لمحہ فکریہ!
تعلیم وتربیت کی عمر میں دونوں طالب علم کا از خود اعلیٰ حضرت یا پھر دیگر اکابراہلسنت کے علم وفضل پر قیل وقال کرنا ان کی تحقیقات وتشریحات سے عدول کرنا اس میں تسامح بتانا غلطیاں نکالنا فہم وادراک سے ماورا ہے،
فروعی مسائل میں حدود و آداب میں رہ کر علمی اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن کب جب آپ اس قابل بن جائیں،لیکن افسوس ان پر انگشت زنی جن کی کتابوں کی تفہیم بہت سے بڑوں کے لیے مشکل ہے،یک من علم را دہ من عقل باید
میرے عزیز یہ زمانہ تو شامل نصاب درسی کتب میں کامل یکسوئی کے ساتھ انہماک کا ہوتا ہے اس عمر میں ہر طالب علم کو اعلیٰ اور امتیازی نمبرات سے کامیاب ہونے کی فکر ہوتی ہے،برعکس اس کے آفتاب سے روشن مسلّم شخصیات پر منفی تبصرہ پروپیگنڈہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ کسی منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہے،
مجھے تو لگتا ہے پس پردہ ان طلبا کے اندر تخریبی رجحان اسلاف بیزاری کا جذبہ فروغ دینے میں کوئی طاقت لازماً کام کررہی ہے ان کا ریموٹ کنٹرول کہیں اور ہے،
خیر مجھے امید ہی نہیں یقین کامل ہے کہ ہمارے اساتذہ بات چیت سے ان کے شکوک و شبہات کے ازالہ اور ان کی تفہیم کی خاطر ممکنہ تدابیر اپنائے ہونگے بہر صورت نہ سمجھنے پر خارجہ تو بنتا ہی تھا،
تاہم ان دونوں کی رخصتی کے موقع پرجلوس اور نعروں کی گونج میں دیگر طلبا نے جو کچھ کیا یہ بھی مناسب نہیں،
اللّٰہ کریم دونوں طالب علم کو ہدایت دے فتنہ سامانی سے بچائے آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم
ازقلم: صابر رضا محب القادری نعیمی
ادارۃ القرآن والسنۃ سورجاپور