تعلیم عقائد و نظریات

کیا فائدہ ایسی تعلیم کا جو کافر بنا دے؟

    آج کل ایک ٹرینڈ چلا ہوا ہے کہ ہر کوئی مسلم اسکول کھولنے کی اپیل کر رہا ہے، وہیں کثیر تعداد میں لوگ مدرسہ ہی کو اسکول بنانے یا اسکول ماڈل بنانے کے تگ و دو میں کوشاں ہیں، یقینا پہلے طبقہ سے ہمیں اتفاق بھی ہے کہ یہ تعلیم و ترقی کا اہم ترین زینہ ثابت ہو سکتا ہے، یقینا مسلمان اہل ثروت کو اس جانب خصوصی توجہ دینی بھی چاہیے۔

مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے اکثر مسلم اسکول کے ٹرسٹی یا مالکان ضروریات دین سے جاہل ہوتے ہیں نام کے مسلم اسکول چلاتے ہیں اور حرام کاری اور بےحیائی کو عروج دیتے ہیں الا ماشاء اللّٰہ۔

    ہم اپنے علاقے کی بات کریں تو ہمارے ضلع گڑھوا جھارکھنڈ میں کئی ایسے اسکول ہیں جن کے ذمہ داران اور مالکان مسلم ہیں مگر اس کے باوجود وہاں پر کفریہ عقائد پر مشتمل پراتھنا اور دیگر ایکٹویٹی رائج ہیں، لباس بچوں کے لیے ہاف پینٹ شرٹ اور بچیوں کے لیے اسکرٹ۔ اکثر اسکولوں میں مسلم تیوہار میں تو مکمل چھٹی رہتی ہے مگر ہندو تیوہار بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے مثلا دیوالی ہولی رنگولی وغیرہ۔ فنکشن یوم آزادی کا ہو یوم جمہوریہ کا یا کسی اسپورٹس وغیرہ کا ہو بغیر ڈانس کے فنکشن کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔

حالانکہ ہم اپنے بچوں بچیوں کو صرف پڑھنے بھیجتے ہیں نہ کہ ناچ گانے اور حرام و کفر میں مبتلا ہونے کے لیے۔

ابھی ایک ویڈیو ماہ پور، محمد آباد گوہنہ مئو کی نظر سے گزری جس میں ایک نہیں کئی مسلم بچیوں (نام:آیت،شبنم، زہران، عفۃ، ثانیہ، عرشیہ وغیرہ) سے اداکاری کے نام پر کفر شرک کے دلدل میں جھونکا جا رہا ہے جس میں درگا، سیتا اور بھی کئی ہندو دیوی دیوتاؤں کی اداکاری کرائی جا رہی ہے، اور اس کو قومی اتحاد کا نام دیا جا رہا ہے۔

  ہمارے گڑھوا کے ایک اسکول کی بات ہے جس کے مالک مسلم ہیں اس کے ٹیچر بھی آدھے مسلم ہیں، طلباء و طالبات میں نوے فیصد مسلم ہیں۔ وہاں ابھی دیوالی کے موقع پر ایک رنگولی مسابقتی تقریب رکھی گئی جس میں تقریبا تمام طلباء نے شرکت کی، یہ بات ہمیں اس وجہ سے معلوم ہوئی کیونکہ اس کے مالک نے اپنے فیس بک پر فخریہ انداز میں جاری رنگولی کے تصاویر شیئر کی جس میں اوم اور بھی کئی طرح کے ہندوانہ الفاظ اور کئی ڈیزائن کے رنگولی بنائی گئی تھی۔

ابھی تک جو باتیں ہوئیں ماہ پور کو چھوڑ کر سارے مسلم مالکان کے متعلق تھیں۔

   باقی غیر مسلم اسکول یا سرکاری اسکول کی بات کی جائے تو سو فیصد مذکورہ جرم میں مجرم ہیں اور ٪٩٩.٩٩ لوگ جرم بھی نہیں سمجھتے آپ ہر پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں کا جائزہ لیجیے اور پھر اپنے بچوں کا جائزہ لیجیے کہ کفریہ اشعار (جنہیں "پراتھنا” کہتے ہیں) پڑھتے ہیں کہ نہیں! یقینا پڑھتے ہیں بلکہ اکثر کو زبانی یاد بھی ہوتے ہیں۔ 

