مغضوب قوم: قسط نمبر 5
تحریر: شفیق احمد ابن عبداللطیف آئمی
حضرت یوسف علیہ السلام کے بعدبھی بنی اسرئیل ملک مصر کا انتظام سنبھالتے تھے اور بادشاہ یعنی فرعون صرف نام کا فرعون ہوتا تھالیکن دھیرے دھیرے بن اسرائیل میں عیش پسندی اور آرام پسندی پیدا ہوتی گئی اور حکومت پر سے اُن کی گرفت چھوٹتی گئی اور مختلف علاقوں میں قبطیوں نے انتظامات سنبھالنے شروع کردیئے ۔ اس طرح دونوں کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی اور ملک مصر میں بد نظمی پھیلنے لگی اور حکومت کے اہم عہدے قبطی حاصل کرنے لگے اور بنی اسرائیل کے ہاتھوں سے انتظامات کے عہدے چھوٹنے لگے۔یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے بیس(۲۰)یا پچیس(۲۵)سال پہلے حکومت کے تمام عہدے بنی اسرائیل سے چھین لئے گئے تھے اور حکومت کے اہم عہدوں پر مصری فائز ہوچکے تھے اور بنی اسرائیل عام عوام کی حیثیت سے رہنے لگے تھے۔جن کی تعداد کئی لاکھ تھی۔ایسے حالات میں ولید بن مصعب فرعون بنا۔اُس کے فرعون بننے کی کہانی بھی کافی دلچسپ ہے۔مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا فرعون چونکہ بہت خوب صورت تھا،اس لئے لوگ اسے قابوس کہتے تھے۔جس کے معنی ہے ’’روشن چنگاری‘‘۔یہ بہت ہی سخت مزاج اور ظالم شخص تھا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام تک اُن کی اولاد ملک کنعان میں رہی۔پھر بھائیوں کے حسد کی وجہ سے حضرت یوسف علیہ السلام مصر پہنچ گئے۔یہاں اﷲ تعالیٰ نے اُن کو بڑا عروج عطا فرمایا۔جب ملک کنعان میں سخت قحط پڑا تب حضرت یعقوب علیہ السلام اور اُن کی ساری اولاد ملک مصر آگئی۔اُن سب کو اﷲ تعالیٰ نے بڑھایااور چند صدیوں میں مصر میں اِن کی تعداد لاکھوں میں ہو گئی۔اور اِس عرصہ میں وہاں (مصر میں)اسرائیلوں کا دبدبہ رہا۔حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے کا فرعون اور اُس کے ساتھی مر کھپ گئے ،اور ملک مصر میں بد نظمی پیدا ہوگئی ۔ولید بن مصعب جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا فرعون ہے،یہ شہر اصفہان کا ایک غریب عطار تھا۔جب اُس پر بہت قرض ہوگیا تو اصفہان سے بھاگ کر ملک شام پہنچا(جو اُس وقت ملک کنعان کا حصہ تھا۔)لیکن وہاں کوئی ذریعۂ معاش ہاتھ نہیں آیاتو روزی کی تلاش میں ملک مصر آیا۔یہاں اُس نے دیکھا کہ گاؤں میں تربوز بہت سستے ملتے ہیںاور شہر میں بہت مہنگے بکتے ہیں۔اُس نے سوچا یہ منافع بخش تجارت ہے۔اس لئے اس نے گاؤں سے بہت سارے تربوز خریدے مگر جب تجارت کی غرض سے فروخت کرنے کے لئے شہر کی طرف چلا تو راستے میں محصول لینے والوں نے کئی جگہ اُس نے محصول لیا۔بازار آتے آتے اُس کے پاس ایک ہی تربوز بچاباقی تربوز محصول ادا کرنے میں چلے گئے۔یہ سمجھ گیا کہ اس ملک میں کوئی شاہی نظام نہیں ہے جو چاہے حاکم بن کر مال حاصل کرسکتا ہے۔اُس وقت ملک مصر میں کوئی وبائی بیماری پھیلی ہوئی تھی،لوگ مر رہے تھے۔یہ قبرستان میں جا کر بیٹھ گیا ،اور کہا میں شاہی افسر ہوں ،مردوں پر ٹیکس لگا ہے۔فی مُردہ پانچ درہم مجھے ادا کرو ،اور دفن کرواور اس طرح اس نے بہت سا مال جمع کرلیا۔ایک روز شاہی گھرانے کا مُردہ دفن کے واسطے لایا گیا۔اُس نے اُس کے وارثوں سے بھی درہم مانگے،تو انہوں نے اُسے گرفتار کرکے فرعون کے پاس پہنچا دیا،اور سارا واقعہ بادشاہ کو بتایا۔بادشاہ نے یعنی فرعون نے اُس سے پوچھا کہ تجھے کس نے مقرر کیا ہے؟ولید بولا ۔میں نے آپ تک پہنچنے کے لئے یہ بہانہ بنایا ہے۔میں آپ کو خبر دیتا ہوں کہ آپ کے ملک میں بڑی بد نظمی ہے۔میں نے تین مہینے میں ظلماً اتنا مال جمع کرلیا ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیںکہ دوسرے حکام کتنا کماتے ہوں گے۔یہ کہہ کر اُس نے وہ سارا مال فرعون کے سامنے ڈال دیااور بولا۔اگر آپ انتظام میرے سپرد کردیں تو میں آپ کا ملک درست کردوں گا۔بادشاہ کو یہ بات پسند آئی اور اُس نے کوئی معمولی عہد اُسے دے دیا۔ولید نے ایسا طریقہ اختیار کیا ،جس سے بادشاہ بھی خوش تھا اور اور عوام بھی خوش تھی ۔رفتہ رفتہ اس ے تمام لشکر کا سپہ سالار بنا دیا گیا،اور ملک مصر کا انتظام اچھا ہو گیا۔جب مصر کا بادشاہ مرا تو رعایا اور درباری اُمراء نے ولید کو فرعون بنا دیا۔
فرعون کے سب سے بڑے دشمن بنی اسرائیل
حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد بھی ملک مصر کا انتظام بنی اسرائیل کے ہاتھوں میں تھا۔اور کئی سو سال تک وہ بہت اچھی طرح سے ملک مصر کا انتظام سنبھالتے رہے۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو ملک مصر کے حکمراں بنی اسرائیل ہی تھے۔کئی سو سالوں میں بڑھتے بڑھتے وہ لاکھوں کی تعداد میں پہنچ گئے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا پرستی میں بھی مبتلا ہو تے گئے۔دھیرے دھیرے مصری یعنی قبطی اُن سے بد ظن ہونے لگے ، اور پھر معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بہت سے علاقوں کا انتظام قبطی اپنے ہاتھوں میں لینے لگے۔اس طرح قبطیوں اور اسرئیلیوں میں رسہ کشی ہونے لگی اور ملک مصر بد نظمی کا شکار ہونے لگا۔ایسے ہی وقت میں ولید کو حکومت میں عہدہ ملا،اُس نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کا دبدبہ کئی سو سالوں سے مصر پر رہا ہے اور ابھی بھی بہت سے علاقوں میں اسرائیلوں کا حکم چلتا ہے جن سے قبطی بد ظن ہیں ۔اُس نے اس کا فائدہ ولید نے اُٹھایا اور قبطیوں کے دل میں اسرائیلیوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے لگا۔بنی اسرائیل اس وقت تک بہت امیر بن چکے تھے۔اُن کے اندر مال ودولت جمع کرنے کی حرص بہت بڑھ چکی تھی اور اس کے لئے وہ قبطیوں پر طرح طرح کے ٹیکس لگاتے تھے۔جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ ولید کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے تو اس کے خلاف ہو گئے ۔لیکن ولید کا دبدبہ بادشاہ اور عوام پر اتنا بڑھ گیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے خلاف ہو گئے۔ولید جانتا تھا کہ بنی ا
سر
ائیل کو موقع ملا تو وہ اسے حکومت سے بے دخل کر سکتے ہیں۔اس لئے وہ بنی اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن بن گیا۔اس نے بنی اسرائیل کے ہاتھوں سے بچے کچے انتظامات چھننے شروع کردیئے،اور جب ولید فرعون یعنی بادشاہ بنا تو اُس نے پہلا کام یہ کیا کہ بنی اسرائیل کو غلام بنا دیا۔اب اسرئیلیوں کی حیثیت غلاموں کی تھی اور قبطیوں کی حیثیت حکمرانوں کی تھی۔
فرعون کا خدائی دعویٰ اور بنی اسرائیل کا انکار
بنی اسرائیل کے ہاتھوں سے حکومت کے انتظامات قبطیوں نے اپنے ہاتھوں میں لینے شروع کئے تو ملک مصر بد نظمی کا شکار ہو گیا۔اسی دوران فرعون کا انتقال ہو گیا تو ولید بن مصعب جو سپہ سالار اور ملک کا منتظم تھا،اُس نے قبطیوں کے ساتھ ملکر درباری اُمراء اور وزراء کو خریدنا اور دھمکانا شروع کردیا۔آخر کار وزیروں اور درباریوں نے اُسے بادشاہ بنا دیا۔اُس کا سب سے خاص آدمی یعنی ساتھی ہامان تھاجو پچھلے فرعون کا وزیر اعظم تھا۔ولید بن مصعب نے فرعون بنتے ہی خدائی دعویٰ کردیا۔مفتی احمد یار خان نعیمی آگے لکھتے ہیں۔اُس نے (ولید بن مصعب نے)تخت پر بیٹھتے ہی یہ اعلان ِعام کیا کہ لوگ اس کو سجدہ کیا کریں۔سب سے پہلے اس کے وزیر ہامان نے اس کو سجدہ کیااور پھر دوسرے امیروں اور سرداروں کے ذریعے ملک مصر کے لوگوں کو سجدہ کراتا تھااور دور رہنے والوں کے لئے اُس نے اپنے نام کے بُت بنواکر بھیج دیئے تھے۔اور حکم دیا تھا کہ وہ اِن بتوں کو سجدہ کیا کریں۔تمام اہل مصر (قبطیوں) نے فرعون کو سجدہ کرنا شروع کردیا۔لیکن بنی اسرائیل نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔فرعون نے اُن کے سرداروں کو بلا کر بہت ڈرایا دھمکایامگر انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم تیری عبادت نہیں کر سکتے ،اور ہم صرف رب اﷲتعالیٰ کی عبادت کریں گے،اب تجھے جو کرنا ہے کر لے۔فرعون غصہ میں آگیا ،اور دیگوں میں زیتون کا تیل اور گندھک کھولا کر اُس میں بنی اسرائیل کو ڈالنا شروع کردیا۔بنی اسرائیل نے یہ سب برداشت کیا مگر اﷲ تعالیٰ کی عبادت سے منہ نہیں موڑا اور فرعون کو سجدہ نہیں کیا۔جب اچھے خاصے بنی اسرائیل کو فرعون نے زندہ جلا دیاتو اُس کے وزیر ہامان نے اُسے مشورہ دیا کہ اِن کو مہلت دے ،اور انہیں ذلیل کر کے رکھ۔تب اُس نے جلانے سے ہاتھ کھینچااور بنی اسرائیل کو غلام بنا کر اُن پر سختیاں شروع کردیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے فرعون نے بنی اسرائیل پر بہت ظلم کے پہاڑ توڑے تھے اور آج کل ہمارے ہندوستان کا فرعون بھی مسلمانوں کے ساتھ ویسا ہی کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ ہمارے زمانے کا فرعون ہماری ہمت اور حوصلے کو آزما رہا ہے۔ اِس لئے بہتر ہے کہ ہم مسلمان متحد ہوجائیں اور کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب کریں جس کی وجہ سے فرعون کو ناکامی ہو ورنہ دھیرے دھیرے ہم پر بھی ایسے حالات آجائیں گے جیسے بنی اسرائیل پر آئے تھے۔باقی اگلی قسط میں۔