ازقلم: نازش مدنی مرادآبادی
استاد: جامعۃ المدینہ، بنگلور کرناٹک
سرزمین پیلی بھیت بڑی زرخیز ثابت ہوئی ہے۔ہمیشہ ہی سے علوم وفنون کا مرکز اور رشد وہدایت کا سرچشمہ رہی ہے۔ علم وفضل اور تصوف وروحانیت کی ایسی قدر آور اور نابغہ روزگار شخصیات کا یہاں سے تعلق رہا ہے جن کی علم و حکمت کی عطربیزیوں سے عالم معطر ومشکبار ہوتا رہا ہے۔ انہیں شش جہات اور تاریخ رقم شخصیات میں ایک عظیم ذات ممدوح گرامی فاضل مصر، عالم بے نظیر، ممتاز العلماء، استاذ العلماء، محدث وفقیہ حضرت علامہ الشاہ مفتی کرامت رسول نوری ازہری محدث پیلی بھیتی قدس سرہ العزیز کی بھی ہے۔
خاندانی شرف:
حضور محدث پیلی بھیت علامہ مفتی کرامت رسول نوری ازہری علیہ الرحمۃ والرضوان کا تعلق ایک عظیم علمی وروحانی خاندان سے تھا۔ آپ کے والد گرامی حضرت الحاج حافظ عنایت رسول علیہ الرحمہ سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ کے مرید اور حضور قطب مدینہ علامہ شیخ ضیاء الدین مہاجر مدنی علیہ الرحمہ کے خلیفہ اور فیض یافتہ تھے۔ اور آپ کے عمّ محترم حضور امانت اعلیٰ حضرت، حضرت مولانا قاری امانت رسول قادری نوری، حضور مفتی اعظم ہند قدس کے تلمیذِ رشید ومرید حقیق اور اور لائق وفائق خلیفہ تھے۔اور آپ کے جدِگرامی حضرت الحاج فیض رسول علیہ الرحمہ سیدنا سرکار اعلیٰ حضرت عظیم البرکت الشاہ امام احمد رضا خاں محدث بریلوی قدس سرہ العزیز کے مرید اور سرکار محدث سورتی علامہ وصی احمد سورتی ثم پیلی بھیتی اور قطب پیلی بھیت حضرت شاہ جی محمد شیر میاں علیہما الرحمہ کے فیض یافتہ تھے۔ اور آپ کے پردادا حضرت الحاج محمد عبد الرسول علیہ الرحمہ اعلیٰ حضرت کے مرشد گرامی حضرت خاتم الاکابر علامہ سید شاہ آل رسول مارہروی قدس سرہ کے مرید تھے۔
ولادت باسعادت :
حضور فاضل ازہر علامہ شاہ کرامت رسول ازہری علیہ الرحمہ کی پیدائش ٣٠/ربیع الآخر ١٣٩٧ھ مطابق ١٢/ اپریل بروز چہار شنبہ صبح صادق کے وقت خلیفہ قطب مدینہ حضرت الحاج حافظ عنایت رسول قادری نوری ضیائی علیہ الرحمہ کے مکان عالیشان میں ہوئی۔
اسم گرامی :
آپ کی ولادت باسعادت چونکہ سیدنا سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی دعا سے ہوئی تھی۔ اس واسطہ جب آپ چھ دن کے تھے تو حضرت مفتی اعظم ہند آپ کے یہاں تشریف لائے۔ آپ کے عم محترم حضرت قاری امانت رسول صاحب قبلہ نے چھ دن کے اس نومولود کو حضور مفتی اعظم ہند کی آغوش کرم میں جب سپرد کیا تو حضور مفتی اعظم قدس سرہ نے نہ صرف یہ کہ آپ کو پیار سے چوما بلکہ محمد کرامت رسول نام رکھ کر تاریخی نام منھاج الرضا نوری (١٣٩٧ھ) تجویز فرما کر بے شمار دعاؤں کے ساتھ اپنی بیعت سے سرفراز بھی فرمایا۔
تعلیم وتربیت :
آپ علیہ الرحمہ نے ابتدائی ناظرہ کی تعلیم اپنے ہی گھر والدین کریمین کے زیر سایہ حاصل کی۔ اور فن تجوید اپنے عم محترم حضور امانت اعلیٰ حضرت ،حضرت قاری امانت رسول پیلی بھیتی علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔ بعدہ مفتی پیلی بھیت حضرت علامہ مفتی وجیہ الدین امانی(سجادہ نشین خانقاہ ضیائیہ، پیلی بھیت شریف) اور حضرت علامہ مفتی حفیظ الرحمٰن صاحب(سابق مفتی ومدرس دار العلوم مظہر اسلام ،بریلی شریف) سے کیا۔ اس کے بعد درس نظامی کی مزید تعلیم کے لئے آپ علیہ الرحمہ جامعہ غوثیہ( نیوریا حسین پور، پیلی بھیت) حضرت سید احسن میاں صاحب کی سرپرستی میں چلے گئے۔ جہاں آپ نے چند سال شہزادہ سبحانی میاں حضرت صاحبزادہ مولانا احسن رضا خان قادری ( سجادہ نشین درگاہِ اعلیٰ حضرت، بریلی شریف) کی معیت میں تعلیم حاصل کی۔ پھر سن ١٩٩۵ء میں آپ نے وہاں سے اپنی عنان تعلیم کو ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی طرف موڑا جہاں جماعت رابعہ سے دورہ حدیث شریف تک علوم وفنون میں آپ نے مہارت حاصل کرکے سن ١۴٢۰ھ١٩٩٩ء مطابق میں سند فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد اختصاص فی الادب العربی والدعوۃ والتبلیغ کے لئے آپ جامعہ حضرت نظام الدین اولیا (ذاکر نگر ،دہلی) چلے گئے۔جہاں آپ نے عربی زبان وادب اور دعوت وتبلیغ کا دو سالہ خصوصی کورس ۵/مئی٢۰۰١ء میں مکمل کیا۔
جامعہ ازہر کی طرف روانگی:
اس دو سالہ کورس کی تکمیل کے بعد آپ دنیاے اسلام کی عظیم دینی ودنیوی درس گاہ جامعہ ازہر مصر شریف تشریف لے گئے۔ جہاں ١١ /اگست ٢۰۰١ء سے اکتوبر ٢۰۰۶ء تک آپ نے انتہائی محنت ولگن اور دل جمعی کے ساتھ تعلیم حاصل کی اور رمضان المبارک١۴٢٧ھ/ اکتوبر٢۰۰۶ء میں اعلیٰ نمبروں سے علم تفسیر وحدیث میں بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے وطن عزیز ہندوستان کی طرف واپس ہوئے۔
تدریسی خدمات :
مصر شریف سے آنے کے بعد سب سے پہلے آپ کو راجستھان کی عظیم علمی درس گاہ دار العلوم فیضان اشفاق جاجولائی،ناگور شریف میں بحیثیت شیخ الحدیث مدعو کیا گیا۔ لہٰذا آپ نے وہاں جاکر طالبان علوم نبویہ کو علمی فیضان سے تقریباً ایک ساتھ مستفیض فرمایا۔ اس کے بعد ساوتھ افریقہ میں حضرت علامہ سید علیم الدین اصدق مد ظلہ العالی نے دارا العلوم قادریہ غریب نواز میں نائب شیخ الحدیث کے لئے آپ کو مدعو فرمایا۔ چنانچہ علم حدیث کی روشنی پھیلانے کے لئے آپ نے ساوتھ افریقہ کی طرف رخت سفر باندھا اور پہنچ کر تقریباً ٢۵ ممالک کے طلبہ کو علم حدیث وعلم تفسیر ودیگر علوم اسلامیہ سے سیراب فرمایا اور تادم حیات آپ وہیں تدریس فرائض انجام دیتے رہے۔
بیعت و خلافت :
جیسا کہ گزشتہ سطور میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے ننھی سی عمر ہی میں آپ کو اپنی غلامی میں قبول فرما لیا تھا اور آپ کے عم محترم قاری امانت رسول صاحب قبلہ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا قاری صاحب! محمد کرامت رسول عالم بے نظیر بنے گا۔ آپ کو خلافت واجازت متعدد اکابر علماء ومشائخ سے حاصل تھیں۔
(١) آپ کے عم محترم حضور امانت اعلیٰ حضرت، خلیفہ مفتی اعظم ہند حضرت قاری محمد امانت رسول نوری قادری علیہ الرحمہ نے مدینہ منورہ میں گنبدِ خضری کے سامنے سارے سلاسل اور اوراد و وظائف کی آپ کو جملہ اجازات وخلافت سے نواز۔
(٢) نبیرہ قطب مدینہ، جانشین حضور ضیائے ملت حضرت علامہ شیخ رضوان الرحمنٰ صاحب مدنی مد ظلہ العالی نے اپنے مکان پر موصوف کو خلافت واجازت سے مشرف فرمایا۔
(٣) قطب بلگرام حضرت علامہ سید شاہ آل محمد عرف ستھرے میاں قبلہ(سجادہ نشین : خانقاہ واحدیہ، بلگرام شریف ضلع ہردوئی) نے کم سنی میں خلافت سے سرفراز فرمایا۔