ہم اپنے بچپن کا واقعہ بتاتے ہیں تقریباً دس سال کے ہوں گے ہر دن اسکول میں پراتھنا کے لیے لائن لگایا جاتا تھا جہاں تمام بچوں کو ہاتھ جوڑ کر کھڑا کیا جاتا پھر کفریہ اور شرکیہ اشعار اور الفاظ شروع ہو جاتے میرا معمول تھا کہ میں کبھی ہاتھ نہیں جوڑتا اور نہ ہی کسی بھی لفظ کو پڑھتا یا گاتا تھا کوئی ہندو ٹیچر زبردستی بھی نہیں کرتے مگر ایک دن اس کی سزا میں ایک زوردار تھپڑ کھانے کو ملا وہ بھی ایک مسلم ٹیچر کے ہاتھوں ہے نا افسوس کی بات کہ باقی ٹیچر اس کا خیال کرتے کہ مسلم بچے ہاتھ نہ بھی جوڑے یا کفریہ اشعار نہ بھی پڑھے تو چھوٹ ہے مگر ایک نام نہاد اور دین سے جاہل مسلم ٹیچر رعب جمانے کے لیے کفریہ کلمات بُلوانے پہ تلا تھا۔ وہ تو غنیمت تھا کہ بچپن سے مدرسہ کا طالب علم تھا اور دس سال کی عمر میں بھی کچھ ضروریات دین کے مسائل سے واقف تھا ورنہ کتنے ہی بچے جانے انجانے کفر و شرک کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں اور اس کے ذمے دار والدین اور مسلم ٹیچرز ہیں کیونکہ وہ اگر مسائل سے واقفیت رکھتے ہوں تو معاملات کو کفر و شرک تک جانے سے روک سکتے ہیں۔

ایسے ہزاروں واقعات معاشرے کے اسکول میں روزانہ پیش آتے ہیں مگر چونکہ اکثر والدین ضروریات دین سے جاہل یا غافل ہوتے ہیں اور رزق کا ذریعہ شاید عصری تعلیم ہی کو سمجھتے ہیں، اور کفار ہی کے ڈسپلن کے مطابق تعلیم کو پسند کرتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اس متعلق بیدار نہیں ہوتے، مگر یا رہے جو تعلیم اور روزگار کافر بنا دے اس سے لاکھوں اچھا جاہل اور بے روزگار رہنا ہے۔

   کچھ اہم ترین نکات ہیں جن کے لحاظ کیے بغیر بچوں کا مستقبل بربادیوں کی آگ میں جھونکنا ہوگا۔

• مسلم اسکول میں کچھ دینیات کے مضامین بھی ہونا چاہیے اگرچہ عصری علوم کے لیے ہی اسکول ہوتے ہیں۔

• پورا نقاب نہ صحیح مگر بچیوں کے لیے اسکارف اور ڈریس ایسے ہوں کہ ستر عورت ڈھک جاتے ہوں۔ نہ کہ بچوں کو ہاف پینٹ اور بچیوں کے لیے اسکرٹ کیونکہ ان کپڑوں سے بے حیائی واضح ہے۔

• اسکول کے مالکان کی ذمہ داری ہے کہ اسکول کے کسی بھی فنکشن میں کفریہ اشعار یا حرام سرگرمی نہ ہونے پائے جیسے ڈانس، گانے باجے، فلمی اداکاری کفریہ پراتھنا وغیرہ اگرچہ یوم آزادی یا یوم جمہوریہ ہی کے موقع پر۔

• کوشش یہ ہو کہ اسکول میں کوئی بھی مذہبی تیوہار یا فنکشن نہ منایا جائے مثلاً ہولی، دیوالی، رنگولی، یہ اسکول کے مقصد کے خلاف ہے ، اسکول میں صرف پڑھائی ہونی چاہیے۔

• مسلم اسکول کا مطلب صرف اسکول کا مالک کا مسلم ہونا نہیں بلکہ اس اسکول کا ماحول بھی اسلامی ہونا چاہیے۔

• والدین جو بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو دینی تعلیم ضرور دلوائیں کم از کم ضروریات دین کی تعلیم۔

• خود بھی ضروریات دین کے مسائل سیکھیں بچوں کا جائزہ بھی لیں۔

• جن اسکولوں میں بچوں کو بھیجتے ہیں وہاں کا بھی جائزہ لیا کریں کہ تعلیم کے نام پر تبدیلی مذہب کا کھیل تو نہیں کھیلا جا رہا اور بچے اپنا ایمان و عمل برباد تو نہیں کر رہے ہیں۔

• اسکول بھیج کر لاپرواہ نہ ہو جائیں بلکہ اپنے بچے بچیوں پر کڑی نظر رکھیں کہ کہیں کفر و شرک اور حرام رشتے سے تو منسلک نہیں ہو رہے ہیں۔

• بچے بچیاں چاہے اسکول پڑھیں یا مدرسہ انہیں موبائل فون سے دور رکھیں کیونکہ اکثر فتنوں کی جڑ موبائل ہی ہیں۔ اگر دینا ضروری ہی ہو تو موبائل پر بھی اور موبائل کے ذریعے بچوں بچیوں کی حرکات و سکنات (ایکٹیویٹیز) پر کڑی نظر رکھیں۔

   اس طرح کی کچھ باتیں قابل لحاظ ہیں جن کو مد نظر رکھنا قبل فتنہ اس پر سد باب کے لیے قدم بڑھا پائیں گے۔

تحریر: محمد اورنگزیب عالم رضوی مصباحی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے