تحریر: ڈاکٹر فیض احمد چشتی
محترم قارئینِ کرام! اٹھارہ (18) ذوالحج کو شیعہ لوگ عید غدیر مناتے ہیں کہتے ہیں کہ اس روز حجۃ الوداع سے واپسی پر “غدیر خم” مقام پے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ” میں جس کا مولا علی اس کا مولی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس فرمان سے شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس فرمان کے ذریعے اپنا خلیفہ بلافصل بنایا ۔ اٹھارہ /18 ذی الحج جو کہ خلیفہ راشد دُہرے دامادِ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت ہے عین اُس دن رافضی شیعہ اور اب اُن کے نقشِ قدم پر چلنے والے سنیوں کے لبادے میں چھپے نیم رافضی جشنِ غدیر منا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟
عجیب بات ہے کہ حجۃ الوداع جو اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی کو خلیفہ (Khalifa) نہ بنایا اور واپسی پر تھوڑی تعداد کے سامنے غدیرخم پر خلیفہ کا اعلان کر دیا ؟
اگر خلافت(khilafat) کا اعلان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کرنا ہوتا تو اس کا صحیح و بہترین موقعہ حجۃ الوداع تھا ۔ غدیرخم مقام پے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک تنازع کا حل فرمایا اور فرمایا کہ علی سے ناگواری مت رکھو ، اس سے محبت کرو ، جس کو میں محبوب ہوں وہ علی سے محبت رکھے ۔
دراصل ہوا یہ تھا کہ مال غنیمت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تقسیم کیا تھا ، تقسیم پر کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ناگوار گذرا انہوں نے غدیرخم مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا اے بریدہ کیا تم علی سے (اس تقسیم کی وجہ سے) ناگواری محسوس کرتے ہو…؟ حضرت بریدہ نے فرمایا جی ہاں… نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا علی سے ناگواری مت رکھ ، جتنا حصہ علی نے لیا ہے حق (hakkı) تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے ۔ بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئ ۔ اس تقسیم وغیرہ کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام (companions) رضی اللہ عنہم وغیرہ کو بھی ناگواری گذری ہو تو ان کی بھی ناگواری ختم ہو. اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اعلان فرمایا : فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے
عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ ﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے ۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، چشتی، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451 ،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ. أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106) ۔ (مولا کا صحیح معنیٰ و مفہوم اس پر ہم الگ سے مضمون لکھ چکے)
شیعہ کتب سے
و خرج بريدة الأسلمي فبعثه علي عليه السلام في بعض السبي، فشكاه بريدة إلى رسول الله صلى الله عليه وآله فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فعلي مولاه ۔ یعنی بریدہ اسلمی نے رسول کریم سے حضرت علی کی مال غنیمت کی تقسم کی شکایت تو رسول کریم نے فرمایا میں جسکا مولا و محبوب ہوں علی بھی اس کے مولا و محبوب ہیں) لہٰذا ناگواری نہ رکھو، ختم کرو) ۔ (شیعہ کتاب بحار الانوار37/190)
