کر سکے اور مذبذبیت کا شکار نہ ہو اگر غیر مذھب لوگوں کے بیچ بھی رہے تو اپنی مذھبی شناخت باقی رکھے اور ہر حال میں مسلک کا پاسدار رہے اسی لئے آپ نے اسکول کے ساتھ فرض علوم کو لازم کردیا ہے جب بچہ سادہ لوح ہو تو اس پر مذھبی رنگ بھی چڑھادیا جائے بعد میں وہ کسی سیکولر کا نشانہ نہ بن پائے گا۔

آپ کی فکر یہ بھی تھی کہ بی یو ایم ایس کالج کا قیام جس سے نکلنے والے ڈاکٹر فقط ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ عالم دین بھی ہونگے آپ کے اس عزم عالی شان میں کئی رکاوٹیں پیش آئی لیکن آپ نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل جد وجہد کرتے رہے اور آخری کار منزل کے قریب پہنچ ہی گئے
الغرض آپ نے مسلم بچوں کے ایمان و عقائد کی حفاظت کے لئے ایک سعی بلیغ کی جو کامیابی سے سرفراز ہوئی۔
اللہ کریم آپ کا سایہ ہم پر تادیر قائم فرمائے آمین ثم آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے