وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
آج ہمارے نبی ﷺ کی شان عظیم میں گندی نالی کا ہر باؤلا کتا بھونک دے رہا ہے ، گستاخیوں کا ایک سیلاب ہے ، حضور اکرم جان عالم ﷺ کے ساتھ ساتھ آپ کے عظیم الشان غلاموں کی شان میں بھی کئی بار گستاخیاں کی جا چکی ہیں ، اور کی جاتی رہتی ہیں ۔
مگر باوجود مسلمانوں نے صرف یہ سمجھ لیا ہے کہ سوشل میڈیا پر دو لفظ ہم نے لکھ دیا ، یا احتجاج کر لیا اور ایف آئی آر کروا دیا تو بس یہی کافی ہو گیا ، اور ہم سبکدوش و بری الذمہ ہو گئے ، جب کہ گستاخی کرنے والے کی سزا صرف قتل ہے ، جمہوری ملک بالخصوص غیروں کی حکومت میں اگر چہ یہ کام کسی مسلمان کے لیے درست نہیں ، لیکن سخت قانونی کارروائی ضرور مسلمانوں پر فرض اعظم ہے ۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ جب بھی گستاخی ہوئی ہے ، تو ہماری جماعت کے بڑے لوگوں نے آواز نہیں اٹھائی ہے ، کہنے کو تو پدرم سلطان بود پر فخر ہوتا ہے ، لیکن خود کے اندر اس پدر کی کوئی صفت نہیں ہوتی ، شاید کبھی اپنے مجمع میں شیر کی طرح دہاڑ دئے ہوں ، لیکن غیروں کے پاس جاکر بلی کی طرح آواز نکالنے کی بھی ہمت نہیں ہے ، کہنے کو تو دسیوں القاب نام کے ساتھ چسپاں کروا لیے جاتے ہیں ، لیکن جب بات آتی ہے کام کرنے کی تو خانقاہ کے نہاں خانہ میں چھپے رہتے ہیں ، اپنے گروہ اور جھنڈ میں گھن گرز آواز نکالنا اور دہاڑ دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے ، یہ ہر کوئی کر سکتا ہے ، ہمت و بہادری تو غیروں کے سامنے دہاڑنے میں ہے ۔
اب معاملہ دھرنا دینے اور کیس کرنے سے سنبھلنے والا نہیں ہے ، اپنے جھنڈ میں تقریر کر دینے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے ، بلکہ اب خود ان حضرات کو چاہیے کہ لوگوں کا ایک سیلاب لے کر ، حقیقی صدارت و قیادت کا حق ادا کریں اور مودی و اس جیسے بڑے بڑے نیتاؤں ، اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کو مجبور کریں اور سخت سے سخت سزا دلوائیں ، جب تک یہ کام نہ ہو یہ بڑے بڑے پیر ، سرمایہ دار اور مسلم نیتا لوگ سرکاری دفتروں کا کام رکوا دیں ۔ اس وقت یہی فرض ہے ، ایف آئی آر ، احتجاج اور اپنے مجمع میں بولنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ حضور اکرم جان عالم ﷺ کی گستاخی کا معاملہ امت کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے ، جو امت کی جان ہیں جب انہیں کو کچھ کہہ دیا جائے تو پھر ہماری جانوں کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ حضور ﷺ نے اپنے گستاخوں کا سر قلم کرنے کے لیے خود حکم دیا ہے ، کئی گستاخوں کو حضور ﷺ کے حکم سے آپ کے بہادر و جاں نثار صحابہ نے واصل جہنم کیا ۔ _______گستاخ عورت کا انجام :_______ ایک نابینا صحابی کے پاس ایک لونڈی تھی جس کے بطن سے ان کی اولاد بھی تھی ، وہ لونڈی نبی اکرمﷺ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، وہ نابینا صحابی اسے روکتے تھے لیکن وہ نہیں رکتی تھی، وہ اسے جھڑکتے تھے لیکن وہ کسی طرح باز نہیں آتی تھی ، حسب معمول ایک رات اس نے آپﷺ کی ہجو شروع کی، اور آپ کو گالیاں دینے لگی، تو نابینا صحابی نے ایک چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا کر اسے ہلاک کر دیا، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس جگہ کو جہاں وہ تھی خون سے لت پت کر دیا، جب صبح ہوئی تو آپﷺ سے اس حادثہ کا ذکر کیا گیا، آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا، اور فرمایا: جس نےیہ قتل کیا ہے میں اسے اللہ کا اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے تو وہ نابینا کھڑے ہو گیے اور لوگوں کی گردنیں پھاندتے اور ہانپتے کانپتے آ کر آپﷺ کے سامنے بیٹھ گیے ، اور عرض کرنے لگے : اللہ کے رسول میں اس کا مالک ہوں، وہ آپ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، میں اسے منع کرتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، میں اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی صورت سے باز نہیں آتی تھی، میرے اس سے موتیوں کے مانند دو بچے بھی ہیں، وہ مجھے بڑی محبوب بھی تھی ، لیکن کل رات حسب معمول وہ آپ کو گالیاں دینے لگی، اور ہجو کرنی شروع کی،تو میں نے ایک چھری اٹھائی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا دیا، وہ اس کے پیٹ میں گھس گئی یہاں تک کہ میں نے اسے مار ہی ڈالا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگو! سنو تم گواہ رہنا کہ اس عورت کا خون ضائع ہوگیا ۔
(سنن ابوداؤد : 4361)
_____گستاخ کعب بن اشرف کا قتل :_____ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہﷺ نے فرمایا : کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت ستا رہا ہے۔“ اس پر محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں؟ آپ نے فرمایا ”ہاں مجھ کو یہ پسند ہے۔“ انہوں نے عرض کیا، پھر آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس سے کچھ باتیں کہوں آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ اب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا، یہ شخص ( اشارہ آپﷺ کی طرف تھا ) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں تھکا مارا ہے۔ اس لیے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں۔ اس پر کعب نے کہا، ابھی آگے دیکھنا، اللہ کی قسم! بالکل اکتا جاؤ گے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا، چونکہ ہم نے بھی اب ان کی اتباع کر لی ہے۔ اس لیے جب تک یہ نہ کھل جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے، انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں۔ تم سے وسق یا دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں… کعب بن اشرف نے کہا، ہاں، میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے پوچھا، گروی میں تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا، اپنی عورتوں کو رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم عرب کے بہت خوبصورت مرد ہو۔ ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ اس نے کہا، پھر اپنے بچوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا، ہم بچوں کو کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ کل انہیں اسی پر گالیاں دی جائیں گی کہ ایک یا دو وسق غلے پر ان کو رہن رکھ دیا گیا تھا، یہ تو بڑی بے غیرتی ہو گی۔ البتہ ہم تمہارے پاس اپنے ہتھیار (اسلحہ) گروی رکھ سکتے ہیں۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور رات کے وقت اس کے یہاں آئے۔ ان کے ساتھ ابونائلہ بھی موجود تھے وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے۔ پھر اس کے قلعہ کے پاس جا کر انہوں نے آواز دی۔ وہ باہر آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس وقت ( اتنی رات گئے ) کہاں باہر جا رہے ہو؟ اس نے کہا، وہ تو محمد بن مسلمہ اور میرا بھائی ابونائلہ ہے۔ اس کی بیوی نے یہ بھی کہا کہ مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہو۔ کعب نے جواب دیا کہ میرے بھائی محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابونائلہ ہیں۔ مگر کسی شریف کو اگر رات میں بھی نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے۔ محمد بن مسلمہ اندر گئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور بھی تھے۔۔۔ اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے ( سر کے ) بال ہاتھ میں لے لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کا سر پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے تو پھر تم تیار ہو جانا اور اسے قتل کر ڈالنا۔۔۔ آخر کعب بن اشرف چادر لپیٹے ہوئے باہر آیا۔ اس کے جسم سے خوشبو پھوٹ رہی تھی۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا، آج سے پہلے اس سےزیادہ عمدہ خوشبو میں نے کبھی نہیں سونگھی ! کعب اس پر بولا، میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو ہر وقت عطر میں بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں۔تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا، کیا تمہارے سر کو سونگھنے کی مجھے اجازت ہے؟ اس نے کہا، سونگھ سکتے ہو۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کا سر سونگھا اور ان کے بعد ان کے ساتھیوں نے بھی سونگھا۔ پھر انہوں نے کہا، کیا دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے؟ اس نے اس مرتبہ بھی اجازت دے دی۔ پھر جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے پوری طرح اپنے قابو میں کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ۔ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔
(صحیح بخاری : 4037.)
_______ابو رافع یہودی کا قتل :________ رسول اللہﷺ نے ابورافع یہودی ( کے قتل ) کے لیے چند انصاری صحابہ کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنایا۔ یہ ابورافع نبی کریمﷺ کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں وہ رہا کرتا تھا۔ جب اس کے قلعہ کے قریب یہ پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ اور لوگ اپنے مویشی لے کر ( اپنے گھروں کو ) واپس ہو چکے تھے۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو میں ( اس قلعہ پر ) جا رہا ہوں اور دربان پر کوئی تدبیر کروں گا۔ تاکہ میں اندر جانے میں کامیاب ہوجاؤں۔ چنانچہ وہ ( قلعہ کے پاس ) آئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کر رہا ہو۔ قلعہ کے تمام آدمی اندر داخل ہو چکے تھے۔ دربان نے (اپنے لوگوں کو) آواز دی، اے اللہ کے بندے! اگر اندر آنا ہے تو جلد آ جا، میں اب دروازہ بند کر دوں گا۔ ( عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے کہا ) چنانچہ میں بھی اندر چلا گیا اور چھپ کر اس کی کارروائی دیکھنے لگا۔ جب سب لوگ اندر آ گئے تو اس نے دروازہ بند کیا اور کنجیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکا دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اب میں ان کنجیوں کی طرف بڑھا اور میں نے انہیں لے لیا، پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول لیا۔ ابورافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جا رہی تھیں اور وہ اپنے خاص بالاخانے میں تھا۔ جب داستان گو اس کے یہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو میں اس کمرے کی طرف چڑھنے لگا۔ میں جتنے دروازے اس تک پہنچنے کے لیے کھولتا تھا انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرے متعلق علم بھی ہو جائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں اسے قتل نہ کرلوں۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ ( سو رہا ) تھا مجھے کچھ اندازہ نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں ہے۔ اس لیے میں نے آواز دی، یا ابا رافع؟ وہ بولا کون ہے؟ اب میں نے آواز کی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہوئی کہ میں اس کا کام تمام نہیں کر سکا۔ وہ چیخا تو میں کمرے سے باہر نکل آیا اور تھوڑی دیر تک باہر ہی ٹھہرا رہا۔ پھر دوبارہ اندر گیا اور میں نے آواز بدل کر پوچھا، ابورافع! یہ آواز کیسی تھی؟ وہ بولا تیری ماں غارت ہو۔ ابھی ابھی مجھ پر کسی نے تلوار سے حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ( آواز کی طرف بڑھ کر ) میں نے تلوار کی ایک ضرب اور لگائی۔ انہوں نے بیان کیا کہ اگرچہ میں اسے زخمی تو بہت کر چکا تھا لیکن وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبائی جو اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ مجھے اب یقین ہو گیا کہ میں اسے قتل کر چکا ہوں۔ چنانچہ میں نے دروازے ایک ایک کر کے کھولنے شروع کئے۔ آخر میں ایک زینے پر پہنچا۔ میں یہ سمجھا کہ زمین تک میں پہنچ چکا ہوں ( لیکن ابھی میں پہنچا نہ تھا ) اس لیے میں نے اس پر پاؤں رکھ دیا اور نیچے گر پڑا۔ چاندنی رات تھی۔ اس طرح گرنے سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اسے اپنے عمامہ سے باندھ لیا اور آ کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک یہ نہ معلوم کر لوں کہ آیا میں اسے قتل کر چکا ہوں یا نہیں؟ جب مرغ نے آواز دی تو اسی وقت قلعہ کی فصیل پر ایک پکارنے والے نے کھڑے ہو کر پکارا کہ میں اہل حجاز کے تاجر ابورافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ چلنے کی جلدی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ابورافع کو قتل کرا دیا۔ چنانچہ میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی اطلاع دی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پاؤں پھیلایا تو آپ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا اور پاؤں اتنا اچھا ہو گیا جیسے کبھی اس میں مجھ کو کوئی تکلیف ہوئی ہی نہ تھی۔
(صحیح بخاری : 4039. 4040 )
حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کا حکم جاری ہو چکا تھا ، لیکن پھر انہوں نے حضور ﷺ سے معافی مانگی اور ایمان لے آئے ، تو حضور ﷺ نے معاف فرما دیا ۔ اور بھی کئی گستاخوں کا ایسے ہی عبرتناک قتل کیا گیا ۔
لہذا ہم اہل سنت و جماعت کے سرکردہ و سرخیل لوگ جنکی زبان گونگی ہو چکی ہے ، انہیں کی ذمہ داری ہے کہ ان سنگین حالات میں حق قیادت ادا کریں ، غیروں کے بڑے عہدیداروں سے ملاقات کریں اور جب تک کارروائی مکمل نہ ہو لوگوں کو ساتھ لے کر سب کچھ بند کرا دیں ؛ لیکن ان کے اندر دنیا کی محبت آ چکی ہے ، مال کی چاہت نے اندھا کر دیا ہے ، حضور ﷺ اس امت پر اسی چیز کا خوف کھاتے تھے اور آپ نے ارشاد فرمایا «انی اخاف علیکم الدنیا» مجھے تم لوگوں پر دنیا کا خوف ہے ، اسی دنیا کی محبت نے بزدل بنا دیا ہے ، گونگا کر دیا ہے ، مردانگی ختم کر دی ہے ، ہماری اسی بزدلی کے سبب خبیث جری ہو گئے ہیں ، اور جو دل میں آتا ہے بکتے رہتے ہیں ، ابھی بھی وقت ہے کہ اپنے فرائض کو انجام دیں ورنہ بروز قیامت حساب دینا بڑا مشکل ہوگا۔
اللہ تعالیٰ گستاخوں کو عبرتناک موت دے۔آمین
ازقلم: محمد شہاب الدین علیمی
٥ اکتوبر ٢٠٢٤ء