اہلِ سنّت کی مرکزی درسگاہ ”الجامعتہ الاشرفیہ“ مبارک پور کے دو طالب علم کا (آج مورخہ 12 نومبر ) خارجہ ہوا ہے۔
وجہ خارجہ
ان دونوں نے شانِ اعلیٰ حضرت میں بےجا اعتراضات اور گستاخیاں کیے۔ ذیل میں دونوں کے اعتراضات ملاحظہ فرمائیں!!
١: اعلی حضرت سے تسامح و تساہل ہوا ہے۔
٢: اعلی حضرت کے مقلدوں کی حالت تو دیکھ۔
۳: میں اعلی حضرت کے ہر فتاویٰ نہیں مانتا۔
٤: اعلی حضرت نے فتاویٰ رضویہ میں اپنی ذاتی رائے بھی کی ہے (ہشام الدین)
١: اعلی حضرت نے” تفریح الخاطر“ کتاب کے مصنف کی تعریف کی ہے اور اس سے” فتاویٰ رضویہ “ میں استناد بھی کیا۔ لیکن ” تفریح الخاطر “ کتاب میں بہت سی کفر و شرک پر مشتمل واقعات موجود ہیں، جن کی بنا پر اعلیٰ حضرت کا اس کتاب سے استناد کرنا اور اس کا حوالہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ” تفریح الخاطر“ میں کوئی قباحت نہیں اور وہ مستند کتاب ہے۔ اعلی حضرت کا اس کتاب سے حوالہ دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتی کہ اس میں کوئی کفریہ یا شرکیہ کلمات موجود نہیں ہیں، بلکہ اس میں کفر وشرک کے کلمات بھر پڑی ہیں۔
٢: بزرگانِ دین کا کوئی بھی واقعہ و روایت بغیر سند کے قابل قبول نہیں۔
٣: اعلی حضرت نے ” منیر العین“ میں فضائل اعمال وغیرہ میں بغیر سند کے روایات کو مقبول ہونے کا اعتراف کیا ہے یہ ان کی اپنی رائے ہے، جبکہ تمام محدثین، مفسرین، فقہاء اور مجتہدین اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں کہ بغیر سند کے کوئی بھی روایت مقبول نہیں۔ لہذا میں کہتا ہوں کہ اعلی حضرت کو یہاں پر تسامح ہوا ہے جسے میں تسلیم نہیں کرتا۔( عاشق الرحمٰن )
اساتذہ اشرفیہ کے ذریعے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ دونوں اس سے قبل بھی اس طرح کے بےجا اختلافات و اعتراضات کیا ہے جن کے جوابات انہیں دیے گیے ہیں۔ لیکن یہ دونوں اپنی کرتوتوں سے باز نہیں آرہے ہیں بایں سبب خارجہ کی نوبت آئی اور انہیں خارجہ کر دیا گیا ہے۔
آج کے ٹیکنالوجی دور میں اساتذہ کو اپنے طلبہ اور سینئیر طلبہ کو جونیئر طلبہ سے روابط و تعلقات قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ چونکہ شرپسند مزہب پرست اپنے غلط عقائد کو فروغ دینے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ اہل سنت کے جو طلبہ سوشل میڈیا کے ذریعے جانے پہچانے جاتے ہیں وہ لوگ ان طلبہ کا قرب اختیار کرتے ہیں اور انہیں اپنے باطل عقائد کے ذریعے بہکانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی تحائف و لالچ سے بھی اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو طالب علم ان خبیثوں کے بہکاوے میں آجاتا ہے، پھر وہ آہستہ آہستہ ہمارے بزرگانِ دین پر اعتراضات کرتا نظر آتا ہے۔ نتائج میں وہ راہ راست کی بجائے گمراہی کی راہ کا شکار ہوجاتا ہے۔ کمال آسامی، ذیشان و ناصر کے تعلقات بھی نامناسب و باطل لوگوں سے رہنے کی وجہ سے آج ان تینوں کی حالت دیکھی جاسکتی ہے۔ اس لیے ہر ایک طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنی جماعت، اپنے اساتذہ، سینیر طلبہ جونیئر سے اور جونیئر طلبہ سینیر سے جوڑے رہیں اور خود کو باطلوں سے محفوظ کریں!
اس اختلاف کی دنیا میں ہر ایک کی اپنی اپنی آراء ہوسکتی ہیں۔ مگر یاد رہے کسی بات کو لے کر قطعاً بزرگانِ دین کی شان میں گستاخی ہرگز ہرگز نہ کریں! بلکہ اپنے اساتذہ کرام کی بارگاہ میں رجوع کریں اور افہام وتفہیم کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاش کریں وگرنہ کمال آسامی جیسا حشر ہوگا۔
ازقلم: مزمل حسین علیمی آسامی