جب وقت کی آندھیاں تہذیبوں کے دامن کو الجھا دیتی ہیں اور تاریخ کی گرد گزرے ہوئے زمانوں کی رونقوں کو ماند کر دیتی ہے، تب ایک قوم کی بقا کا انحصار اس کے ثقافتی ورثے کی حفاظت پر ہوتا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین پر اسلامی ثقافت کی مانند ایک شجرِ سایہ دار اُگا تھا، جس کی شاخیں علم و عرفان سے پھوٹیں اور جس کے پھلوں نے معاشرت، سیاست، اخلاق اور روحانیت کے میٹھے ذائقے بخشے۔ مگر آج کا دور، جو کہ تیزرفتار زندگی، مغربی مادیت اور فکری بے سمتی کا دور ہے، اسلامی ورثے کو ایک خوابیدہ حقیقت بنا دینے پر مصر ہے۔ یہ ورثہ اب محض کتب خانوں میں دبے پرانے اوراق کی شکل میں یا ان گلی کوچوں میں معدوم یادگاروں کی صورت میں رہ گیا ہے جہاں کبھی وقت کے ولیوں کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی تھی۔
آج، جب کہ ہندوستان کی فضا میں اسلام کی روحانی مہک مدھم ہو رہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ورثے کو محض عمارتوں کی مرمت اور کتابوں کے تحفظ تک محدود نہ کیا جائے، بلکہ اسے دلوں کی دنیا میں پھر سے زندہ کیا جائے۔ یہ ورثہ ایک خزینۂ نایاب ہے، جس کی ہر چمک تاریخ کے ان سنہرے لمحات کو یاد دلاتی ہے جب انسانیت، فلسفے اور اخلاق کے بلند ترین معیاروں پر قائم تھی۔ یہ وہ روشنی ہے جو ہر اندھیرے میں امید کی کرن تھی، ہر طوفان میں سکون کا ساحل تھی۔
مگر آج کے اس بے رحم ماحول میں، جہاں ہر چیز کو معاشی فائدے کے ترازو میں تولا جاتا ہے، اسلامی ثقافت کا فلسفی اور روحانی پہلو مٹتا جا رہا ہے۔ وہ منارِ نور، جو علم و معرفت کا سرچشمہ تھا، اب مٹی کی بوجھل تہوں تلے دفن ہوتا جا رہا ہے۔ وقت کی اس زبردست آندھی کا مقابلہ صرف وہی قوم کر سکتی ہے جس کی جڑیں اپنے ثقافتی ورثے میں پیوست ہوں، اور یہ ورثہ محض ایک عمارت نہیں، بلکہ وہ نظریہ ہے جو دلوں کو منور کرتا ہے، روحوں کو سکون بخشتا ہے، اور زندگی کی حقیقی معنویت کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔
اسلامی ثقافت ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسی قندیل رہی ہے، جس کی روشنی نے صدیوں تک نہ صرف اس خطے کو منور کیا بلکہ دنیا بھر کے علوم و فنون کو ایک نیا رخ دیا۔ یہ ثقافت محض مذہبی عقائد کا مجموعہ نہیں تھی، بلکہ ایک ہمہ جہت تہذیب تھی، جس میں انسان کی روحانی تربیت، اخلاقی پختگی، علمی ترقی، اور فکری آزادی کو اولین حیثیت حاصل تھی۔ اسلامی ورثے کا سب سے عظیم پہلو اس کا وہ فلسفیانہ نظام ہے، جس نے انسان کو مادیت کی گہری کھائیوں سے نکال کر اخلاقی و روحانی بلندیوں تک پہنچایا۔ آج جب ہر طرف مادیت اور فکری زوال کی چادر تنی ہوئی ہے، یہ ورثہ اپنی حفاظت کے لیے آواز دے رہا ہے۔
اسلامی ثقافت کی جڑیں ہندوستان کی مٹی میں اتنی گہری پیوست تھیں کہ اس نے یہاں کی ہر چیز کو اپنی معنویت سے مالا مال کر دیا۔ تاج محل سے لے کر جامع مسجد تک، دہلی کی گلیوں سے لے کر لکھنؤ کے مدرسوں تک، اسلامی ورثے نے نہ صرف عمارتیں تعمیر کیں، بلکہ دلوں میں اخلاق، علم اور حکمت کے مینار کھڑے کیے۔ وہ صوفی درویش، جنہوں نے اپنی چادر کو علم و عرفان کے نور سے مزین کیا، وہ علماء جن کی زبانوں سے فلسفہ بہتا تھا، اور وہ مصلحین جنہوں نے فکر و عمل کی راہوں کو روشن کیا، سبھی اس تہذیب کے عظیم معمار تھے۔
مگر آج، جب کہ ہر طرف جدیدیت کے نام پر ایک فکری خلا پیدا ہو چکا ہے، اسلامی ورثہ محض ایک یادگار بن کر رہ گیا ہے۔ وہ مدرسے جہاں کبھی فلسفہ، منطق، تصوف اور اخلاقیات کی درسگاہیں ہوا کرتی تھیں، آج اپنی اہمیت کھو رہے ہیں۔ وہ کتابیں جو کبھی فکری آسمانوں کی بلندیوں تک لے جاتی تھیں، آج کے نوجوانوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وقت کی دھول نے ان روشن ستاروں کو ڈھانپ دیا ہو، اور ہم اندھیرے میں کسی روشنی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
