علماء کرام، جو زیادہ تر دینی خدمات میں مشغول رہتے ہیں، زراعت کو اپنے روزگار کے طور پر اپنائیں تو وہ معاشی طور پر خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ یہ ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، اور انہیں دوسروں پر انحصار سے بچاتا ہے۔ مگر اکثر علماء زراعت کو مکمل پیشے کے طور پر اپنانے سے متفق نہیں ہوتے۔ اس کی کچھ وجوہات یہ ہیں:
دینی خدمت سے دوری کا اندیشہ:
اکثر علماء یہ خیال رکھتے ہیں کہ زراعت میں زیادہ محنت اور وقت درکار ہوتا ہے، جو دینی خدمات اور علم کے فروغ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
فنی مہارت اور تجربے کی کمی:
علماء کرام عام طور پر دینی علوم میں مہارت رکھتے ہیں، اور زراعت کے عملی پہلوؤں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ زراعت کو ایک مؤثر پیشے کے طور پر اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔
زراعت کی مشکلات اور عدم استحکام:
زراعت میں موسمی حالات اور مالیاتی اتار چڑھاؤ کی وجہ سے اکثر نقصان کا خطرہ رہتا ہے، جسے کچھ علماء غیر یقینی پیشے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ترکیز کا فقدان:
اکثر علماء کے نزدیک دینی تحقیق اور تربیت کے لیے یکسوئی ضروری ہے، اور زراعت میں مشغول ہونے سے ان کے دینی مقاصد میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔
سماجی رویے اور توقعات:
معاشرتی طور پر علماء کو دینی خدمات میں زیادہ مشغول دیکھا جاتا ہے، اور زراعت یا کسی دوسرے پیشے میں دیکھنا لوگوں کے لیے غیر متوقع ہو سکتا ہے۔
6.دینی تعلیم کی جگہ معاشی فکر کا بڑھ جانا:
بعض علماء کو خدشہ ہوتا ہے کہ معاشی مسائل میں مشغول ہونے سے ان کی دینی اور علمی سرگرمیوں میں یکسوئی ختم ہو سکتی ہے۔
زراعت اور دینی خدمات کو بیک وقت انجام دینا ممکن ہے، بشرطیکہ علماء کرام ان دونوں کاموں کے درمیان توازن قائم کریں۔ اس کے چند طریقے درج ذیل ہیں:
وقت کی منصوبہ بندی:
ایک موثر طریقہ یہ ہے کہ وقت کو منظم کیا جائے۔ مثلاً زراعت کے لیے دن کا مخصوص حصہ مختص کر لیا جائے اور بقیہ وقت دینی خدمات کے لیے وقف کیا جائے۔ زراعت کے کچھ مراحل میں زیادہ وقت اور محنت درکار ہوتی ہے، جبکہ کچھ وقت میں کم توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سمجھنے سے دونوں کاموں میں توازن قائم کرنا ممکن ہوگا۔
معاونت حاصل کریں:
علماء کرام زراعت کے لیے ماہر کسان یا معاون کارکنان کی مدد لے سکتے ہیں۔ اس سے ان کا وقت اور محنت بچ سکتی ہے، اور وہ دینی خدمات کو بھرپور توجہ کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں۔
تعلیم اور زراعت کو مربوط کریں:
دینی تعلیم اور زراعت کے مفاہیم کو مربوط کرنے سے دونوں کام ایک دوسرے کو تقویت دے سکتے ہیں۔ مثلاً زراعت میں اسلامی اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں کو دین کی تعلیم دی جا سکتی ہے، جیسے محنت، صبر، زمین کی حفاظت، اور قدرتی وسائل کی قدر۔
گروہ بندی اور شراکت داری:
اگر ایک عالم تنہا زراعت کرنے سے قاصر ہے تو وہ دوسروں کے ساتھ شراکت داری کر سکتا ہے، جیسے دیگر علماء، کسان، یا خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ زرعی منصوبہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس سے مالی بوجھ اور وقت کی تقسیم آسان ہو جائے گی۔
آن لائن یا مختصر کلاسز کا انتخاب:
اگر علماء کرام دینی تعلیم کے لیے وقت مختصر کرنا چاہیں تو وہ آن لائن کلاسز، مختصر لیکچرز، یا جامعہ یا مسجد میں ہفتہ وار دروس کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اس سے وہ زیادہ وقت زراعت کو دے سکتے ہیں جبکہ تعلیم کے تسلسل کو برقرار بھی رکھا جا سکتا ہے۔
زراعت کو دعوتی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں:
زراعت میں اکثر لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، جیسے کھیتوں یا زرعی اجتماعات میں۔ علماء ان مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو دین کی بنیادی تعلیمات یا اخلاقی اصولوں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔
دونوں کاموں کے لیے ایک مقصد:
زراعت اور دینی خدمات دونوں میں برکت اور معاشرتی فلاح کو مقصد بنائیں۔ علماء کرام زراعت سے حاصل شدہ آمدنی کا کچھ حصہ دینی اداروں، فلاحی کاموں، یا غربا کی مدد کے لیے وقف کر سکتے ہیں۔ اس طرح دونوں کام ایک دوسرے کو مضبوط بناتے ہیں۔
خود کفالت کے لیے جدید زرعی تکنیکیں اپنائیں:
جدید زرعی تکنیکیں، جیسے ڈرپ ایریگیشن اور کم وقت لینے والی فصلوں کا انتخاب، علماء کرام کو زراعت میں کامیابی اور وقت کی بچت فراہم کر سکتی ہیں۔ اس طرح وہ دینی خدمات پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں۔
الحاصل: اگر علماء چاہیں تو اپنی دینی اور دنیاوی ذمہ داریوں میں توازن برقرار رکھتے ہوئے زراعت سے بھی وابستہ ہو سکتے ہیں۔
از قلم:
محمد توصیف رضا قادری علیمی
مؤسس اعلیٰ حضرت مشن کٹیہار
شائع کردہ: 2 نومبر، 2024ء