ماضی قریب کے مشہور محقق جناب شمس بریلوی ٬ صوفیائے کرام اور مشائخِ امت کی تصنیفی خدمات اور رسائلِ تصوف پر روشنی ڈالتے ہوئے ” عوارف المعارف ” کے مقدّمہ میں لکھتے ہیں :
مشہور ہے کہ حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس گراں قدر تصنیف کو جس پر انہوں نے کافی محنت کی تھی اور اپنا کافی وقت بھی اس پر صرف کیا تھا ٬ بصورتِ مسوّدہ زمین میں دفن کر کے کہا : نعم الدليل انت و الاشغال بالدليل بعد الوصل محال . لیکن اس کے باوجود کہ ” وصول کے بعد دلیل کو سمجھنے یا پیش کرنے کی فرصت کہاں اور ان میں اشتغال ایک امر محال ہے ” حضرات صوفیہ کا یہ معمول رہا ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے دور میں علومِ متداولہ کے درس و تدریس کی طرف پوری پوری توجہ کی ہے اور ان مساعی کو وصولِ مطلوب سے پہلے ضروری اور مفید سمجھتے تھے اور صرف درس و تدریس ہی نہیں بلکہ تصوف و طریقت کے موضوع پر ان حضرات نے قلم اٹھایا ۔ چنانچہ عربی ، فارسی اور اردو زبانوں میں بصورت نثر و نظم بزرگانِ سلوک و طریقت اور مشائخ عظام رحمۃ اللہ علیہم جو ذخیرہ اپنی یادگار چھوڑ گئے ہیں ٬ وہ بہت ہی گراں مایہ اور گراں بہا ہے ۔
اہلِ علم سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ” العلماء ورثۃ الانبیاء ” کے مطابق وراثتِ نبوی کا فکری و عملی نمونے پیش کرنے والے گروہ میں علمائے کرام کے ساتھ ساتھ صوفیائے عظام بھی پیش پیش رہے ہیں ۔ جہاں علمائے کرام نے دعوت و تبلیغ ٬ درس و تدریس اور ” جہاد بالقلم ” کا مقدس فریضہ انجام دیا ہے ٬ وہیں صوفیائے کرام نے رشد و ہدایت ٬ وعظ و تلقین اور تصنیف و تالیف سے نہ صرف عوام بلکہ خواص تک کے دلوں کی دنیا فتح فرمائی ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اپنے وقت کے مرجعِ علم و فتویٰ اور اعلم العلماء بھی کسی نہ کسی شیخ ٬ بزرگ اور صوفی و مرشد کے دامنِ کرم سے وابستہ رہے ہیں ۔ صوفیائے کرام اور مشائخِ عظام جامعِ شریعت و طریقت ہوا کرتے تھے ۔ اپنے علم و روحانیت کے سہارے جہاں وہ درس و تدریس کا مقدس فریضہ انجام دیتے تھے ٬ وہیں ظاہر و باطن کی صفائی اور اذہان و قلوب کے تزکیہ و تصفیہ بھی فرماتے تھے ۔ علاوہ ازیں تصنیف و تالیف کے ذریعے اصلاحِ امت کا کام سر انجام دیتے تھے ۔ صاحبِ تصانیف صوفیائے کرام میں سلطان الاولیاء حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ٬ حجۃ الاسلام امام محمد غزالی ٬ شیخ علی ہجویری ٬ شیخ شہاب الدین سہروری ٬ شیخ محی الدین ابن عربی ٬ شیخ ابو طالب مکی ٬ شیخ فرید الدین عطار ٬ شیخ عبد اللہ انصاری ٬ شیخ ابو سعید ابو الخیر ٬ شیخ عبد الرحمٰن جامی ٬ حضرت مولانا روم ٬ مخدومِ جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری ٬ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ٬ حضرت امیر خسرو ٬ غوث العالم حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی ٬ شیخ عبد القدوس گنگوہی ٬ حضرت مجدّد الف ثانی وغیرہم کے اسمائے گرامی سرِ فہرست ہیں ۔
فخر الاماثل ٬ قدوۃ المشائخ حضرت شیخ نور الحق و الدین معروف بہ نور قطبِ عالم پنڈوی علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : 818 ھ / 1415 ء ) کا شمار نویں صدی ہجری کے جلیل القدر صوفیا و مشائخ میں ہوتا ہے ۔ آپ اپنے وقت کے مسلم الثبوت شیخ و صوفی ٬ عارفِ باللہ ٬ ولیِ کامل اور بے لوث داعی و مبلغ تھے ۔ آپ کی ولایت و کرامت مسلّم ہے ۔ علم و روحانیت ٬ سخت عبادت و ریاضت اور تقویٰ و طہارت اور کثرتِ نوافل کے سبب آپ ولایت و روحانیت کے بلند ترین مقام پر فائز تھے ۔ دعوت و تبلیغ ٬ رشد و ہدایت ٬ دین و مذیب کی ترویج و اشاعت اور سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے فروغ و استحکام میں آپ نے اہم کردار ادا کیا ۔ آپ عظیم والد کے عظیم فرزند اور نامور باپ کے نامور سپوت تھے ۔ آپ حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی قدس سرہ ( متوفیٰ : 800 ھ ) کے فرزند و مرید اور خلیفہ تھے ۔ شیخ نور قطبِ عالم نے ظاہری علوم کی تحصیل اپنے والد کے علاوہ قاضی حمید الدین ناگوری علیہ الرحمہ سے کی ۔ آپ سلطان غیاث الدین اعظم شاہ بن سکندر شاہ کے ہم جماعت ( کلاس فیلو ) تھے ۔ یہ وہی قاضی حمید الدین ناگوری ہیں ٬ جو حضرت شیخ شہاب الدین سہروری کے مرید و خلیفہ اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ کے صحبت نشیں ٬ خلیفۂ مجاز اور ظاہری علوم میں ان کے استاذ تھے ٬ جیسا کہ ” تذکرہ صوفیائے بنگال ” میں مرقوم ہے ۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر اور حضرت نظام الدین اولیاء قدس سرہما نے قاضی حمید الدین ناگوری کے علم و فضل اور روحانی مدارج کی بڑی تعریف کی ہے ۔
شیخ نور قطب عالم ٬ غوث العالم ٬ تارک السلطنت حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ ( متوفیٰ : 808 ھ ) کے مخدوم زادے ٬ پیر بھائی اور رفیقِ خاص تھے ۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کے حکم سے پہاڑ کا حرکت کرنا اور حضرت نور قطبِ عالم کے بلانے سے پہاڑ کا چلنے لگنا ٬ بڑی مشہور کرامت ہے ۔ حکیم شاہ قطب الدین احمد حُسامی مانک پوری اپنی مایۂ ناز فارسی تصنیف ” انوار العاشقین ” میں لطائفِ اشرفی کے حوالے سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور آخر میں لکھا ہے کہ جیسے ہی حضرت نور قطب عالم نے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا ٬ پہاڑ حرکت میں آ گیا اور چلنے لگا ۔ اس دن سے بلا اختلاف آپ اپنے والد ( شیخ علاء الحق پنڈوی ) کی مسندِ ارشاد پر متمکن ہو گئے اور بیشمار گمراہوں کو ہدایت کی روشنی عطا فرمائی ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی آپ کے متعلق ” اخبار الاخیار ” میں لکھتے ہیں :
آپ شیخ نور قطب عالم کے نام سے مشہور تھے اور شیخ علاء الحق پنڈوی کے بیٹے ٬ مرید اور خلیفہ تھے ۔ ہندوستان کے بہت بڑے ولی اور صاحبِ ذوق و شوق اور صاحبِ کرامت بزرگ تھے ۔ منقول ہے کہ آپ اپنے والد محترم کی خانقاہ کے جملہ درویشوں اور فقیروں کی خدمت کرتے اور اپنے ہاتھ سے ان کے کپڑے دھویا کرتے اور ان کی ضروریات کے لیے پانی گرم کر کے دیا کرتے تھے …….. شیخ نور قطب عالم کے خطوط کے اندر وہ شیرینی اور الفاظ کے معنی میں وہ لطف و سرور ہے جو دل والوں کے دل کا علاج اور اہلِ محبت کے لیے محبت کا پیغام ہے ۔ آپ کے مکتوبات میں سے چند کلمات نقل کیے جاتے ہیں :
دنیا دھوکے کی جگہ ہے اور تم اس درخت کے تنا کی مانند ہو جس کے اوپر سے اس کی چھال اتار لی گئی ہو اور خدا کی ذات بڑی غیور ہے ۔ ان حالات کے ہوتے ہوئے دل میں فرحت و سرور کیسے آ سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو بذریعۂ وحی مطلع فرمایا کہ اے داؤد ! اپنی امت کے گناہ گار بندوں سے فرما دے کہ میں گناہگاروں کے گناہ بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوں اور جو لوگ صدیقین میں سے ہیں ٬ ان سے فرما دیجیے کہ میں بڑا غیرت مند ہوں ۔
( اخبار الاخیار مترجم ٬ ص : 326 / 330 ٬ ناشر : اکبر بک سیلرز ٬ لاہور )
دعوت و تبلیغ اور رشد و ہدایت کے علاوہ شیخ نور قطب عالم نے ملکی سیاست میں بھی حصہ لیا اور قوم و ملت کی فلاح و بہبود کا فریضہ انجام دیا ۔ آپ کے دور میں کنس ( گنیش ) نامی راجا نے مسلمانوں پر بے پناہ مظالم کیے اور سینکڑوں علما و مشائخ کو بے دریغ قتل کیا ٬ جس سے حضرت شیخ نور قطب عالم تڑپ اٹھے اور سلطان ابراہیم شرقی کو خط لکھ کر راجا کنش کے خلاف جہاد پر آمادہ کیا ۔ آپ کے مکتوب کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے :
کنس نامی ایک کافر و بے دین حاکم اس ملک پر غالب آگیا ہے اور ظلم و خون ریزی کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہے ۔ اکثر علما و مشائخ کو اس نے قتل کرا دیا ہے اور اب بقیہ اہِل اسلام ( کے قتل و غارت ) کی فکر میں ہے ۔ بادشاہانِ اسلام پر مسلمانوں کی حفاظت واجب ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ یہاں آ کر مسلمانوں کو اس کے ظلم سے نجات دلائیں گے ۔ ( تذکرہ صوفیائے بنگال ٬ ص : 393 )
شیخ نور قطب عالم کا جب یہ خط سلطان ابراہيم شرقی کو ملا تو اس نے نہایت عزت و احترام سے اس کو پڑھا اور حضور سید اشرف جہانگیر سمنانی اور قاضی شہاب الدین دولت آبادی قدس سرہما سے مشورہ طلب کیا ۔ سید اشرف جہانگیر سمنانی نے شیخ نور قطبِ عالم کے موقف کی تائید فرمائی اور سلطان ابراہیم شرقی کو خط لکھا ، جس کا مضمون کچھ اس طرح ہے :
