تنقید و تبصرہ

خارجے پر اعتراضات !!!

آج جامعہ اشرافیہ سے دو طالبان کے اخراج کا مسئلہ عروج پر ہے، لوگ طرح، طرح کے تبصرات کئے جارہے ہیں۔ جن میں بعض تبصرات تو میں سمجھتا ہوں کہ بیجا ہے۔ اس پہلے کچھ باتیں بتاتا چلوں پھر اس امر کی بھی تصریح کئے دوں گا انشاءاللہ العزیز۔

جامعہ اشرافیہ کے طلبہ سے رابطے کے بعد یہ معمہ سر ہوا کہ بنگال کے دو طلبہ ہیں، جنہوں نے اعلی حضرت کی شان میں گستاخیاں کری ہیں۔ اسی کو بیس بنا کر جامعہ کے قانون کی خلاف ورزی کے پیشِ نظر ان کا اخراج کردیا گیا۔ وجہ خارجہ کیا بنی جامعہ کے قانون کی خلاف ورزی، اچھا جی آگے بڑھتے ہیں۔ میں نے معلوم کی پوری تفصیل ان کے متعلق۔ تو پتہ چلا کہ سابق میں متعدد مرتبہ انہوں نے ایسا کیا اور کرتے رہے ہیں حتی کی اس کا ثمرہ خارجے کی صورت میں آج دیکھنے کو ملا۔

درسگاہ میں اساتذہ سے اعلی حضرت پر بے جا اعتراضات اور نقد و تنقید۔ اپنی ذاتی فیس بک اور فیک فیس بک آئی ڈی وغیرہ کریئٹ کرکے اعلی حضرت کے خلاف ہفوات بکنا اور ان کی شان اعلی مرتبت میں ہرزہ سرائیوں کے ظلم کا پہاڑ ڈھانا۔ اور فی الوقت کی گستاخیوں کو بھی ایڈ کر لیا جائے۔

ہشام الدین کی ہفوات گوئیاں !!!

۱. اعلی حضرت سے تسامح و تساہل ہوا ہے۔
۲. اعلی حضرت کے مقلدوں کی حالت تو دیکھ۔
۳. میں اعلی حضرت کا ہر فتویٰ نہیں مانتا۔
۳. اعلی حضرت نے فتویٰ رضویہ میں اپنی ذاتی رائے بھی قائم کی ہے۔
اس طرح کی بہت سی نئ نئ بات جو عوام کو نہیں بتانا چاہیے لکھا ہے۔ کچھ تو انھوں نے ڈلیٹ کردیا ہے۔ اور فیس بک پر فیک اکاؤنٹ بنا کر علمائے اہل سنت کو پریشان کرنا ان کا مشغلہ بن چکا ہے۔ اس فیک اکاؤنٹ کا نام ابو انس عزیزی ہے۔
جو دو دن پہلے فسبک پر ظاہر ہوچکا ہے۔

عاشق الرحمن کی ہرزہ سرائیاں !!!

۱۔ ہشام الدین کے سارے پوسٹس کو سپورٹ کرنا اور اس کو شئر، فارورڈ کرنا وغیرہ۔
۲. اعلی حضرت نےتفریح الخاطر کتاب کے مصنف کی تعریف تو کی ہے، اور فتاوی رضویہ میں اس سے استناد بھی کیا ہے،لیکن تفریح الخاطر کتاب میں بہت سی کفر و شرک پر مشتمل واقعات موجود ہیں۔ لہذا اعلی حضرت کا صرف اس کتاب سے استناد کرنا اور اس کا حوالہ دینا اس بات کی دلیل قطعی نہیں ہے کہ تفریح الخاطر میں کوئی قباحت نہیں، یا وہ مستند کتاب ہے۔ اعلی حضرت کے اس کتاب سے حوالہ دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ اس میں کوئی کفریہ یا شرکیہ کلمات نہیں ہو سکتی ہیں، بلکہ اس میں کفری وشرکی کلمات بھری پڑی ہیں۔

۳. بزرگان دین کا کوئی بھی واقعہ بغیر سند کے قبول نہیں اور کوئی بھی روایت مقبول نہیں (چاہے کسی سے بھی متعلق ہوں)

۴. اعلی حضرت نے منیر العین میں فضائل اعمال وغیرہ میں بغیر سند کے روایت مقبول ہونے کا قول کیا ہے، یہ ان کی اپنی رائے ہے جبکہ تمام محدثین، مفسرین، فقہاء، مجتہدین اس کے خلاف رای رکھتے ہیں کہ بغیر سند کے کوئی بھی روایت مقبول نہیں، لہذا اعلی حضرت کو یہاں تسامح ہوا ہے لہذا میں اسے نہیں مانتا۔

