شام کے وقت جہاں سورج شرق سے غرب کی مسافت طے کر کے غروب کے قریب سے قریب تر اور ہلکی، ہلکی زردی و سرخی کی جانب مائل ہورہا تھا۔ وہیں ساتھ ہی میں افق آسمان پر بھی اپنی زردی بکھیرتے جارہا تھا۔ اور اسکی روشنی مدھم پڑتی جارہی تھی۔
نگاہیں خیرہ تھیں قدرت کی اس کاریگری اور صناعت کاری کو دیکھ کر۔ بڑا ہی لطیف اور پر کشش منظر زیب نظر بنا ہوا تھا۔ اور اس پر نگاہوں کا ٹھہرنا بھی کمال کے سرور و سرمستی سے ہمکنار کررہا تھا۔ کیا ہی عظیم اور نادر و نایاب مخلوق ہے آگ کی طرح دہکتا ہوا یہ سیارۂ شمسی۔
ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب لوگ اسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ مزید اسکی زردی اور سرخی مائل شعاعوں کو دیکھ حیرت کی آہ بھرتے ہیں۔ جب سپیدۂ سحر نمودار ہوتی ہے، اور اس وقت جب سیارہ شمس غروب کے قریب ہوتا ہے۔ اس کا وقت بیس منٹ صبح دم اور شام کو بیس منٹ کا ایسا میسر آتا ہے۔ تخمینہ و اٹکل اور عادت سے اس مدت کی تعیین ہوتی ہے۔
ساتھ ہی ان بیس منٹوں کے علاوہ ایک دوسرا وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ سیارۂ شمسی اپنی عروج و ارتقاء کی منزلیں طے کرنے لگتا ہے۔ اس کی تاب و تبانی کی تاب لانا انسانی بصارت کے لیے دوبھر ہوجاتا ہے۔ خیر سورج سے ہٹ کر کلام کروں وہی شام کے بیس منٹ کے دائرے میں ابھی میں تھا۔
شام ہونے کو تھا، اور سپیدۂ سحر کا زوال قریب تھا۔ قریب تھا کہ شبِ دیجور کی ظلمت و تاریکی سورج کی روشنی کو اپنے ظلمت کدے میں دس، بارہ گھنٹوں کے لئے چھپا لے۔ اور رات اپنی چادرِ ظلمت سے اُفق عالم کو ڈھانپ لے۔ ساتھ ہی دن کو الوداع اور رات کو خوش آمدید کا مژدۂ جانفزا بھی سنایا جارہا تھا۔
موسم خوشگوار، ہر چہار جانب پھلی زرد اور سرخ روشنی کی مشترکہ سپیدی دل کش تھی۔ پرند و چرند اپنے اپنے ارزاق حاصل کر انتشار فی الارض کا فریضہ انجام سر کئے اپنے مسکن کی جانب سکونت پذیرائی کی خاطر عود کر رہے تھے۔ لوگوں کا ہجوم اپنا رزق لئے اپنے اپنے مساکن و مضاجع کی طرف روں دوں تھا۔
رات اور دن کی وجہ تخلیق ہی یہی ہے کہ رات میں سکونت حاصل کری جائے۔ اور دن میں رزق تلاش کیا جائے گویا اس امر کی تصریح رب قدیر خود "وجعلنا اللیل لباسا” وجعلنا النھار معاشا” قرآن میں کہہ کر فرمارہا ہے۔ اور ہم نے رات کو تمہارے لئے لباس بنایا۔ یعنی جیسے لباس ستر پوشی کا ساماں ہوتا ہے۔ یوں ہی رات تھکن اور رنج پوشی کے کام آتا ہے۔ اور دن تمہارے معاش کے لئے بنایا یعنی کہ اس میں طلب معاش کرو۔
خیر کلام کا رخ اپنے اصل مدعیٰ کی طرف موڑتا ہوں کہ دل کی دنیا بدلی، آسمان پر ابر سیاہ فام کا بسیرا ہوگیا۔ ٹھنڈی ہواؤں کا ایک جھونکا اپنی سرمستی میں بادلوں کا قافلہ ہنکاتے آیا۔ اور ناگاہ خرمن شوقِ وارفتہ پر ایک بجلی گوندی پڑی جس نے خرمنِ اشتیاق کو جلا کر خاکستر ومشتِ رماد بنا کر رکھ دیا۔ آپ سمجھ نہیں رہے ہوں گے کہ میں کہنا کیا چاہتا ہوں، گھبرائیں نہیں وضاحت بھی کئے دیتا ہوں۔
سوج کی متنوع کیفیات جو مذکور بالا ہیں، رات و دن کا تال میل، اور قدرت کی کاریگری کے نمونہائے بے مثال، بڑے بڑے پہاڑ اور ان پہاڑوں کے پہلوؤں میں بسے لق دق صحرا کی صناعت کاری کا طرفہ تماشا، ہواؤں کی رت، لوگوں کی آوت جاوت، دن و رات کا تغیر و تبدل، زمین و آسمان الغرض قدرت کا ایک ایک کرشمہ دیکھ کر دل فرتِ محبت میں ڈوبا جارہا تھا، اور دل کی دنیا زیر و زبر ہورہی تھی۔ دل کی دنیا بدلتے کب دیر لگتی ہے مشیت خداوندی کا تقاضہ ہی "ان اللہ یفعل مایشاء ویحکم مایرید” ہے۔
میں الٹی چال چل رہا تھا جہاں لوگ شمع کو شمع دان میں رکھ اور چرغ کی بتی بجھا کر رات کے دراز گیسو میں سمو جانا چاہتے ہیں۔ میں وہیں رات میں اپنے سفر کا آغاز کررہا تھا۔ رات ہوچکی تھی فکر و خیالات کا گھوڑا ایمان و ایقان کے پختگی کے میدان میں دوڑا رہا تھا۔ رات کا ایک حصہ گزر چکا تھا اس منظر کی منظر کشی کرتے کرتے۔
جوں جوں قدت کی کاریگری کا کرشمہ پیشِ خیال آتا ایمان و ایقان کی لو اور تیزی سے پھڑک اٹھتی۔ اور آیت کریمہ *”سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ” (حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۵۳) بھی پیشِ دید گردش کرنے لگتی۔ مزید آفاق عالم اور اپنی ذات میں جب غور و خوض کیا تو خود انسانی خلقت کا ایک رقصاں تماشا دیکھ کر خدا پر یقین کا سلسلہ مزید دراز ہوتا گیا۔
ایک فہرست رفتگاں ہے، کس کو بیان کروں اور کسے چھوڑ دوں۔ سب اپنی اپنی جگہ آفتاب و ماہتاب ہیں۔ خیر اتنا کہہ کر رخصت ہونا چاہتا ہوں کہ ایمان و ایقان کی ترقی کا زار آیاتِ قرآنی کے موافق فکرِ انسانی کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر قدرت کی کارکردگی اور صناعت کاری ہی پر نظر ڈالی جائے تو دوپہر کے دھوپ کی طرح قدرت خداوندی عیاں ہوجائے گی۔ ساتھ ایمان کو جلا بھی حاصل ہوگی اور سامان ترقی بھی ہوگا یہ امر ایمان و تصدیق کے لئے۔
ازقلم: محمد اختر رضا امجدی
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی