اس وقت کے حالات مسلمانوں کے لیے نہایت تشویشناک اور تکلیف دہ ہیں، ہزاروں بے قصور مسلم نوجوانوں کو بنا کسی جرم کے جیلوں میں قید رکھا جا رہا ہے۔ یہ نوجوان اپنے خاندان کی کفالت اور معاشی ذمہ داریاں نبھاتے تھے، لیکن ان کی قید نے ان کے اہل خانہ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ کئی والدین اپنے بیٹوں کی دید کی حسرت دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، بیویاں برسوں سے خوشی کی شکل دیکھنے سے محروم ہیں، بچے اپنے والدین کے انتظار میں آنسو بہا رہے ہیں، اور یہ صورت حال روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
ان قیدیوں میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جن پر ابھی تک کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوئی، پولیس اپنے بے بنیاد الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے، لیکن پھر بھی یہ بے قصور افراد جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ان کا "جرم” صرف مسلمان ہونا اور اپنے دین پر قائم رہنا ہے۔
یہ صورت حال صرف قانونی اور آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہی نہیں، بلکہ انسانی حقوق کی پامالی بھی ہے۔ انصاف کا نظام اگرچہ ملک میں موجود ہے، لیکن انصاف تک پہنچنے میں حد درجہ تاخیر، اسے ادھورا اور ناکافی بنا دیتی ہے۔ ایک شخص کا دس سال جیل میں بغیر کسی جرم کے قید رہنا، اور پھر اسے بے قصور ثابت کر کے چھوڑ دینا، انصاف کا ایک مذاق ہے۔ اس کی ساکھ اور زندگی کے وہ قیمتی سال کبھی واپس نہیں آ سکتے، اور جب وہ آزاد ہوتا ہے تو معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا، اسے بدنامی اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس مسئلے کا حل صرف ان بے قصور قیدیوں کی رہائی میں نہیں، بلکہ ان کے لیے انصاف کی مکمل فراہمی میں ہے۔ عدلیہ کو چاہیے کہ ان بے قصور قیدیوں کو نہ صرف بری کرے، بلکہ ان کی بے گناہی کا اعلان کرے، ان کے لیے ہرجانے کا حکم دے، اور ان کو معاشرے میں عزت اور مقام دلانے کے لیے اقدامات اٹھائے۔
قوم کی ذمہ داریاں:
اس معاملے میں ملت اسلامیہ کی بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مظلوموں کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے، اور اسلامی تعلیمات میں قیدیوں کی رہائی کو عظیم نیکی قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بھوکوں کو کھلاؤ، بیماروں کی عیادت کرو اور قیدیوں کو رہا کراؤ” (بخاری، حدیث نمبر: 5649)۔
اسلام میں غلاموں کی آزادی کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے، اور آج کے بے قصور قیدی، غلاموں سے بھی بدتر حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس لیے ان کی رہائی کا اجر و ثواب کسی غلام کو آزاد کرنے سے کم نہیں ہو سکتا۔
لیگل سیل کا قیام:
مختلف ریاستوں اور مرکزی سطح پر "لیگل سیل” کا قیام وقت کا اہم تقاضہ ہے، جہاں مسلمانوں کے لیے قانونی امداد فراہم کی جا سکے۔ مسلم وکلاء کو اس کار خیر میں اپنی مفت خدمات پیش کرنی چاہئیں یا کم از کم فیس قبول کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلم سیکولر وکلاء کی مدد بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ قانونی کارروائیوں کا ہدف صرف قیدیوں کی رہائی تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ان پولیس اہلکاروں کو سزا دلانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے جو بے قصور افراد کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کے ذمہ دار ہیں۔
قیدیوں کے اہل خانہ کی کفالت:
ان قیدیوں کے اہل خانہ، خاص طور پر ان کے بچے، سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کی مکمل کفالت کا انتظام کیا جائے۔ دینی مدارس ان بچوں کو خصوصی رعایت کے ساتھ دینی تعلیم فراہم کریں، عصری تعلیم کے ادارے انہیں مفت تعلیم فراہم کریں، اور اگر ان کی لڑکیوں کی شادی کا معاملہ ہو تو مسلمان تاجرین آگے بڑھ کر ان کی ضروریات پوری کریں۔ اگر قیدیوں کے بچے بے روزگار ہیں تو ان کے لیے روزگار فراہم کرنے کی کوشش کی جائے۔
اجتماعی جدوجہد کی ضرورت:
مسلمانوں کو ایک منظم اور اجتماعی تحریک کی ضرورت ہے، جو خالص دینی اور ملی جذبے کے تحت ان مظلوموں کی مدد کرے۔ ہمارے اندرونی اختلافات اور چھوٹے چھوٹے جھگڑے ہمیں ایک بڑے مقصد سے دور کر دیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی خدمات کو دنیا میں دکھانے کے بجائے آخرت میں اللہ کے سامنے پیش کرنے کی فکر کریں۔
یاد رکھیں :
مظلوم مسلمانوں کی گرفتاری اور ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کسی اتفاقی واقعے کا حصہ نہیں، بلکہ ایک منظم سازش ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو کمزور اور بے اثر بنانا ہے۔
ان کا مقصد ان کو پست ہمت کرنا، انھیں اکیلا وتنہا کردینا، انھیں رسوا و خوار کرنا، ان کو ایک بے اثر، احساس کمتری سے دوچار، بے حوصلہ، مقاومت کے جذبہ سے خالی، شکست کی نفسیات سے دوچار، غریب ومفلس، جاہل واَن پڑھ، اپنی تاریخ پر شرمسار اور اپنے دین سے بے زار اقلیت بنا کر رکھنا ہے۔
اگر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو نہ سمجھا اور مظلوموں کی مدد کے لیے آگے نہ بڑھے تو ہماری مظلومیت کی داستان اور طویل ہوتی جائے گی۔
لہذا
ہمیں غفلت کی چادر اتار کر، اجتماعی شعور اور ایمانی غیرت کے ساتھ، ان مظلوموں کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی تاکہ نہ صرف ان کی رہائی ممکن ہو، بلکہ ان کی عزت اور مقام بھی بحال ہو۔ اس کے لیے "لیگل سیل” کا قیام اور مظلوموں کے اہل خانہ کی کفالت وقت کی ضرورت ہے، تاکہ ہم ایک باعزت قوم بن کر دنیا میں جی سکیں اور آخرت میں اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔
تحریر: محمد عباس الازہری