(۴) زمانہ طالب علمی ہی میں بشرط علم وعمل سرکار تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا خاں ازہری قدس سرہ نے بھی آپ کو خلافت عطا فرمائی۔
(۵) حضور صدر العلماء علامہ تحسین رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے بھی اپنی اجازت وخلافت سے مستفیض فرمایا۔
(۶) شہزادہ ریحان ملت، نمونہ اسلاف حضرت علامہ سبحان رضا خاں سبحانی میاں (سابق سجادہ نشین درگاہِ اعلیٰ حضرت، بریلی شریف) نے آپ کو اپنی خلافت و اجازت سے نوازا۔
(٧) استاذ العلماء، عمدۃ الفقہاء حضرت علامہ مفتی جہانگیر صاحب علیہ الرحمہ (سابق شیخ الحدیث دار العلوم منظر اسلام ،بریلی شریف) نے بھی اپنی اجازتیں عطا فرمائیں۔
نماز سے محبت :
آپ علیہ الرحمہ بچپن اور لڑکپن ہی سے انتہائی تقویٰ شعار اور صوم وصلوۃ کے سختی سے پابند تھے یہی وجہ ہے کہ آپ تاحیات صاحب ترتیب رہے چنانچہ جس وقت آپ کا انتقال ہوا اس وقت بھی آپ نے نماز مغرب باجماعت ادا فرمائی تھی۔
آخری وقت کے کچھ احوال :
حضرت مفتی سلیم صاحب بریلوی (استاد ومفتی دار العلوم منظر اسلام منظر ،بریلی شریف) موصوف کے متعلق اپنے ایک مقالہ میں رقمطراز ہیں : میرے ایک دوست حضرت مولانا محمد راشد صاحب (مدھوبنی، بہار) جو اس وقت افریقہ ہی میں مذہب وملت کی خدمات انجام دے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد آپ اپنے کمرے میں تشریف لے گئے اور چند مخصوص طلبہ کے سامنے موت سے متعلق ایک حدیث پاک پڑھ کر اس کی تشریح فرمائی۔ دوران تشریح آپ نے فرمایا کہ ” لوگ نہ جانے کیوں موت سے گھبراتے ہیں۔ ارے! مومن کو موت سے نہیں گھبرانا چاہیے اس لئے کہ دنیا مومن کے لئے ایک قید خانہ ہے۔ مومن مرتا نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہو جاتا ہے۔” فن حدیث سے متعلق یہ علمی گفتگو چل ہی رہی تھی کہ آپ کے گھر سے یا کسی اور جگہ سے آپ کے موبائل پر فون آتا ہے۔ طلبہ آپ کے لئے تخلیہ کر دیتے ہیں۔ آپ کمرہ بند کرکے گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ اسی درمیان حرکت قلب بند ہونے سے کب آپ کا انتقال ہوا کسی کو معلوم نہ ہو سکا البتہ کافی دیر بعد جب لوگوں نے آپ کی غیر موجودگی کا احساس کیا توآپ کے کمرے کے دروازے کو بند پایا۔ لوگوں نے دستک دی تو جواب ندادر۔ آخر کار کسی ترکیب سے کمرے کا دروازہ کھولا تو آپ اپنے بستر پر اس طرح دراز تھے جس طرح کوئی دلہن بے فکری کے ساتھ آرام وآرائش کے انداز میں اپنے حجرہ عروسی میں سوتی ہے۔ چہرہ پر تقدس کی ہفت رنگ کرنیں بکھری پڑی تھیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ابھی آواز دی جائے تو فوراً اٹھ کھڑے ہوں گے۔
تاریخ وصال:
آپ کی تاریخ وصال ۵/ ذی الحجۃ الحرام ١۴٣۵ھ ٣۰ ستمبر ٢۰١۴ء ہے۔ بعد وصال آپ کے جسد خاکی کو دہلی تک بذریعہ ہوائی جہاز لایا پھر وہاں سے پیلی بھیت تک بذریعہ بین لایا گیا اور جامعہ رضویہ مدینہ الاسلام کے وسیع وعریض میدان میں جم غفیر نے آپ کا نماز جنازہ شہزادہ صدر الشریعہ علامہ مفتی بہاء المصطفیٰ قادری دام ظلہ کی اقتدا میں ادا فرمایا او جامعہ کے وسیع میدان میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