فأصبنا سبيا قال : فكتب إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أبعث لنا من يخمسه، قال: فبعث إلينا عليا رضي الله عنه وفي السبي وصيفه هي من أفضل السبي قال: وقسم فخرج ورأسه يقطر، فقلنا: يا أبا الحسن ما هذا ؟ قال: ألم تروا إلى الوصيفة التي كانت في السبي فإني قسمت وخمست فصارت في الخمس، ثم صارت في أهل بيت النبي صلى الله عليه وآله، ثم صارت في آل علي ووقعت بها، قال: فكتب الرجل إلى نبي الله صلى الله عليه وآله، فقلت: ابعثني مصدقا، قال: فجعلت أقرأ الكتاب وأقول صدق، قال: فأمسك يدي والكتاب، قال: أتبغض عليا؟ قال: قلت: نعم قال: فلا تبغضه وان كنت تحبه فازدد له حبا، فوالذي نفس محمد بيده لنصيب علي في الخمس أفضل من وصيفة، قال: فما كان من الناس أحد بعد قول رسول الله صلى الله عليه وآله أحب إلي من علي ۔ بریدہ اسلمی کہتےہیں ہمیں مال غنیمت حاصل ہوا…رسول کریم کی طرف خط لکھا کہ تقسیم کے لیے کسی کو بھیجیں،رسول کریم نے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا حضرت علی نے تقسیم کیا اور اپنا حصہ بھی نکالا، ابو بریدہ تقسیم کی شکایت لے کر (غدیر خم مقام پے) رسول کریم کو پہنچے اور شکایت و ناگواری کا اظہار کیا رسول کریم نے فرمایا علی نے جتنا لیا اس سے بڑھ کرحصہ ہے اگر علی سے ناگواری ہے تو ختم کردو اگر محبت ہے تو زیادہ محبت کرو ۔ (شیعہ کتاب کشف الغمہ لاربیلی1/293)
یہ تھا اصل پس منظر کہ تنازع پے ناگواری جگھڑا ختم کرایا گیا باقی نہ تو کوئی بیعت لی گئ اور نہ بیعت و خلافت کا اعلان کیا گیا ۔ یہ تھا پس منظر جسکو جھوٹے مکار شیعوں نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔
عید غدیر چونکہ شیعہ لوگ غلط نظریہ خلیفہ بلافصل کے تناظر میں مناتے ہیں __ اس لیے یہ کوئی عید نہیں ، اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ یہ جرم و گناہ ہے ۔ کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بلافصل نہیں بلکہ چوتھے خلیفہ ہیں ۔
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بلغني أن أناسا يفضلوني على أبي بكر وعمر، لا يفضلني أحد على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ ابوبکر اور عمر پر مجھے فضیلت دیتے ہیں، مجھے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر کوئی فضیلت نہ دے ورنہ اسے وہ سزا دونگا جو ایک مفتری (جھوٹ.و.بہتان والے)کی سزا ہوتی ہے ۔ (یعنی 80 کوڑے مارونگا) (فضائل الصحابہ روایت نمبر387)
یوم غدیر کے متعلق بہت کچھ شیعہ کتب میں ہے اس کا اکثر جھوٹ ہے ، شیعوں نے اپنی طرف سے لکھا اور نام اہلبیت رضی اللہ عنہم یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ڈال دیا ہے ۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : الناس ﺃﻭﻟﻌﻮﺍ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﻋﻠﻴﻨﺎ، ﻭﻻ ﺗﻘﺒﻠﻮﺍ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﻣﺎ ﺧﺎﻟﻒ ﻗﻮﻝ ﺭﺑﻨﺎ ﻭﺳﻨﺔ ﻧﺒﻴﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی اللہعنہ فرماتے ہیں کہ لوگ جو (بظاہر) ہم اہلبیت کے محب کہلاتے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے باتیں ، حدیثیں گھڑ لی ہیں اور ہم اہلبیت کی طرف منسوب کر دی ہیں جوکہ جھوٹ ہیں ، تو ہم اہل بیت کی طرف نسبت کرکے جو کچھ کہا جائے تو اسے دیکھو کہ اگر وہ قرآن(küran) اور ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کی سنت (sünnet) کے خلاف ہو تو اسے ہرگز قبول (kabul) نہ کرو ۔ (شیعہ کتاب رجال کشی ﺹ135, 195)
وہ جو کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے فرقوں میں سے سب سے زیادہ جھوٹے شیعہ ہیں ۔ بالکل سچ کہتے ہیں ، جس کی تائید امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے ۔
امام جعفر صادق کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ اہلبیت (Ahlebait) بالخصوص حضرت علی ، بی بی فاطمہ، امام جعفر صادق ، حسن ، حسین رضی اللہ عنہم کی باتیں اگر قرآن و سنت کے متصادم (contradict) ہوں تو سمجھ لو کہ یہ ان کا قول ہی نہیں بلکہ کسی نے اپنی طرف سے جھوٹ بول کر ان کی طرف منسوب(attribute) کر دیا ہے ۔
لہٰذا کسی بھی عالم مفتی صوفی پیر فقیر فرقہ کسی کی بھی بات قرآن و سنت کے خلاف (against) ہو تو ہرگز معتبر نہیں ۔
