مصطفیٰ کمال آسامی کا تعلق آپر آسام کے ضلع لکھیم پور کے علمی گھرانے سے ہے۔ جس کے والد گرامی ایک بڑے محدث گزرے ہیں، جن کا نام حضرت علامہ عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ وہ پیر طریقت رہبر راہ شریعت نسیم الدین علیہ الرحمہ(نوگاوں، آسام ) سے بیعت و ارادت رکھتے تھے تو اس مناسبت سے خانقاہ نسیمیہ اور ان کا مزارِ مبارک آج بھی لکھیم پور میں موجود ہے۔ کمال صاحب کے دو بھائی ایک مفتی اور ایک عالم دین ہیں۔ دونوں آسام میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مصطفیٰ کمال آسامی نے ابتدائی تعلیم علاقائی مدرسہ ”لکھیم پور دارالسنت حفظ العلوم“ سے حاصل کی۔ اور فضیلت کی تکمیل اتر پردیش میں واقع اہلِ سنّت کی مرکزی درسگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور سے کی۔ 2012 میں فضیلت مکمل کرنے کے بعد 2013 تا 2018 مسلسل پانچ سال”جامع ازہر“ میں شعبہ حدیث میں زیرِ تعلیم رہ کر فارغ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ دورانِ طالب علم وہ جامعہ اشرفیہ میں اکثر رول نمبر 3/4 ہی کے اندر رہتا تھا۔
اس مختصر سے تعارف کے بعد اب اختلاف و انحراف کی داستان بھی سنتے چلیے!
لاک ڈاؤن میں دین کے بعض فروعی مسائل کو لے کر کمال صاحب نے اپنے بھائیوں سے اختلاف کئے۔ پھر اس کی لو تیز ہوتی گئی یہاں تک کہ اپنی فاسد عقل سے عین اسلامی عقائد پر حملہ آور ہوا، اب یہ گھر کا معاملہ بھی نہ رہا بلکہ آسام کے اطراف و اکناف میں اس کے غیر معقول اختلافات اور کردار و گفتار کی گندی تاثیر پھیلنے لگی۔ غالباً آسام کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنا بڑا اختلاف ہوا، جوکہ پورے آسام کو احاطہ میں لے لیا تھا۔ چونکہ اس کا اختلاف بےجا اور شریعت کے خلاف تھا۔ اس کی ہٹ دھرمی، تکبر، ضد اور گھمنڈ نے بزرگانِ دین کی گستاخی اور خصوصا اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کی شان میں ہرزہ سرائی تک پہنچا دیا۔ اس کے غیر مہذب اختلافات اور گستاخیوں پر علمائے کرام نے گرفت کی، سمجھایا بھی، بلکہ کئی مرتبہ توبہ بھی کرائی۔ مگر وہ اپنی روش سے ہٹا نہیں۔ سب سے الگ ہو کر گستاخیوں اور اسلامی اعمال و عقائد کی من پسندانہ تاویلات و تشریحات پر مشتمل ویڈیوز فیسبک و یوٹیوب پر اپلوڈ کرتا گیا، اور لوگوں کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے اپنی طرف شریعت گڑھ لی۔ ہر ویڈیو میں علمائے کرام کو ملا ملا کہ کر گالیاں دینا اس کا محبوب شیوہ رہا۔ عوام سے مخاطب ہو کر کہتا ”کہ ان ملاوں نے آپ سب کو غلط مسائل بتاۓ ہیں صحیح مسائل وہی ہیں جو میں بتاتا ہوں“ اسی طرح ایک سال گزر گیا۔
علاقائی علماء نے اسے بے حد سمجھایا تاکہ وہ راہ راست پر آجاۓ۔ لیکن وہ اپنی انانیت و ہٹ دھرمی پر ہی قائم رہا۔ اس کے دل میں علمائے کرام کے خلاف بغض وعداوت دن بہ دن بڑھتا ہی گیا، ایک وقت ایسا آیا کہ وہ اسلام دشمن عناصر کے منشا کے مطابق چلنے لگا۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسری راہ بھی نہیں تھی۔ کہتے ہیں کہ انسان کے کردار ہی انسان کی پہچان ہوتا ہے۔ وہ علماء کے ساتھ ساتھ مسلمانان آسام کے خلاف بھی جو من میں آیا بوکتا گیا، تو اسے سہارا کے لیے غیروں کے سایے تلے پناہ لینے کی ضرورت پڑی۔ اور آج وہ کس حال میں پہنچ گیا آپ حضرات ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
جاری۔۔۔۔
تحریر: مزمل حسین علیمی آسامی