خیر اتنی تفصیل کے بعد اب میں آتا ہوں اپنے اصل مدعا پر مجھے فیصلہ نہیں کرنا اور میں خود کو حکم بھی نہیں مانتا نہ ہی کسی نے مجھے حکم مقرر کیا، کہ میں فیصلہ کروں۔ مگر ہاں کہیں بھی اسلاف کے چمن زار کی فضائی دنیا کو پراگندہ اور گرد آلود کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وہاں خاموش بھی رہنا بھی میرے ضمیر کو گوارا نہیں۔ سو کچھ باتیں واضح کر فیصلہ قارئین، اولوالالباب، ذی فہم حضرات کے اوپر چھوڑ دیتا ہوں۔ دیانت داری کے ساتھ آپ اس فریضہ کی انجام دہی کریں۔

ایک جناب لکھتے ہیں !!!

۱۔ یہ واقعہ انتہائی قابلِ تشویش ہے اور جامعہ اشرفیہ جیسے دینی و علمی ادارے میں اس طرح کے حالات پیدا ہونا علمی و فکری سطح پر افسوسناک ہے۔

۲۔ مولوی ہشام الدین اور مولوی عاشق الرحمن جیسے طلبہ اگر ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کی تحقیقات پر علمی اختلاف رکھتے ہیں۔

۳۔ علمی اختلاف پر بے بنیاد الزامات لگانا اور ان کی توہین کرنا قابلِ مذمت ہے۔

درخواست !!!

جامعہ اشرفیہ کے انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں۔ اور طلبہ کو آزادانہ طور پر علمی گفتگو کی اجازت دیں۔ اختلافات کو برداشت کرنا اور دلیل و منطق کی بنیاد پر بحث کو آگے بڑھانا ہی ایک بہترین علمی و تعلیمی ادارے کی پہچان ہے۔ ایسے واقعات کو روکنا اور اساتذہ اور طلبہ میں علمی آزادی اور ادب و احترام کا ماحول قائم کرنا ضروری ہے۔

آں حضرت نے تین دعوے دھکا دھک ٹھوک ڈالے اور ساتھ ہی ایک درخواست کیا جو اُوپر مذکور ہے۔ اور اپنے ان بے بنیاد دعوؤں کو ثابت کرنے کے لئے وہی پرانے حربے اور چربے کا استعمال کیا اور دلیلِ لنگ و بے پا پیش کری گئی۔ اور ایک لمبی چوڑی تحریر شائع کری ہے اس کی بھی لنک میں ڈال دوں گا۔

خیر میں سمجھتا ہوں جو اقدام جامعہ اشرافیہ کے طلبہ اور منتظمین نے کیا سب درست بر وقت اور بجا تھا۔ اب آں جناب پر بھی کچھ تبصرات کئے دیتا ہوں احباب اور قارئین کو اس کا فیصل سمجھتے ہوئے۔

پہلے انہوں نے کہا کہ جامعہ اشرافیہ میں ایسے حالات کا پیدا ہونا علمی اور سطحی طور پر افسوسناک ہے۔ خیر وجہ افسوس تو ہمیں سمجھ نہیں آیا، امید کرتا ہوں کہ حضرت اس کا جواب دیں گے۔ کیوں کہ "بینہ مدعی پر ہوتا ہے” یاد رہے۔

اولاً کیا یہ قول کرنا کہ اعلی حضرت سے تسامح و تساہل ہوا ہے۔ علمی اور ادبی اختلاف کا تقاضہ؟

ثانیاً اعلی حضرت کے مقلدوں کی حالت تو دیکھ” یہ بھی ادب کا ایک نیا رول ہے، جو ہم پر اب تک مخفی رہا ؟

ثالثاً میں اعلی حضرت کا ہر فتویٰ نہیں مانتا” کیا یہ قول درشاتا نہیں قائل کی ذہنیت کو ؟ یہ بھی ادب ہے واہ اے ادب کے ٹھیکیداروں اگر یہ ادب ہے تو ہمیں ایسے آداب نہیں چاہئے۔

رابعاً اعلی حضرت نے فتویٰ رضویہ میں اپنی ذاتی رائے بھی قائم کی ہے” کیا یہی علمی اور ادبی اختلاف کا تقاضہ ہے ؟

خامساً اعلی حضرت نےتفریح الخاطر کتاب کے مصنف کی تعریف تو کی ہے۔ اور فتاوی رضویہ میں اس سے استناد بھی کیا ہے۔ لیکن تفریح الخاطر کتاب میں بہت سے کفر و شرک پر مشتمل واقعات موجود ہیں۔ لہذا اعلی حضرت کا صرف اس کتاب سے استناد کرنا اور اس کا حوالہ دینا اس بات کی دلیل قطعی نہیں ہے کہ تفریح الخاطر میں کوئی قباحت نہیں، یا وہ مستند کتاب ہے۔ اعلی حضرت کے اس کتاب سے حوالہ دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ اس میں کوئی کفریہ یا شرکیہ کلمات نہیں ہو سکتی ہیں، بلکہ اس میں کفری وشرکی کلمات بھری پڑی ہیں۔ یہ قول بھی ادب کا ایک علم دلیل لنگ کا ثبوت ہے۔