یہ فکری زوال صرف عمارتوں یا کتابوں تک محدود نہیں، بلکہ ہمارے دلوں اور ذہنوں میں سرایت کر چکا ہے۔ اسلامی ورثہ، جو کہ ایک زندہ تہذیب تھی، آج محض ایک تاریخی داستان بن کر رہ گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ورثے کو زندہ کیا جائے، اسے دلوں میں جگہ دی جائے، اور اسے ایک نظریہ کے طور پر فروغ دیا جائے۔ یہ ورثہ محض ماضی کی داستان نہیں، بلکہ ہمارے حال اور مستقبل کی بنیاد ہے۔
ہندوستان میں اسلامی ثقافت کی بقا صرف عمارتوں کے تحفظ سے ممکن نہیں، بلکہ ہمیں اس تہذیب کی روح کو سمجھنا ہوگا۔ وہ اخلاقی اصول جو اسلامی ورثے کا مرکز تھے، آج کے دور میں بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے صدیوں پہلے تھے۔ یہ اصول ہمیں مادیت کی جکڑ بندیوں سے آزاد کر کے روحانیت، محبت، بھائی چارے، اور اخلاقی بلندی کی جانب لے جاتے ہیں۔ اسلامی فلسفے کی یہ وہ روشنی ہے جسے آج کے تاریک دور میں دوبارہ زندہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
آج جب دنیا سرمایہ دارانہ نظام اور مادہ پرستی کے جال میں پھنسی ہوئی ہے، اسلامی ورثے کی وہ فکری بنیادیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کا مقصد محض مال و دولت کا حصول نہیں، بلکہ ایک اعلیٰ اخلاقی اور روحانی زندگی کا قیام ہے۔ اسلامی ثقافت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے، مگر انسان کا کردار، اس کا اخلاق اور اس کی روحانی بلندیاں اسے دائمی بناتی ہیں۔ اس ورثے کا تحفظ محض عمارتوں کو محفوظ کرنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں اپنے دلوں میں اس کے اصولوں کو زندہ کرنا ہوگا۔
اسلامی ورثہ دراصل ایک دریا ہے، جس کی ہر موج میں حکمت، معرفت اور محبت کا پیغام ہے۔ اس دریا کو خشک ہونے سے بچانے کے لیے ہمیں نہ صرف اس کے مادی پہلوؤں کی حفاظت کرنی ہوگی، بلکہ اس کے فلسفی اور روحانی پہلوؤں کو بھی فروغ دینا ہوگا۔
الحاصل اسلامی ثقافت کا ورثہ محض ایک تاریخ کی کہانی نہیں، بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، جو آج بھی وقت کی گرداب میں اپنی جگہ بنائے رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر ہم نے اس کی آواز کو نہ سنا، اس کے پیغام کو نہ سمجھا، تو ہم صرف اپنے ماضی کو کھوئیں گے، بلکہ اپنی شناخت اور مستقبل کی روشنی کو بھی مدھم کر دیں گے۔ وہ تہذیب جو کبھی زمانے کی قیادت کرتی تھی، آج ایک چوراہے پر کھڑی ہے، جہاں سے ہر راہ اسے مزید اندھیروں کی طرف لے جاتی ہے، سوائے اس ایک راہ کے، جو اس کے اصل ورثے کی طرف پلٹنے کا تقاضا کرتی ہے۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اس ورثے کو صرف ماضی کے طلسماتی خوابوں میں دفن کر دیں گے؟ یا پھر ہم اس کی چنگاری کو دوبارہ دہکائیں گے تاکہ یہ ہماری نسلوں کے دلوں میں روشنی بن کر جلتی رہے؟ آج کا دور، جو کہ مادیت، نفس پرستی اور خودغرضی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے، اسلامی فلسفے اور ثقافت کی طرف لوٹنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ورثہ ہمیں اپنے نفس کو بلند کرنے، دلوں میں محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے اور علم کی حقیقی پیاس بجھانے کا درس دیتا ہے۔
یہ سوچنے کا لمحہ ہے کہ کیا ہم اس ورثے کو محض ایک قدیم داستان سمجھ کر بھلا دیں گے، یا پھر اس کی روحانی اور فکری چمک کو اپنے دلوں میں زندہ کریں گے؟ اگر ہم نے اس چراغ کو بجھنے دیا تو شاید زمانے کی آندھیاں ہماری شناخت اور ہمارے اخلاق کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں گی، اور ہم صرف ماضی کے بھٹکے ہوئے مسافر بن کر رہ جائیں گے۔
لہٰذا، اس وقت کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف اسلامی ورثے کو محفوظ کریں، بلکہ اسے اپنے طرزِ زندگی، اپنے سوچنے کے انداز، اور اپنے معاشرتی ڈھانچے میں دوبارہ شامل کریں۔ ورنہ وقت کا سیلاب اس قیمتی ورثے کو یوں بہا لے جائے گا جیسے کبھی یہ تھا ہی نہیں، اور ہم کھڑے، اپنی شناخت اور روح کی تلاش میں، محض ماضی کی خاک پر دستک دے رہے ہوں گے۔
تحریر: محمد شاہد رضا نعمانی