مذہبی مضامین

انسانی کوشش کے مطابق ہی ثمرات اعمال مرتب ہوتے ہیں

جس طرح تاریکی و روشنی، علمیت و تعلیمی پسماندگی، ہدایت و گمراہی، موت و زندگی، امیری و فقیری، بلندی و پستی، دھوپ کی تمازت اور چھائوں کی ٹھنڈی میں فرق ہوتا ہے اسی طرح اعمال صالحہ و افعال قبیحہ اور ثواب و عقاب میں بھی فرق ہوتا ہے۔ جیسے کہ حسب ذیل حدیث شریف سے مترشح ہورہا ہے۔رحمت عالم ؐ ارشاد فرماتے ہیںصدق کو لازم کرلو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے پاک نزدیک بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو محتاط ہوکر زندگی گزارنا چاہیے تاکہ غیر دانستہ طور پر بھی ان سے کوئی نیکی کا کام چھوٹ نہ جائے اور نہ ان سے کوئی گناہِ صغیرہ بلکہ خلاف اولی افعال کا بھی ارتکاب ہوسکے۔ انسان کی سعادت مندی اور بدبختی اس کی اپنی سعی و جد و جہد پر منحصر ہے۔ جب دنیاوی امور میں بغیر محنت و مشقت کے کوئی پھل ثمرہ نہیں ملتا تو پھر دینی معاملات میں بغیر مسابقت اعمال صالحہ کے اخروی کامیابی و کامرانی کی آرزو و تمنا کرنا بھی فضول و عبث ہے۔ اگر مسلمان صدق دل، حسن نیت اور اخلاص کے ساتھ اعمال صالحہ بجائے لائے گا تو اس کا کردار صفات فاضلہ اور ملکات اخلاقی سے متصف ہوجائے گا، اس کا نفس ’نفس مطمئنہ‘ کی عظیم دولت سے مالامال ہوگا جس کے باعث وہ دنیا و عقبی و کامیاب و کامران ہوگا۔اور اگر مسلمان گناہوں کا ارتکاب کرے گا یا اعمال صالحہ بھی ریاکاری اور نام نمودکے تحت کرے گا تو اخلاقی خرابیوں کا شکار ہوجائے گااور وہ نفس امارہ کا غلام بن جائے گا جس کی وجہ سے دنیا و آخرت میں اس کی تباہی و بربادی یقینی ہوجاتی ہے چونکہ ہر شخص اپنے گناہ کے سبب ہلاک ہوگا۔

قرآن مجید نے آخرت میں جزا و سزا کا واضح اصول بیان فرمایا کہ انسان کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا ملے گی ۔ یعنی بروز محشر کوئی انسان بغیر اعمال صالحہ کے اجر و ثواب کا مستحق نہیں بنے گا ورنہ بہت سارے دنیاوی معاملات ایسے ہیں جہاں انسان کو بغیر کسی محنت و مشقت کے پھل مل جاتا ہے جیسے وراثت میں وارثین کو حصہ ملنا، غرباء و مساکین کو امو ال زکوٰۃ، صدقات واجبہ ونفلی خیرات کا ملنا وغیرہ ۔ مسئلہ ایصال ثواب بھی اس اصول سے مستثنیٰ ہے۔احکامات الٰہیہ، فرامین اقدس، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، مفسرین، محدثین، آئمہ مجتہدین، فقہاء دین متین، علماء متقدمین و متاخرین، اور صالحین کے اقوال و اعمال اور کثیر دلائل سے ایصال ثواب کے جواز و استحباب اور مستحسن ہونے کا ثبوت ملتا ہے جس سے فوت شدہ مسلمانوں کے خزانہ حسنات و بلندی درجات میں اضافہ ہوگا اور عذاب میں تخفیف ہوگی ۔مزید برآں اس بات کی بھی صراحت ملتی ہے کہ صدقات و دیگر اعمال صالحہ کا اجر و ثواب فوت شدہ مسلمان کو ملے گا اور یہ اعمال کرنے والے کے اجر و ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ یعنی ایصال ثواب ان اعمال خیر میں سے ہے جن کا نفع و برکات ذات کے ساتھ دیگر مسلمانوں بالخصوص فوت شدہ مسلمانوں کو بھی ملتا ہے۔ ہر انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے اعمال صالحہ کے اجر وثواب سے خود مستفید ہو یا اپنے عزیز و اقاریب کو ان کا اجر و ثواب ایصال کردے۔ جیسے اگر کوئی ملازم اپنی تنخواہ خود استعمال کرنے کے بجائے مستحقین میں بانٹنا چاہتا ہے تو اسے پورا اختیار حاصل ہے۔ مذکورہ بالا قرآنی اصول جس میں یہ بتایا گیا کہ ہر انسان کو اس کی سعی و کوشش کے مطابق حصہ ملے گا عرب اور عیسائیوں کے اس مخرب عقیدہ پر خط تنسیخ کھینچ رہا ہے جس کے مطابق ایک انسان دوسرے کے گناہوں کو اپنے ذمہ لے سکتا ہے تاکہ مسلمان خرافات کی طرف پناہ لینے یا اپنے گناہ کو کسی اور کی گردن میں ڈالنے کے بجائے ہمیشہ اعمال صالحہ کے لیے جد و جہد کرتے رہیں اور افعال قبیحہ سے اپنے دامن کو پاک و صاف رکھنے کی کوشش کرتے رہیں ۔ اگر بالفرض محال کوئی کوتاہی یا لغزش واقع بھی ہوجائے تو تلافی ما فات کے لیے توبہ و استغفار میں منہمک رہیں۔ بروز قیامت انسان کی محتاجی و لاچارگی کو قرآن مجید واضح الفاظ میں بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے اس دن کوئی شخص کسی دوسرے گناہگار کا بوجھ نہیںاٹھائے گا۔ دنیا میں ممکن ہے کہ والدین اولاد کا، شوہر رفیقہ حیات کا، قرابتی دوسرے رشتہ داروں کا ، ایک رفیق دوسرے دوست کا بوجھ اٹھالے لیکن بروز قیامت ان میں سے کسی میں بھی انسان کے گناہ اور خدا کے قہر و غضب کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں ہوگی۔ عموماً انسان حرام ذرائع سے پیسہ کمانے کو اس لیے ترجیح دیتا ہے تاکہ اس کے والدین کو سکون و راحت کی زندگی میسر ہوسکے، اس کی بیوی کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ مل سکے، اس کی اولاد کا مستقبل محفوظ ہوسکے ، اس کے بھائیوں کو پریشانی نہ آسکے، یا پھر دوستوں میں اس کی حیثیت برقرار رہ سکے۔ قرآن مجید کہتا ہے جن لوگوں کی رضا و خوشنودی کے لیے انسان دنیا میں سرکشی و نافرمانی کرتا ہے ان میں سے کوئی قیامت کے دن اس کے کام نہ آئے گا۔ جب انسان کو محشر کی طرف بلایا جائے گا تو وہ دن اس قدر دل کو دہلانے والا ہوگا کہ بدحواس و بے چین انسان کو دوسروں کا ہوش نہ ہوگا چونکہ وہاں ہر کوئی اپنی مصیبت میں پھنسا ہوگا۔ قیامت کی ہولناکی اس روز انسان کو سوائے اس کی ذات ، اس کے اعمال اور اس کی سرنوشت کے ہر ایک بشمول احباب و اقارب اور محبوب تر افراد سے غافل کردے گی اور وہ تمام علائق سے بے نیاز و بیگانہ ہوجائے گا۔ جب قرآن مجید نے روز محشر کی عجیب افراتفری اور نفسا نفسی کے عالم کو وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے تو پھر عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ اپنے عزیز و محبوب ترین لوگوں کی زندگی کو پرسکون بنانے کے لیے اپنی عمریں فسق و فجور میں مبتلا رہتے ہوئے برباد نہ کریں اور نہ ہی بداعمالیوں کی نحوست و سیاہی اور ان سے حاصل ہونے والی ذلت و رسوائی سے اپنی آخرت کو برباد کریں۔ بلکہ اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی دنیا و آخرت کو سنوارنے کی کوشش و سعی کریں تاکہ اللہ تعالی دونوں جہانوں میں ہمیں ہر اندیشہ و فکر سے آزاد کردے اور مسرت و فرحت سے ہمارے دامن کو بھردے۔

چند اعمال و اسباب ایسے ہیں جن کا اجر و پاداش میت کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ جیسے اگر کوئی انسان اللہ اور اس کے حبیب کے حکم کے مطابق اطاعت و فرمانبرداری اور نیکی کا کام کرتا ہے اور دوسرے اس کی تقلید کرتے ہیں تو اس کا ثواب پیروی کرنے والے کو ملنے کے ساتھ ساتھ مطیع و فرمانبردار کو بھی ملے گا۔ اسی طرح جب کوئی شخص برائی کا کام کرتا ہے اور دوسرے اس کی تقلید کرتے ہیں تو اس کا عذاب اس پر ہوگا اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہوگا ۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا ایک بہترین اور موثر ذریعہ ہے اچھائیوں کو فروغ دینا کا ۔ تحقیق و تدقیق کے بعد اسلامی تعلیمات سے متعلق معتبر و مستند مواد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کریں گے تو چند لمحات میں اس کی اشاعت دنیا بھر میں ہوجائے گی اور اس کے مطابق لوگ نیکی کی طرف راغب ہونا شروع ہوجائیں گے۔اور اس کے بعد ان تمام کی نیکیاں ہمارے نام اعمال میں درج ہوں گی۔ لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے دوری کے نتیجہ میں مسلمان بالخصوص نوجوان نسل اپنے وجود کا سرمایہ یعنی خداداد صلاحیتوںاور توانائیوں کو تھوڑی سی قیمت میں بیچ کر ضائع کررہے ہیں اور اپنے آپ کو خداکی اطاعت سے بے نیاز سمجھ کر سوشیل میڈیا پر مخرب اخلاق مواد ، فلمی نغموں پر نیم برہنہ رقص والی ریل اور ٹرالنگ کے نام پر مغلظات کو اپ لوڈ کررہے ہیں جو درحقیقت توفیقات کے سلب ہونے اور نافرمانیوں میں ڈھیل دیئے جانے کی نشانی ہے۔ گرچہ فحش کلامی ، بے حیائی کی باتیں سننا، اپنے ذہن میں بے ہودہ افکار و خیالات لانا محقّرات اعمال اور صغائرمیں سے ہیں لیکن بندہ ان گناہوں کے مبادیات پر اصرار کرتا رہے گا تو اس کی وجہ سے انسان بتدریج شقاوت و بدبختی کے کاموں میں منہمک و مصروف ہوتا چلا جاتا ہے جس کی پاداش میں بروز محشر اس کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں داخل کیا جائے گا۔ جتنے لوگ سوشل میڈیا پر ہماری ان بداعمالیوں پر مبنی پوسٹ، ویڈیو اور ریل کو شیئر کریں گے اس کا وبال ہمارے اوپر آئے گا اور گناہ ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوں گے۔ یہ تمام واہیات حرکتیںاظہار خیال کے بنیادی حق کے نام پر ہورہی ہیں لیکن کیا دنیا کے کسی انسان میں اتنی ہمت ہے کہ وہ حق اظہار رائے کی بنیاد پر کسی ملک یا اس کے پرچم کی توہین کرے پھر یہ کھلواڑ صرف شریعت مطہرہ کے ساتھ ہی کیوں؟ دیکھنے میں یہ بھی آرہا ہے کہ محض انتخابات میںکامیابی حاصل کرنے کے لیے کچھ مسلم سیاسی قائدین مخالفت کے نام پر ایک دوسرے کی عزت کو نیلام کررہے ہیں جبکہ احترامِ مسلم کا تقاضہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی عزت وحرمت کا پاس و لحاظ رکھیں۔ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کے خلاف مغلظات بک رہے ہیں ایک دوسرے کی عزت اچھال رہے ہیںجبکہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی کہ کسی مسلمان سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے اور اس کی بے عزتی کرنا سود سے بڑا گناہ ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ کسی کو مزاق میں بھی گالی دینے کا وبال و عذاب یہ ہے کہ قبر میں ایک ایسا بچھو پیدا کیا جائے گا جس کے ایک مرتبہ کاٹنے سے انسان 70 ہاتھ زمین میں دھنس جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے برے القابات کا استعمال کررہے ہیں جبکہ بلا اجازت شرعی کسی بھی مسلمان کی دل شکنی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ ہمارا یہ عملی انداز وہ طریقہ کار جس کا انجام مشقت و مصیبت ہے جس کا ابدی مقام جہنم ہے۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

ازقلم: پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com (Osm)

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے