شخصیت پرستی ہی فرقہ پرستی کی بنیاد ہے۔ اور فرقہ پرستی کی بنا پر پیدا ہونے والے اختلافات کوآپ وہ تفرقہ بازی یا کہہ سکتے ہیں جس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مقدس میں اس کے نقصانات کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔
وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ۔ سورہ الانفال۔ آیت نمبر٤٦۔
ترجمہ: اے مسلمانو آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرو۔ ورنہ پھر تمہارے اندر بزدلی پیدا ہوگی اور تمہارا رعب ختم ہو جائے گا۔
اج ہم فرقہ پرستی کے مرض میں مبتلاہو کر اتنے بٹ چکے ہیں کہ ہماری حیثیت پوری دنیا میں مکھی کے پر کی طرح ہلکی ہو گئی ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ ہم شخصیت پرستی میں اتنا غلو کر گئے ہیں کہ مشاجرات صحابہ میں سے کسی صحابی کی خطائے اجتہادی کو تسلیم توکر لیتے ہیں۔ لیکن اپنے مرشد،استاد اور اپنے مسلک کے اکابرین کو اجتہادی خطا کے بھی مرتکب نہیں سمجھتے۔ اور ان سے عقیدت و محبت کا معیار یہ ہے کہ اگر ان کی شان میں کسی نے اشارہ و کنایہ میں بھی کسر شان کے جملے استعمال کیے ہیں تو ہم ایسوں کو نہ صرف یہ کہ اسلام اور سنیت سے باہر کر دیتے ہیں بلکہ ان کے سات پشتوں کے اسلام اور خدمت اسلام کو خارج کر دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد عیب جوئی، غیبت، اور بہتان تراشی جیسے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ جس سے اللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روکا تھا۔
اور اس درمیان اگر کسی نے آقائےکریم، سرور کونین، افضل الانبیاء و المرسلین، رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کرتا ہے تو ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ہم اپنا رد عمل پیش کرتے ہیں۔
اپنے ممدوح کے مقابلے میں آقائے کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت میں اس کمی کے باوجود، کیا ہم سچے عاشق رسول کہلانے کے حقدار ہیں؟
آج پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ ہماری بہو، بیٹیوں اور ماں بہنوں کی عزت لوٹی جا رہی ہے، ہمارا قتل عام ہو رہا ہے، ہماری مسجدوں، گھروں، مکانوں اور دکانوں پر بلڈوزر چلاۓ جا رہے ہیں۔ اور ہم اف بھی کہنے کے لائق نہیں ہیں۔ جبکہ ہم تو وہ تھے، جس سے لرزتا تھا زمانہ۔
ہمیں تو اللہ تعالی نے ایمان کے ساتھ حکومت اور بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے۔
ہم سے کیسی غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں کہ ہمارا حال یہ ہو گیا ہے؟
اسرائیل کے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم (جس کی حمایت امریکہ و مغربی ممالک کر رہے ہیں) کے باوجود اگر مسلم ممالک اور خاص کر عرب ممالک متحد نہ ہوئے تو یقینی طور پر اسرائیل ایک عظیم اسرائیلی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگا۔ اور یہ سارے شیعہ، سنی عیش پرست حکمران نیست و نابود ہو جائیں گے۔ کہ ان کی داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
ایساہی اگر ہندوستانی مسلمان "یتی نرسمہا نند” جیسے خبیث و پلید کہ اس گستاخی کے بعد بھی جو اس نے اشرف الخلق آقائے کائنات سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کی ہے کے باوجود متحد نہیں ہوئے تو ہماری موجودہ ذہنی غلامی اور ذلت و رسوائی، مزید سو سال تک بڑھ جائے گی۔ اور ہمارا شمار جاہل، اجڈ اور پنچر ساٹنے والی قوم کی جو ہے۔ وہ بنی رہے گی۔ العیاذ باللہ۔
ایمان و اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ "نیتن یاہو” اور "یتی نرسمہا نند” کی انسانیت اور تہذیب و تمدن کو شرمندہ کرنے والی حرکات خبیثہ سے متاثر ہو کر ہم متحد ہو جائیں۔ اور اگر ان شاءاللہ ایسا ہوا تو ہمارا یہ عظیم کارنامہ ہوگا۔ اور یہ مصائب ہمارے لیے اسانیوں کے مترادف ہوں گے ۔ اےکاش کہ ایسا ہوتا۔
تحریر: محمد شہادت حسین فیضی
9431538584