تعلیم مذہبی مضامین

علم کی شمع سے ہو ہم کو محبت یارب

ازقلم: غیاث الدین احمد عارف مصباحی
خادم التدریس مدرسہ عربیہ سعید العلوم، یکماڈپو، لکشمی پور، مہراج گنج (یوپی)

یہ واقعہ کوئی بارہ،تیرہ سال پرانا ہے،آج اچانک مجھے اپنی ڈائری میں یہ تحریر نظر آئی سوچا چلو پہلے نہیں تواب اِسے آپ کی میز پرمطالعہ کے لیے پیش کر دوں۔۔۔۔۔۔۔
سورج اپنی آخری سانسیں گِن رہا تھا اور شام ہونے والی تھی،اسٹیشن ماسٹر کے اعلان کے مطابق ٹرین اپنے وقت سے ایک گھنٹہ لیٹ چلنے والی تھی اس لیے میں وقت گزاری کی نیت سے اپنے ایک دوست کے ساتھ محو گفتگو تھا اسی درمیان ایک نہایت ہی خوب رُو دوشیزہ ہمارے قریب ہی آ کر بیٹھ گئی ،اس وقت ٹرین میں زیادہ مسافر بھی نہ تھے پھر بھی مجھے اس کو دیکھ کر کوئی تعجب اور حیرت نہ ہوئی کہ شہروں میں تو اس طرح لڑکیاں گھومتی پھرتی رہتی ہیں۔یا یہ کہ شاید وہ خود کو ہمارے پاس زیادہ محفوظ سمجھ رہی تھی۔
یوں تو میں غیر محرم عورتوں سے باتیں کرنے کا عادی نہیں ہوں لیکن نہ جانے کیوں اُس دن میرے دل میں اچانک کیا خیال آیا؟ کہ میں نے بلا ارادہ بس یوں ہی اس دوشیزہ سے ایک سوال کر ڈالا۔
کیا آپ ریلوے محکمہ میں ملازمت کرتی ہیں؟ میرے سوال کا اس نے ذرہ برابر بھی برا نہ مانا بلکہ فوراً جواب دیا.
نہیں ! میں ابھی بی اے فائنل کر رہی ہوں البتہ میرے والد صاحب ریلوے محکمہ میں ملازمت کرتے تھے لیکن ان کا سال بھر قبل انتقال ہوگیا۔
پھر میں نے دوسرا سوال کر ڈالا تو آپ کی ماں تو پینشن پاتی ہوں گی؟
میرے اس سوال پر اس کا لہجہ پُرغم ہو گیا
جی پینشن پاتی تھیں مگر چھ ماہ قبل وہ بھی اس دنیا کو الوداع کہہ گئیں ۔
تو پھر آپ کے بھائی وغیرہ ہوں گے ؟
ایک پُرسوز آواز بھری۔کاش میرا کوئی بھائی ہوتا۔
تو کیا کوئی بھائی بھی نہیں؟
ہم صرف تین بہنیں ہیں دو مجھ سے بڑی ہیں جن کی شادی ہو چکی ہے۔
اچھا تو ان کے شوہر آپ کی دیکھ بھال کرتے ہوں گے یا آپ کے ماموں وغیرہ نے آپ کی ذمہ داری قبول کی ہوگی؟
جواب میں ایک پُر درد مصرع گونجا۔
ع۔۔اس جہاں میں کون کس کا غم اٹھاتا ہےجناب؟
واقعی یہ اتنی درد بھری آواز تھی کہ میں بھی روتے روتے بچا لیکن میرے ذہن و دماغ اور طرز کلام پر اس کا صاف اثر ظاہر ہو رہا تھا۔
اگلی بات جاری رکھتے ہوئے اس نے کہا میں نے اپنی بہنوں کے یہاں رہنے کی کوشش کی تھی اور امید تھی کہ وہاں مجھے پناہ مل جائے گی لیکن مجھے جلد ہی احساس ہوگیا کہ میرا خیال،خام تھا۔ انہیں تو محض میری بچی کھچی دولت کی لالچ تھی، مجھ سے کیا محبت کرتے وہ؟ سو میں نے ٹھان لیا کہ میں اب اپنی زندگی خود جینے کی کوشش کروں گی ۔
میں اکیلی تھی اور خطرات ہمارے سامنے منہ کھولے کھڑے تھے۔ لیکن میں نے اپنے دل کو سمجھایا اور از خود اپنا حوصلہ بڑھایا، اب میں خالی اوقات میں محلے کے لوگوں کے کپڑے سی کراپنا اور اپنی تعلیم کا خرچ پورا کر رہی ہوں ۔
اب آگے اپنی زندگی اپنے مالک کی مرضی پر چھوڑ دی ہے۔ میری محنت اور کاوش ہوگی تو مالک کا فضل بھی ضرور ہوگا اور وہ ہم کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔
ٹرین چل چکی تھی اور اس کے پہیوں کا شور ہماری گفتگو پر غالب آ رہا تھا، اب ہم اپنے اپنے بیگ سے سے کوئی رسالہ نکال کر مطالعہ میں مصروف ہونے کی کوشش کر رہے تھے مگر کچھ ہی دیر میں مجھے یہ احساس ہو گیا کہ فی الحال مطالعہ کرنا بے سود ہے کیونکہ ذہن کسی اور وادی میں گم ہو چکا تھا ،میرے دماغ میں اب بس ایک ہی سوال گردش کررہا تھا کہ ایک تن تنہا لڑکی کو تعلیم سے کس قدر محبت ہے کہ وہ ہر دنیاوی سہارے سے بے سہارا ہونے کے باوجود اپنی منزل کی طرف گامزن ہے اور اس کی ہمت نے جواب نہیں دیا ۔
آپ جانتے ہیں وہ بچی کس قوم کی تھی ؟
وہ ایک برہمن کی بچی تھی.
اسے معلوم تھا کہ تعلیم کی اہمیت کیا ہے؟
اسے یہ علم تھا کہ تعلیم کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں ہے ۔
اس لیے اس نے ہر چہار جانب سے مصائب و آلام میں گِھرنے کے باوجود تعلیم کو ترک کرنامناسب نہیں سمجھا ۔
اور آپ جانتے ہیں کہ میری نظر رسالے کی سطروں پر کیوں نہیں ٹک رہی تھی اور کیوں مطالعے میں جی نہیں لگ رہا تھا؟ وجہ یہ تھی کہ میرے دماغ میں ایک جانب تو وہ غموں سے چُور مگر حوصلوں سے بھر پُور لڑکی گردش کر رہی تھی تو دوسری جانب ذہن کی اسکرین پر ہماری قوم کے ان بچوں کی تصاویر چھپ رہی تھی. جو اپنے عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے دُور شب و روز کھیل کود اور لہو لعب میں مست و مگن رہتے ہیں اُنھیں بس دو وقت کا کھانا اور ہفتے میں دو بار گوشت کی بُو مل جائے یہی ان کی زندگی کا مقصودہے۔
جس امت کو پہلا پیغام ہی علم کے حوالے سے ملا، جس قوم کو یہ کہا گیا کہ تم علم حاصل کرو خواہ تمہیں چِین تک جانا پڑے یعنی تمہیں خواہ کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے مگر علم ضرورحاصل کرنا،کیوں کہ دنیا کی ترقیوں کا راستہ علم سے ہوکر ہی گزرتا ہے اور خدا کی معرفت کا ذریعہ بھی علم ہی ہے۔
پھرہم نے علم کا دامن کیوں چھوڑ دیاہے؟ اور اگر چھوڑ دیا ہے تو ہم اپنی ذلت ورسوائی کا شکوہ کیوں کرتے ہیں ؟جب ہم نے اپنے آپ کو خود ہی قعر مذلت میں دھکیلا ہے تو پھر ہمیں دوسروں سے شکایت کا حق کہاں ؟
علامہ اقبال نے کتنے درد بھرے انداز میں اپنی قوم کا رونا رویا تھا ۔
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا

اے میری قوم کے احباب! سوچئے اور خوب سوچئے، دل و دماغ لگا کر سوچئے شاید کہیں ذہن کے نہاں خانے میں میرا دردِ دِل اثر کر جائے۔

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے