کیفے میں چھپ کے کرتی ہیں جو سرد، گرمیاں
کالج کی لڑکیاں ہیں کہ بازاری لڑکیاں
خنزیر خوروں کو جو کھلاتی ہیں برفیاں
کالج کی لڑکیاں ہیں کہ بازاری لڑکیاں
جن کے یہاں شراب بھی آبِ زُلال ہے
خنزیر جن کے واسطے لحم حلال ہے
ایسوں کے ساتھ کرتی ہیں جو عشق و مستیاں
کالج کی لڑکیاں ہیں کہ بازاری لڑکیاں
بس، میٹرو، ٹرین یہاں کچھ نہیں بچا
عریانیت ہے پھیلی ہوئی آج ہر جگہ
او یو میں اڑتی پھرتی ہیں بے پر جو تتلیاں
کالج کی لڑکیاں ہیں کہ بازاری لڑکیاں
پارک میں بیٹھ کر کبھی رکشے میں بیٹھ کر
شہ راہ عام یا گلی کوچے میں بیٹھ کر
اغیار سے مناتی ہیں جو رسم بیویاں
کالج کی لڑکیاں ہیں کہ بازاری لڑکیاں
منہ پر نقاب ساتھ میں بھگوائی بابو ہے
جسم و جگر پہ قابو نہ ایماں پہ قابو ہے
اتنی بنا لیں دین خدا سے جو دوریاں
کالج کی لڑکیاں ہیں کہ بازاری لڑکیاں
تندوری، قورمہ، چکن افغانی چھوڑ کے
قیمہ، نہاری، مرغ کی بریانی چھوڑ کے
کھانے کے واسطے گئیں گوبر کی روٹیاں
کالج کی لڑکیاں ہیں کہ بازاری لڑکیاں
جس نے پسینہ خون بہا کر پڑھایا تھا
جس نے پکڑ کے انگلیاں چلنا سکھایا تھا
اس باپ کی اڑائی جو عزت کی دھجیاں
کالج کی لڑکیاں ہیں کہ بازاری لڑکیاں
موموز کھانے کا کبھی کپڑوں کو سلنے کا
کر کے بہانہ اپنی سہیلی سے ملنے کا
کرتی ہیں نذر خوار جو ماؤں کی ہستیاں
کالج کی لڑکیاں ہیں کہ بازاری لڑکیاں
شرم نبی نہ خوف خدا ان کے دل میں ہے
خواہش، ہوس، جنون بھرا ان کے دل میں ہے
شرمائے ان کو دیکھ کے غیور ہستیاں
کالج کی لڑکیاں ہیں کہ بازاری لڑکیاں
یہ ہے مقام غور، ذرا غور کر جسیم
کیا بات ہے کہ ان میں نہیں آج خوف و بیم
غیروں کے ہاتھ میں جو رچاتی ہیں شادیاں
کالج کی لڑکیاں ہیں کہ بازاری لڑکیاں
ازقلم: محمد جسیم اکرم مرکزی