اگر آپ کی مدد اور آپ کی فوجوں کی اعلیٰ ہمتی سے یہ متبرک ہستیاں ٬ صاحب زادگان ( حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی کے فرزندانِ گرامی ) اور ان کے سلسلۂ نسب سے تعلق رکھنے والے خاندان ٬ حضرت قطب عالم کے دوسرے افراد اس کالے کافر ( کنس ) کے پنجوں سے نجات پا جائیں تو یہ ایک بہترین کارنامہ ہوگا ۔ میں جو کہ مجروح فقیر ہوں علّائی سلسلے کا ، میں آپ کے اس عزم پر جو آپ نے کیا ہے ، مبارک باد دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دست بہ دعا ہوں کہ وہ بنگال کو ان کافروں کے ہاتھ سے نجات دے ۔ میں نے ابھی ابھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں سورۂ فاتحہ پڑھی یے اور اس سے انصاف طلب کیا ہے ۔ کیوں کہ آپ کا اور آپ کے امرا کا مقصد سر زمینِ بنگال کو آزاد کرانا ہے اور اسلام کے علَم کو سر بلند کرنا ہے ۔ ان شاء الله تعالیٰ آپ اپنے مقصد میں بہترین طریقے پر کامیاب ہوں گے ۔ کیوں کہ بادشاہ کا یہ قطعی اور صحيح فيصلہ حضرت مخدوم ( علاء الحق ) کے صاحب زادے ( شیخ نور قطب عالم ) کی تمنا کے مطابق اور ان کے مقصد کی تکمیل کے لیے معاون و مددگار ہے ۔ لہٰذا آپ کو اس بزرگ ہستی کی عقیدت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنی چاہیے اور کبھی جان بوجھ کر ان سے ملنے سے گریز نہ کرنا چاہیے اور ان کے مقصد کے حصول کے لیے لڑنے سے روگردانی نہ کرنی چاہیے ۔
( تذکرہ صوفیائے بنگال ٬ ص : 396 / 397 ٬ ناشر : مرکزی اردو بورڈ ٬ لاہور )
شیخ عبد الحق دہلوی نے آپ کے مکتوبات کے ظاہری و معنوی پہلوؤں کی تعریف کی ہے اور ان کو امراضِ قلبیہ کے لیے علاج و تریاق بتایا ہے ۔ مکتوبات کی طرح آپ کے بیش قیمت ملفوظات اور اقوال و ارشادت بھی کافی اہم ہیں ۔ آپ کی حیات بخش اخلاقی و روحانی تعلیمات میں پند و موعظمت ، اسرار و معارف اور سلوک و تصوف کے گوہرِ گراں مایہ پوشیدہ ہیں ۔ ” مونس الفقراء ” آپ کی اکلوتی تصنیف ہے ٬ جو زبان و بیان کا خوب صورت مرقع ہونے کے ساتھ اسلامی و روحانی تعلیمات کا بیش قیمت خزانہ ہے ۔ اس کی سطر سطر سے آپ کا علمی مقام ٬ روحانی عظمت ٬ عبادات اور فرائض و نوافل سے غایت درجہ شغف و انہماک ٬ خلوص و للّٰہیت اور مسلم معاشرے میں صوفیانہ اقدار و روایات کی ترویج و توسیع سے متعلق آپ کی تڑپ کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے ” مونس الفقراء ” کی شکل میں اپنا خونِ جگر نچوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ کتاب کی نوعیت اور اس کے مندرجات و مشمولات پر روشنی ڈالتے ہوئے شیخ نور قطب عالم اس کے آغاز میں تحریر فرماتے ہیں :
اس مجموعہ ( مونس الفقراء ) کو میں نے انتیس فصلوں پر مرتب کیا ہے ۔ پہلی فصل : نماز میں حضوریِ دل کے بیان میں ، دوسری فصل : نمازِ فجر میں سنتِ فجر سے قبل کیے جانے والے ذکر اور مسجد کی جانب جانے کے بیان میں ، تیسری فصل : ان دعاؤں کے بیان میں جن کا ذکر احادیث و آثار میں آیا ہے ، چوتھی فصل : نمازِ اشراق ، اس کی دعائیں ، نمازِ تسبیح اور اس کی دعاؤں کے بیان میں ، پانچویں فصل : نمازِ چاشت اور اس کی دعاؤں کے بیان میں ، چھٹی فصل : نمازِ ظہر ، دیگر نوافل اور اس کے بعد کی دعاؤں کے بیان میں ، ساتویں فصل : نماز عصر اور اس کی دعاؤں کے بیان میں ، آٹھویں فصل : نمازِ مغرب ٬ نمازِ اوّابین اور دوسرے نوافل کے بیان میں ٬ نویں فصل : نماز عشا ٬ نوافل اور بعد نماز عشا کی دعاؤں کے بیان میں ، دسویں فصل : تہجد ، نوافل اور بعد تہجد کی دعاؤں کے بیان میں ، گیارہویں فصل : نماز قضائے حاجات اور کفایتِ مُہمّات کے بیان میں ، بارہویں فصل : حضور علیہ السلام کے جمال با کمال کو دیکھنے کے لیے جو نماز و ادعیہ ہیں ان کے بیان میں ، تیرہویں فصل : فضائلِ نماز جمعہ کے بیان میں ، چودہویں فصل : شب جمعہ کے اوراد و وظائف اور روز جمعہ اور ساعتِ مقبول کے بیان میں ، پندرہویں فصل : توبہ اور شرائطِ توبہ کے بیان میں ٬ سولہویں فصل : ذکرِ ارادت ، تعریف شیخ اور اس کی شرطوں کے بیان میں ، سترہویں فصل : خلوت و گوشہ نشینی اور چلّہ کشی کے بیان میں ، اٹھارہویں فصل : خلوت و گوشہ نشینی کے دلائل و شرائط کے بیان میں ، انیسویں فصل : فضیلت ذکر کے بیان میں ، بیسویں فصل : کیفیتِ ذکر کے بیان میں ٬ اکیسویں فصل : نفیِ خواطر کے بیان میں ٬ بائیسویں فصل : احوالِ دل کے تجسّس و تفقد کے بیان میں ٬ تئیسویں فصل : تفرقۂ دل کے علاج کے بیان میں ، چوبیسویں فصل : فقر و قناعت کی فضیلت کے بیان میں ، پچیسویں فصل : تجرید و تفرید کے بیان میں ٬ چھبیسویں فصل : نفس ، دل ، روح اور سر کے بیان میں ، ستائیسویں فصل : سماع ، وجد اور رقص کے بیان میں ، اٹھائیسویں فصل : شرائط و آدابِ سماع اور تخریق ثوب اور حالت وجد میں پھٹ کر گرے کپڑے کے احکام کے بیان میں ، انتیسویں فصل : بادشاہ اور ان کے علاوہ سے فتوح ( نذرانے ) وغیرہ لینے ٬ کھانے اور کھلانے کے بیان میں ۔
مذکورہ بالا اقتباس سے کتاب کی اہمیت و معنویت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ وقت کی قلت کے پیشِ نظر کتاب کے چیدہ مقامات کی توضیح و تشریح اور اس کے تفصیلی تعارف سے قاصر ہوں ۔ حضرت مصنف علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات اور کتاب کے مختلف موضوعات کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر ایک مستقل کتاب تیار کی جا سکتی ہے ۔ اللہ کرے کوئی بندہ سامنے آئے اور اس خواب کو شرمندۂ تعبیر بنائے ۔ ڈاکٹر اعجاز الحق قدوسی نے ” تذکرہ صوفیائے بنگال ” میں ” مونس الفقراء ” کی ضخامت 60 / صفحات بتائی ہے ۔ جب کہ زیر تبصرہ کتاب ( انیس العرفاء ) کے آخر میں شامل ” مونس الفقراء ” کا اصل فارسی متن ص : 409 تا 610 کو محیط ہے ۔ کہاں ساٹھ صفحات اور کہاں دو سو صفحات ٬ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ممکن ہے کہ اس کے مترجمین نے خانقاہ شہبازیہ ٬ بھاگل پور میں موجود نسخہ کے علاوہ دیگر قلمی اور مطبوعہ نسخوں سے تقابل کے بعد ہی اسے ترجمہ و طباعت کے مراحل سے گذارا ہوگا ٬ ورنہ اس کی صحت و ثقاہت پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے ۔
خانقاہ در اصل عبادت گاہ کو کو کہتے ہیں اور یہاں سے ہر وہ کام انجام پاتا ہے ٬ جو عند الشرع عبادت کا درجہ رکھتا ہے ۔ خواہ وہ عبادت و ریاضت ہو ٬ یا خدمتِ خلق ٬ دعوت و تبلیغ اور رشد و ہدایت ہو یا درس و تدریس ٬ تصنیف و تالیف ہو یا دینی و رفاہی کاموں سے متعلق منصوبہ بندی ۔ یہ سارے مقدس کام خانقاہوں سے انجام پاتے ہیں ۔ آج اگر چہ خانقاہیں اپنی قدیم روش سے کافی ہٹ چکی ہیں ٬ بایں ہمہ آج بھی اس خاکستر میں چنگاری موجود ہے ٬ جو لہکتی ہے تو شعلۂ جوّالہ بن جاتی ہے اور انفس و آفاق کو منور کر دیتی ہے ۔ شہبازیہ ٬ ملّا چک ٬ بھاگل پور ( بہار ) صوبۂ بہار کی ایک عظیم علمی و روحانی خانقاہ ہے ٬ جو گذشتہ کئی صدیوں سے دعوت و تبلیغ اور رشد و ہدایت کا کام عظیم پیمانے پر انجام دے رہی ہے ۔ دینی ٬ ملی اور تبلیغی کارناموں کے علاوہ اس کی تصنیفی و اشاعتی خدمات بھی قابلِ قدر ہیں ۔ ” حضرت مولانا ولی العالم اکیڈمی ” کے قیام کے بعد مختلف موضوعات پر یہاں سے اب تک دو درجن سے زائد کتب و رسائل شائع ہو چکے ہیں ٬ جو خوش آئند اقدام اور قابلِ تقلید عمل ہے ۔ سالِ گذشتہ یہاں سے سلطان العارفین حضور سرکار سیدنا شہباز محمد بھاگل پوری علیہ الرحمہ کی مایۂ ناز تالیف ” ستین شریف ” ترجمہ و تشریح کے ساتھ شائع ہوئی تھی ٬ جو تقریباً چھ سو صفحات سے متجاوز تھی ۔ زیرِ تبصرہ کتاب ” انیس العرفاء ترجمۂ مونس الفقراء ” چھ سو دس صفحات ( 610 ) پر مشتمل ہے اور حال ہی شائع ہوئی ہے ۔ ایک عظیم علمی و روحانی سرمایہ کی حفاظت خانقاہ شہبازیہ کا ایک اہم اور عظیم الشان کارنامہ ہے ۔ علمِ تصوف کے درجنوں موضوعات و مباحث کو محیط یہ کتاب عوام و خواص اور علما و طلبہ سب کے لیے یکساں مفید ہے ۔ الحمد للہ ! راقم الحروف کی کوشش سے اب یہ کتاب بہت جلد پڑوسی ملک ( پاکستان ) سے بھی شائع ہونے والی ہے ۔
اس گراں قدر کتاب کے مترجمین پیرِ طریقت ٬ گلِ گلزارِ شہبازیت حضرت علامہ سید شاہ محمد انتخاب عالم عطاؔ شہبازی دامت برکاتہم العالیہ ( زیب سجادہ خانقاہ عالیہ شہبازیہ ٬ بھاگل پور ) اور پیکرِ علم و حکمت حضرت علامہ مفتی محمد فاروق عالم اشرفی مصباحی دام ظلہ العالی ہیں ۔ مخدوم گرامی حضور سید شاہ انتخاب عالم شہبازی ایک مایۂ ناز عالم دین ٬ منفرد و ممتاز نعت گو شاعر ٬ ادیبِ عصر اور ایک درجن کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں ۔ علاوہ ازیں متقی و پرہیزگار ٬ خلیق و متواضع اور ملنسار ہیں ۔ علم و روحانیت ٬ حکمت و ادب اور حسنِ اخلاق کی تابانیوں نے آپ کی شخصیت کے چاند کو اس قدر منور و ممتاز کر دیا ہے کہ اہلِ علم کے درمیان دور ہی سے پہچان لیے جاتے ہیں ۔ آپ کی قیادت و سربراہی میں خانقاہ شہبازیہ دن بدن ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے ۔ اللہ رب العزت جماعتِ اہلِ سنت پر آپ کا ظلِّ ہمایونی تا دیر قائم و باقی رکھے آمین !
تبصرہ نگار : طفیل احمد مصباحی