اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫
دنیا میں لاکھوں دین و مذہب ہیں۔ان تمام دینوں، مذہبوں اور شریعتوں میں اللہ تعالی کو صرف ایک ہی دین و شریعت پسند ہے۔ اور اس دین و شریعت کا نام اسلام ہے۔
اور اس کی وضاحت آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی۔
کہ مااناعلیہ واصحابی۔ اصل دین و شریعت وہی ہے جس پر میں اور میرے صحابہ کرام ہیں۔ اسی مفہوم کو اہل سنت والجماعت کہا جاتا ہے۔
اس کو اللہ تعالی نے قرآن مقدس میں اس طرح بیان فرمایا۔
(١) مِلَّةَ اَبِیْكُمْ اِبْرٰهِیْمَؕ- هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِیْنَ۔ آیت نمبر ٧٨ سورہ الحج ٢٢
ترجمہ کنزالایمان: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین (اسلام ہے) اور اللہ تعالٰی نے تمہارانام مسلمان رکھاہے۔
تمہارا دین صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین۔ اور جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کو تسلیم کرتے ہیں اس کا نام صرف مسلمان ہے۔
اس کو آپ اس طرح سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ دین اسلام ایک دریا ہے۔ جس کے قائد اعظم آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر ان کے پیچھے صحابہ کرام چل رہے ہیں، تابعین چل رہے ہیں۔ الغرض جو بھی اس دریائے اسلام میں چل رہے ہیں سب مسلمان ہیں۔ اور یہ بالکل سیدھا ہے۔ جس کو قرآن نے صراط مستقیم سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی بالکل سیدھا راستہ۔
اس دریائے اسلام میں کچھ چھوٹی چھوٹی ندیاں آ کر ملتی گئیں۔ اور اپنی وجود اور شناخت کو مٹا کر دریا میں شامل ہو گئیں۔ اور اب انہوں نے بھی اپنا نام مسلمان رکھ لیاہے۔ اور وہ سب دین اسلام پر ہیں۔
اور کچھ لوگ بالکل اس کے برعکس اسی دریائے اسلام سے نہریں نکال کر دائیں بائیں لے گئے۔ یعنی اس میں کچھ اضافہ کر دیا۔ پھر بعد کے لوگوں نے اس نہر نکالنے والے کے نام پر اس نہر کا الگ نام رکھ لیا اور یہ کہا کہ یہ دین وہی ہے کہ یہ بھی اسی دریائے اسلام سے نکلا ہوا ہے۔ اس لیے کہ اس کی اصل دریائے اسلام سے ملتی ہے۔ ہم نے اپنے دین کا نام الگ اس لیے رکھ لیا ہے تاکہ ہماری شناخت الگ رہے۔
یہ دعوی اور دلیل الگ سے نہر نکالنے والوں کا ہے جبکہ ایسی جماعتوں کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔
(٢) إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ۔ سورہ الانعام آیت١٦٠ پارہ ٨
ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جنہوں نے تفرقہ ڈالا اپنے دین میں اور ہو گئے کئی گروہ (اے محبوب) نہیں ہے آپ کا ان سے کوئی علاقہ۔ ان کا معاملہ صرف اللہ ہی کے حوالے ہے۔ پھر وہ بتائے گا انہیں جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں صدر الافاضل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مثل یہود و نصاری کے حدیث شریف میں ہے۔
یہود اکہتر (71)فرقے ہو گئے ان سے صرف ایک ناجی ہے باقی سب ناری۔ اور نصاری بہتر (72) فرقے ہو گئے ایک ناجی سب ناری. اور میری امت تہتر (73) فرقے ہو جائے گی وہ سب کے سب ناری ہوں گے سوائے ایک کے. جو سواد اعظم یعنی بڑی جماعت ہے. اور ایک روایت میں ہے کہ جو میری اور میرے صحابہ کی راہ پر ہے۔ کنز الایمان صفحہ ١٩٣حاشیہ ٣
(٣) وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(١٠٤)
وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَاخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَهُمُ الۡبَيِّنٰتُؕ وَاُولٰٓٮِٕكَ لَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌۙ- سورۃ 3 – آل عمران – آیت (١٠٥)
ترجمہ: اے مسلمانو تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے (ظاہرہے کہ اس زمانہ میں وہ جماعت علمائے کرام اور مرشدان عظام کی جماعت ہی ہے) جن کا کام ہی یہ ہو کہ وہ لوگوں کو بھلائی کی دعوت دیں اور نیکی (دین و سنت) کا حکم دیں اور برائی (حرام و ناجائز ) سے روکیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہی وہ کامیاب جماعت ہے۔ (اے داعیان قرآن و سنت! خبردار اس کار خیر میں غلو کر کے) اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو دین و سنت کے نام پر فرقوں میں بٹ گئے. کھلی اور واضح قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی اختلافات کا شکار ہو گئے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرت صدر الافاضل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ جیسا کہ یہود و نصاری آپس میں مختلف ہوئے اور ان میں ایک دوسرے کے ساتھ عناد و دشمنی راسخ ہو گئی۔ جیسا کہ خود تم زمانۂ اسلام سے پہلے جاہلیت کے وقت متفرق تھے۔ تمہارے درمیان بغض و عناد تھا۔ مسئلہ اس آیت میں مسلمانوں کو آپس میں اتفاق و اجتماع کا حکم دیا گیا اور اختلاف اور اس کے اسباب پیدا کرنے کی ممانعت فرمائی گئی۔ احادیث میں بھی اس کی بہت تاکید وارد ہیں۔ اور جماعت مسلمین سے جدا ہونے کی سختی سے رد فرمائی گئی ہے۔ جو فرقہ پیدا ہوتا ہے اس حکم کی مخالفت کر کے ہی پیدا ہوتا ہے۔ اور جماعت مسلمین میں تفرقہ اندازی کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اور حسب ارشاد حدیث وہ شیطان کا شکار ہے۔ کنز الایمان صفحہ نمبر ٨١ حاشیہ ٣ پارہ۔ ٤
(٤) مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(31) مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًاؕ-كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ(32) سورہ الروم 30 ۔ پارہ 21 آیت نمبر 31,32
ترجمہ: (اے مسلمانو) اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوئے (اس کی فرمانبرداری کرو) اور اسی سے ڈرو، اور نماز قائم کرو. اور ان مشرکین میں سے نہ ہو جانا (جنہوں نے مسلمان ہونے کے بعد عقائد شرکیہ کے ذریعے مشرک ہو کر فرقوں میں بٹ گئے) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑا ٹکڑا کر دیا۔ اور خود الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے۔ اور ہر (باطل) فرقہ کے لوگ اپنے اپنے (باطل) عقائد پر خوش ہیں.
فرقو دینہم کی تفسیر میں حضرت صدر الا فاضل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
معبود کے باب میں اختلاف کر کے حاشیہ نمبر 20 صفحہ نمبر 528 کنز الایمان
یعنی معبود برحق اللہ تعالی کے تعلق سے شرکیہ عقائد شامل کر کے مشرک ہوئے اور الگ الگ فرقوں میں بٹ کر اور اپنے الگ الگ نام کے ساتھ شناخت بنا لی اور ہر فرقہ یہ مان کر اپنے غلط عقائد کے ساتھ خوش ہے کہ وہی حق پر ہے۔ جبکہ حقیقت میں یہ سارے فرقے مشرک ہیں۔ العیاذ باللہ
(٥) وَمَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَهُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡيًاۢ بَيۡنَهُمۡؕ وَلَوۡلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّكَ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِىَ بَيۡنَهُمۡؕ وَ اِنَّ الَّذِيۡنَ اُوۡرِثُوا الۡكِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ لَفِىۡ شَكٍّ مِّنۡهُ مُرِيۡبٍ ۞- سورہ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 14
ترجمہ: اور نہ بٹے وہ فرقوں میں۔ مگر اس کے بعد کہ آگیا ان کے پاس صحیح علم۔ اور یہ تفرقہ باہمی حسد، جاہ طلبی اور حرص دنیا کے لیے تھا۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ پیر کرم علی شاہ ازہری رحمۃ اللہ علیہ تفسیر ضیاء القران جلد چہارم صفحہ نمبر ٣٤٩ حاشیہ نمبر ٢١ میں تحریر فرماتے ہیں۔ بتا دیا کہ لوگوں کا راہ حق سے انحراف اور الگ الگ فرقوں کا معرض وجود میں آجانا۔ یہ محض بے علمی اور غلط فہمی کے باعث نہیں ہوتا۔ بلکہ اکثر و بیشتر اس انتشار و افتراق کا باعث ان کا باہمی حسد و عناد اور رقابت ہوا کرتی ہے۔ اپنی برتری کا سکہ جمانے کے لیے اپنی الگ پارٹی بناتے ہیں۔ اور اس طرح ملت کی وحدت میں نقب لگانے کا آغاز کرتے ہیں۔ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس راہ کو وہ چھوڑ رہے ہیں یہی سیدھی راہ ہے۔ اور جو راستہ اپنا رہے ہیں وہ ان کو منزل سے دور پھینک دے گا۔ لیکن اپنی ذاتی اغراض اور دنیاوی مصلحتیں انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ وہ جانتے بوجھتے ہوئے غلط راہ پر چل نکلتے ہیں۔ بغیابینہم کے الفاظ ہم سب کے لیے بڑے توجہ طلب ہیں۔
حدیث پاک میں ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں جیسا ہوا تھا ویسا ہی میری امت کے لوگوں میں ہوگا۔ ایک دم ہو بہو
اب ملاحظہ کریں کہ فرقہ بندی کے تعلق سے یہود و نصاری میں کیا کیا ہوا تھا؟.
وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ۔ سورہ البینۃ۔ آیت نمبر (٤)
ترجمہ: اور نہیں بٹے فرقوں میں اہل کتاب مگر اس کے بعد کہ آگئی ان کے پاس روشن دلیل۔ علامہ پیر محمد کرم علی شاہ ازہری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ یہود و نصاری بے شمار فرقوں میں بٹ چکے تھے۔ ہر فرقہ اپنے آپ کو ہی اپنے دین کا ٹھیکیدار یقین کرتا تھا۔ باقی تمام فرقے اس کے نزدیک گمراہ اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے اور دوزخ کا ایندھن تھے۔ ان میں مذہبی تنگ نظری کے باعث باہمی جنگ و جدال کا سلسلہ جاری رہتا۔ جس کو موقع ملتا دوسروں پر ہلہ بول کر کشتوں کے پشتے لگا دیتا۔ اور خون کا دریا بہا دیتا۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ان کی یہ تفرقہ بازیاں، تشتت و افتراق، جہالت اور بے علمی کا نتیجہ نہ تھی۔ بلکہ بد دماغوں نے اس وقت تفرقہ بازی کی آگ بھڑکائی۔ جب حق کو کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا گیا تھا۔ دلائل و براہن نے حق و باطل کو ممتاز کر دیا تھا۔ محض اپنی ذاتی مفاد اور جھوٹی انا کی قربان گاہ پر اپنے دینی و ملی اتحاد و یکجہتی کو بھینٹ چڑھا دیا تھا. تفسیر ضیاء القرآن جلد پنجم صفحہ نمبر ٦٢٦ حاشیہ ٤
میں اس مضمون کو فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل کرتا ہوں۔
عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ عَلَ يَقُولُ ذَاقَ طَعْمَ الْإِيْمَانِ مَنْ رَّضِيَ بِاللَّهِ رَبَّا وَ بِالْإِسْلَامِ دِينًاوَبِمُحَمَّدٍ
رَسُولا۔ صلی اللہ علیہ وسلم
(مسلم ج ١ ص ٤٧)
ترجمہ: حضرت عباس ابن عبدالمطلب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول، مان کر راضی ہو گیا اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔
الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ تعالی نے ہی ہمارا نام مسلمان رکھا ہے۔ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِیْنَ۔
اللہ تعالی نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ تو ہمیں بغیر حذف و اضافہ کے یہی نام پسند ہے۔ اور دنیا کے سارے مسلمانوں کو بھی یہی نام پسند ہونا چاہیے۔
مسلمانوں کے سیکڑوں فرقے ہیں اور سب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ تو ہمیں ان باطل فرقوں سے ممتاز ہونے کے لیے اللہ کا پسندیدہ "دینِ اسلام” اور پسندیدہ نام "مسلمان” کیا تبدیل کرنا چاہیے؟ جبکہ ہمارا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ خالص دین اسلام کو ماننے والے خالص مسلمان ہیں۔ اور وہی نجات پانے والے ہیں. جیسا کہ مذکورہ حدیث پاک میں ہے.
امام اہل سنت، امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے سلسلے میں جو لوگ بیعت ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو "رضوی” لکھتے ہیں۔ دوسری طرف شیعہ حضرات کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو اپنے نام کے ساتھ "رضوی” لکھتا ہے۔ مردود و مرتد "جتندر تیاگی” کا پہلا نام وسیم رضوی تھا۔ تو کیا ان شیعوں سے خود کو ممتاز کرنے کے لیے لازمی طور پر ہم میں سے ہر ایک کو "رضوی، بریلوی” لکھنا چاہیے؟ تاکہ ہم شیعہ حضرات سے ممتاز ہو جائیں۔
ہرگز نہیں. میرا نظریہ یہ ہے کہ مریدین کے لیے رضوی لکھنا اور کہلانا ہی کافی ہے۔
ہمیں وہی نام اور وہی کام پسند ہے جو اللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے۔
ہمارا دین "اسلام” ہے. اور ہم "مسلمان” ہیں.
تحریر: محمد شہادت حسین فیضی
9431538584