پیش نظر تحریر میں چار اہم گوشوں پر قلم بند کرنے کی جرأت کی گئی ہے جو تحریر کے مقصود ہیں۔
تاریخ کا پس منظر ہمیں ذہن نشیں کراتا ہے کہ کسی تہذیب، قوم یا مذہب کی بقاء کے لیے ایک مرکز کا ہونا ضروری ہے جس کے ما تحت تمام تر محرکات میدان عمل میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں،
اور وہ مرکز تقاضۂ ضروریات کے مطابق اپنے ما تحتوں کے لیے رہنمائی پیش کرے۔
قوم مسلم کے لیے وہ مرکز بلا شبہ مدارس اسلامیہ ہیں۔ جب تک مسلمان ان مراکز سے وابستہ رہیں گے، انہیں شریعت سے دور کرنا کسی کے لیے آسان نہیں ہوگا، لیکن اگر وہ مدارس کی اہمیت کو فراموش کرکے ان سے منحرف ہو جائیں تو ان کی حالت اس بے مقصد شخص کی طرح ہو جائے گی جسے ہر کوئی اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتاہے۔
اس کی واضح مثال ہمیں اسپین اور یورپ کے دیگر ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں اسلام کو مٹانے کے لیے سب سے پہلے مدارس اسلامیہ کو نشانہ بنایا گیا۔
مدارس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آج اگر مسلمانوں کے سرمایوں میں سے کسی کو سب سے زیادہ پر خطر حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو وہ مدارس اسلامیہ ہیں۔ مدارس کو بدنام کرنے کیلئے کیا کیا نہیں کہا گیا، "مدارس دہشتگردی کے اڈے ہیں، مدارس سے دقیانوسی تصورات رونما ہوتے ہیں، مدارس سے کٹر پنتھی لوگ نکلتے ہیں” اور نہ جانے کیا کیا، اور یہ سب کچھ صرف اس لیئے کہ مسلمان جب تک مدارس سے وابستہ رہیں گے ان کے اندر سیکولرزم، لبرلزم جیسے (گمراہ کن) نظریات نہیں ڈالے جا سکتے، جب تک وہ مدارس کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہیں گے ان کے اندر یہ بات نہیں ڈالی جا سکتی کہ ہر دھرم برابر ہے تم چاہے کسی دھرم کو مانو، انہیں یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اب تقاضۂ وقت کے مطابق قوانین اسلام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب تک مسلمان مدارس اسلامیہ سے جڑے رہیں گے وہ ان جیسے گمراہ کن نظریوں سے محفوظ رہیں گے۔
اور یہ بات اہل علم پر مخفی نہیں ہے کہ جس چیز کی اہمیت جتنی زیادہ ہوتی ہے اس کے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی اتنی ہی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ جو چیز جتنی زیادہ بیش قیمت ہوگی اس پر دشمنوں کی نظر اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
اس لیے مدارس کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کے خامیوں کو دور کرکے ان کے نظام کو صحیح سالم رکھنا نہایت ہی ضروری ہے۔ کہ جہاں ان سے دین کے صحیح ترجمان نکلتے رہیں وہیں وہ دشمنوں کی سازشوں سے بھی محفوظ رہیں۔
کسی بھی طرح کے ادارے کے وقار کے تحفظ اور اس کے سنہرے مستقبل کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے اساس سے لیکر مقصد اساس تک کو تحفظی نگاہ کے سامنے رکھا جاۓ۔
لیکن صد افسوس کہ جب ہم نظام مدارس کے مختلف گوشوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں متعدد خامیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ قیام مدرسہ سے لیکر تفریغ عالم تک لا پرواہیاں قبضہ جما چکی ہیں۔
(١) حالت یہ ہو چکی ہے کہ جو، جس طرح، جس مقصد کے لیے چاہے مدرسہ قائم کئیے دیتا ہے، اور اپنے اعتبار کا نصاب پڑھا کر، سند فراغت کےساتھ عالم یا مفتی کے معزز لقب سے ملقب کرکے فارغ کر دیتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ اس لقب کا مستحق ہے یا نہیں،
پھر اگر وہ اس منصب کے لائق نہ ہو جس سے اسے سرفراز کیا گیا ہے تو وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے ہم لقب شخصیات کے چہرے کو مجروح کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا، اس سے نہ صرف اس ایک یا چند اشخاص کی تصویر کو چوٹ پہنچتی ہے بلکہ طبقات علماء سے لیکر مدارس اسلامیہ تک اس سے متاثر ہوتےہیں۔
اس پر کلام بالکل نہیں ہے کہ قیام مدارس روک دئیے جائیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ کچھ ہدایات و اصول ہوں جن کی پیروی کرتے ہوئے میدان عمل میں قدم رکھا جاۓ، تاکہ مقاصد اصلیہ کی تحصیل کے ساتھ ساتھ بے راہروی سے بھی اجتناب کیا جائے۔
(٢) افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ درسیات میں ماہر، ہمارے فارغین حضرات کے مستقبل کے تحفظ کا نہ باقاعدہ انتظام ہے نہ ضروریات زندگی کے لیے مناسب اہتمام،
نتیجتاً طلباء کی اکثریت درسیات کی گہرائی کی شناسائی میں دلچسپی نہیں دکھاتی، کہ اس سے کچھ خاص نتیجہ نہیں نکلنے والا۔
آج ہمارے مشفق اساتذہ کو طلباء سے ہمیشہ شکایت رہتی ہے کہ اساتذہ جام علم کی تشریب کے لئے کوشاں ہیں اور طلباء ہیں کہ پینے کو تیار نہیں۔
شکایت بالکل حق بجانب ہے۔ لیکن آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا وجہ صرف یہ ہے کہ طلباء غفلت و کاہلی کے خو گر ہو چکے ہیں؟ کیا شغف تعلیم سے روگردانی کی وجہ صرف طلباء کی بے راہروی کو قرار دینا مناسب ہے؟،
اگر جواب "ہاں” ہے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ دنیوی علوم کے چندہا شعبہ جات میں سال در سال مقابلہ اشد سے اشد تر ہوتا جا رہا ہے؟، ریس میں کامیابی کا امکان نہ کے برابر ہونے کے باجود تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اس تضاد ذہنی کی وجہ کیا ہے؟،
اس کی اصل وجہ مستقبل کا خواب ہے۔
کہ دنیوی علوم کے اس دوڑ کا بازیگر بخوبی جانتا ہے کہ میرا سنہرا مستقبل اپنی باہیں پھیلا کر میرا انتظار کر رہاہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی پوری استعداد و صلاحیت کامیاب ہونے کی کوشش میں صرف کر دیتا ہے۔
وہیں دینی علوم کا فن کار جب اپنے مستقبل میں جھانک کر دیکھتا ہے تو اسے اس پھل کے ملنے کا امکان نظر نہیں آتا جس کا وہ حقدار ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنی پوری کوشش صرف کرنے پر راغب نہیں ہوتا۔
آخر کچھ ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ صوبائی سطح پر اگر ممکن نہ بھی ہو تو کم از کم ضلعی سطح پر کوئی بورڈ ہو جو تدریسی خدمات کے لیے امتحان کا انعقاد کراۓ جس کے ذریعے قابل اساتذہ کا انتخاب کر کے تدریسی خدمات ان کے سپرد کردے، اور اس بورڈ کے ذریعے ان کی مناسب خدمت کی جائے۔
(٣) یہ عمل بھی لائق فراموش نہیں ہیکہ مناسب اسکالرشپ کے ذریعے محنتی طلباء کی حوصلہ افزائی کی جائے جس سے وہ معاشی الجھنوں سے بھی محفوظ رہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ طلباء دوسروں کی تشویق کا بھی سبب بنیں۔
(٤) قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ مسلم معاشرہ اپنے علماء سے جن امور کا تقاضہ کرتا ہے ان معاملوں میں فارغین حضرات ان کی رہنمائی کر پاتے ہیں یا نہیں؟
کیا ہمارا نصاب تعلیم ایسا ہے کہ اس کی تحصیل سے ہمارے فارغین، دین حق، اسلام پر ہو رہے چو طرفہ حملوں کو قدموں تلے روند کر اسلام کے بے مثل قوانین سے پورے عالم کو روشناس کرا سکیں؟
اگر ہم نصاب تعلیم کا تجزیہ کریں تو اس میں بھی ہمیں کئی تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
دور حاضر میں تقابل ادیان کے ساتھ ساتھ فتنۂ الحاد و رد استشراق جیسے مسائل کو شامل نصاب کرنے کی انتہائی ضرورت ہے۔
فن فقہ کے بیع و شراء و دیگر کاروباری معاملات کے ساتھ مختلف فقہی مسائل کی طرف اگر نظر دوڑائی جائے تو ان میں بھی کافی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
آج تقریباً نصف بیع و شراء کے معاملوں (شئیر مارکیٹ کے مختلف طریقے، کمپنیوں میں حصہ داری اور آن لائن بیع و شراء کے متعدد صورتیں، ان میں جواز کی کیا صورتیں ہو سکتی ہیں کیا نا جائز ہیں) سے کبھی رابطہ ہی نہیں ہو پاتا ہے۔ شامل نصاب ابوابِ بیع و شراء کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ غلام و باندی کے مسائل ختم ہی نہیں ہو رہے ہیں، جب کہ رائج طریقوں کی معلومات کے لیے الگ سے استفتاء ارسال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
منطق اور بالخصوص فلسفہ کے اکثر ان نظریات کے اثبات و تردید پر بحثیں شامل ہیں جن کے آج کے دور میں خاص فائیدے نظر نہیں آتے۔
اس لئے ضرورت ہے کہ مدارس و روح مدارس کی بقاء و ارتقاء کے لیے جو اقدامات ممکن ہوں ضرور اٹھائے جائیں۔
از قلم: مزمل حسین، اتر دیناجپور
متعلم: جامعہ اشرفیہ مبارک پور