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی بات سے ثابت ہوتا ہے فقہ جعفریہ ، فقہ شیعہ ، عقائد شیعہ ، مذہب شیعہ جھوٹ و مکاری کا پلندہ ہے ۔ کیونکہ شیعوں کی کتابیں قرآن و سنت کے خلاف سے بھری پڑی ہیں ۔ ہاں شیعوں کی وہ بات جو قرآن و سنت کے مخالف نہ ہو وہ قابل قبول و دلیل بن سکتی ہے ۔
اکابرینِ اہلسنت علیہم الرّحمہ کا مٶقف
امام بزدوی علیہ الرحمہ المتوفی 493ء عقیدہ اہل سنت پر مشتمل اپنی مشہور کتاب "اصول الدین ” میں من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے تحت لکھتے ہیں : رہی بات حدیث ولایت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تو اس سے بھی استدلال کرنا درست نہیں ، اس لئے اس میں لفظ مولیٰ کو ذکر کیا گیا ہے اور عربی کلام میں ایسا ہوتا ہے کہ لفظ مولی کو ذکر کرکے اس سے مدد گار مراد لیا جاتا ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔اس حدیث میں لفظ مولیٰ سے آقا اور غلام آزاد کرنے والا تو مراد نہیں لیا جا سکتا ، ہاں البتہ مددگار اور مُحبّ مراد لیا جاسکتا ہے ، اور محب و محبوب کے الفاظ سے استحقاق خلافت کا ثبوت نہیں فراہم ہوتا ، اسی وجہ سے ہم بھی یہی کہتے ہیں: اس حدیث سے جناب علی المرتضی کی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت (khilafat) کا استحقاق ثابت نہیں ہوتا ۔ (اصول الدین مترجم صفحہ 512 پروگریسو بکس لاہور)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے بھی اپنی رفض توڑ کتاب ” تحفہ اثناء عشریہ ” میں اس روایت کا مطلب حضرت علی کی دوستی(dostluk) کو واجب ٹھہرانا اور دشمنی (düşmanı) سے ڈرانا لکھا ہے ۔ (تحفہ اثناء عشریہ مترجم صفحہ نمبر 418)
علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : حدیث مذکورہ میں مولا سے مراد محبوب ہے _ حدیث کے آخری دعائیہ الفاظ اس پر قرینہ ہیں ، حدیث میں کوئی لفظ ایسا موجود نہیں ، جو اس بات کا قرینہ بن سکے کہ مولا سے مراد امام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا: کہ "میں جس کا مولا ہوں” اس سے بعد والی بات کو سامعین کے ذہن میں پختہ کرنے کی غرض سے ہے ، اگر آپ اس موقع پر امامت علی ہی کا اعلان فرما رہے ہوتے ، تو اس سے صریح اور واضح تر لفظ میں امامت کا اعلان کر سکتے تھے ۔ (السیف المسلول مترجم صفحہ نمبر 244 فاروقی کتب خانہ ملتان)
امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : جس کا میں مولا اس کا یہ مولا ، دوست رکھ اسے جو اسے دوست رکھے ، اور دشمن رکھ اسے جو اس سے دشمنی کرے۔ حدیث صحیح ہے ، اور اس میں بعض علمائے شان نے جو کلام کیا مقبول نہیں ، مگر تفضیلیہ یا رافضیہ کا مطلب اس سے کچھ نہیں نکلتا ۔ (مطلع القمرین ص70 کتب خانہ امام احمد رضا راولپنڈی)
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خُم غدیر کے واقعہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد "من کنت مولاہ فعلی مولاہ” بریدہ کی شکایت کی وجہ سے تھا اس کا مطلب یہ ہے ، کہ علی سے دوستی اور محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی ہے ۔
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ آگے فرماتے ہیں : بریدہ اسلمی کے بیان واقعات و مبشرات اور اپنے مقام پر بیان شدہ نصوص قرآنیہ سے واضح ہوجاتا ہے ، کہ خُم غدیر والی حدیث کو سیدنا علی کی خلافت بلا فصل سے کوئی تعلق نہیں ۔
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : سیدنا علی حدیثِ خُم غدیر کو اپنی خلافت (khilafat) کے لئے سند نہیں سمجھے ہوئے تھے ۔ (تصفیہ مابین سُنّی و شیعہ ص 33-34 )
تاجدار گولڑہ حضرت سیّدُنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ مزد فرماتے ہیں : غدیر خم والی روایت کو مولیٰ علی رضی اللّٰه عنہ کی خلافت بلا فصل سے کوئی تعلق نہیں ۔ (تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ نمبر 3)