سادساً بزرگان دین کا کوئی بھی واقعہ بغیر سند کے قبول نہیں اور کوئی بھی روایت مقبول نہیں (چاہے کسی سے بھی متعلق ہوں) ابھی تک تو اعلی حضرت اب تو بزرگان دین بھی ان کے نیزہ و نشتر سے محفوظ نہ رہے۔

سابعاً اعلی حضرت نے منیر العین میں فضائل اعمال وغیرہ میں بغیر سند کے روایت مقبول ہونے کا قول کیا ہے۔ یہ ان کی اپنی رائے ہے جبکہ تمام محدثین، مفسرین، فقہاء، مجتہدین اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں کہ بغیر سند کے کوئی بھی روایت مقبول نہیں، لہذا اعلی حضرت کو یہاں تسامح ہوا ہے لہذا میں اسے نہیں مانتا۔ یہ قول بھی کتنا علمی وقار سے بھرا ہے ذی افہام پر مخفی نہیں !!!

ثامناً یہ تو ادعا ہیں فقط دلیلیں بھی قایم کریں اپنے ان دعوؤں پر تاکہ یہ اختلاف علمی اختلاف کے زمرے میں مشمر تو ہوں۔ اور اس کا حق ادا تو ہو جس ظلم کو جو آپ نے "وضع الشی علی غیر محلہ” کے ذریعہ چسپاں کیا ہے۔ تاکہ اس سے دامن گرد آلود ہونے سے محفوظ رہے۔ خیر وہ بھی کریں گے جب بھی گرفت ہوگی ہی۔ کچھ بھی کہہ لیں کچھ بھی کر لیں۔

تاسعاً ابھی انہیں طلبہ کی تحریروں میں آپ نے پڑھا کہ کسی بھی بزرگ کی بات نہیں مانی جائے گی بغیر سند کے۔ تو کہنا یہ ہے کہ ان کی بات کسیے مانی جائے بلا دلیل و سند کے اور سپورٹ صاحب آپ کی بات کیسے مانی جائے بلا سند کے۔ اس کا کیا جواب دیں گے آں جناب ؟؟؟

ارے ہاں ایک بات اور انہوں لکھا کہ یہ الزام لگانا ہے ان پر اور ان کی توہین ہے کرنا ہے ان طلبہ کو نکلوانا۔ تو اس کا جواب بھی سن لیں ہم کہتے ہیں کہ طلبہ کا جوش اور خروش تھا جو انہوں نے ایسا کیا اور بجا کیا تاکہ کسی کو دوبارہ ایسی جرأت نہ ہو عبرت تو حاصل کریں اس سے۔ جہاں رہی بات توہین کی تو کیا جو ان طالبان نے کیا وہ توہین ہے؟ اور یہ الزام تو بالکل نہیں حق ہے جو سپوٹر صاحب کے منھ پر تمانچہ ہے۔ جس کا اثر ان کے رخسار پر اور گونج شام کو محسوس ہوئی ہوگی۔ یہ سن کر کہ ایک نے اپنے ہفوات سے توبہ کرلیا اور وضاحت نامہ بھی دائر کیا۔ ان سے اب "نہ نگلتا بنے نہ اگلتا بنے”۔

آخری بات کہہ کر رخصت ہوتا ہوں جو انہوں نے درخواست کی جامعہ سے کہ ان اخراج پر نظر ثانی کری جائے۔ ہم اس بات کی بالکلیہ مخالفت کرتے ہیں یہلی بات۔ دوسری بات یہ ہم جامعہ اشرافیہ کے اس اقدام پر جملہ منتظمین، اساتذہ، طلبہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ یہ کام ہونا چاہئے تاکہ آگے چل کے کوئی دوسرا ناصر رامپوری، ذیشان مصباحی، نور العین مصباحی اور کمال مصطفی ازہری مصباحی پیدا نہ ہو۔ مزید اگر کوئی اس ذہنیت کا ہو تو ایک بار غور کرے اور اپنی عاقبت سے ڈرے۔

جو رضا کا نہیں وہ ہمارا نہیں۔
ساتھ اس کے ہمارا گزارا نہیں۔

تننیہ:- یہ سارے اس طرح کے اعتراضات کرنے والوں سے میرا خطاب ہے۔ کوئی اس سے مستثنٰی نہیں وہ سب جو بے جا اشرافیہ پر تنقید اور ان کی حمایت پر اتر آئے ہیں سب سے خطاب ہے۔

راقم الحروف: محمد اختر رضا امجدی
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے