قریبا ڈیڑھ دو صدیوں میں جو نقصانات امتِ مسلمہ کو دین کے بہروپ میں اسلام کا لبادہ اوڑھ اور لباسِ ایمان میں ملبوس وہابیہ اور دیابنہ سے ہوا ہے، اتنا نقصان شاید ہی کسی سے ہوا ہو۔ کیوں کہ یہ لوگ آستین میں بیٹھے سانپ کی مانند ہیں جو ایسا ڈنک مارے کہ ایمان ہی سلب ہوجاتا ہے، اور جو ان کی زد میں آتے ہیں انہیں شعور تک نہیں ہوتا وجہ یہی ہے کہ وہ مثلِ سیطانِ مارد ان کے افعال ان کی آنکھوں میں بھلے کر دکھاتے ہیں۔ ان کا ایجنڈا ہے کیا ؟ اسلام کا شیرازہ منتشر کرنا یہ ان کا آج کا نیا کام نہیں بلکہ طواغیت اربعہ نے جو قباحت و شناعت بھری باتیں کری ہیں۔ ان کے پیرو اور متبعین حضرات ان کی تاویلِ فاسد کرتے ہوئے آج تک چلے آئے اور انہیں کی بولی آج بھی یہ لوگ بولتے رہتے ہیں نمونہ کے طور پر طارق مسعود کی حالیہ کی گستاخی پیشِ نظر ہے۔
ان کے کبری سے لے کر صغری تک جتنے ان کفری عبارات پر اعتقاد رکھتے ہیں، یا ان پر مطلع ہوتے ہوئے بھی ان عبارات کے قائلین و کاتبین کو برحق اور مسلمان سمجھتے اور خود کو وہابیہ یا دیابنہ کے نام سے موصوف کرتے ہیں ان کے متعلق میں تو اپنی جانب سے کچھ نہیں کہوں گا بلکہ علمائے عرب و عجم نے جو بالاتفاق فیصلہ صادر فرمایا آپ کی خدمت میں حاضر ہے فرماتے ہیں یک زبان ہو کر "من شک فی کفرہ وعذابه فقد کفر” جن کی بابت یہ فرمایا علماء نے آپ بخوبی اپنے عقل و دماغ کا گھوڑا دوڑائیں اور فیصلہ کریں ان کی عبارتوں کی شناعت عالم کیا ہوگا؟ یاد رہے کہ ان کا کفر تو مسلمات سے ہے ہی ساتھ ہی جو ان کے کفر کا نکیر ہو یا انہیں مسلمان یا ان کے جہنمی ہونے میں شک تک کرے وہ خود کافر ہوگیا۔
اور انکی جرأت مندی اور بہادری تو دیکھو "ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری” خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور اسلام کے خلاف تبرابازی بھی اولوالالباب بھی ان کی اس منطق کو سمجھنے سے قاصر ہیں اللہ کی پناہ۔ میں جہاں تک سمجھتا ہوں کہ آج کل جو گستاخیوں کا دروازہ وا ہوا پڑا ہے۔ اس میں ان خبیثوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے، پلید و گوبر اور فضلہ خور کافروں نے جب دیکھا کہ مسلمان خود ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں۔ یاد رہے ہم تو انہیں کافر جانتے ہیں مگر ان کافروں کا کیا بظاہر یہ بھی تو خود مسلمان کہتے، لکھتے اور اسلام کے ساتھ اپنا تعارف بھی کرواتے ہیں تو بنظرِ غائر یہ مسلمان ہی ہیں الحاصل جب بھی جی میں آتا ہے نام و نمود اور مالداری اور زرداری کی خاطر اپنا ایمان دھرم بیچنے میں ذرہ برابر تامل نہیں کرتے اور گاہے بگاہے مسلماتِ اہل سنت پر نقد و جرح اور عقائد اہل سنت کو متزلزل کرنے کی ناپاک سازشیں کرتے رہتے ہیں۔
ایک سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ گستاخیوں کا سلسلہ ابھی کچھ برسوں سے کفار کی جانب سے ظہور پذیر ہوا حالانکہ دیابنہ، وہابیہ صدیوں سے اس کے مرتکب ہیں لہذا دونوں میں نسبت کیسی اور ان کفار کی گستاخی کیوں کر دیابنہ کو دیکھتے ہوئے ہے؟؟
جوابا میں ایک بات عرض کردوں کہ گستاخیوں کی کڑی آپ ملائیں گے تو آپ کے لئے راہ ہموار، اور عقدہ واشگاف ہوجائے گا۔ قلعی کھل ہی جائے گا کہ ابھی تک جو اکابرین دیابنہ، وہابیہ نے کیا وہ کتابت کی شکل میں کیا اور کتابوں کو پڑھنا ایک دشوار ترین امر بالخصوص دوسرے مذھب و زبان کی کتابیں اکتاہٹ کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہیں۔ لیکن آج کے چوروں کا کیا عالم ہے وہ بر سر منبر کھلے لفظوں میں اہلِ اسلام کی روش سے روگردانی کر گستاخیوں کے ابواب کا افتتاح کررہے ہیں "چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد” کیا ہی بہادر چور ہیں کہ ہاتھوں میں چراغ لئے پھر رہے اور چوری کررہے ہیں کسی کو خبر تک نہیں ہورہی۔ جب ان کی اس روش کو کفار و مستشرقین نے دیکھا اور سنا اب انہیں خبر ہوئی کہ خود ان کے ہی لوگ ایسے ہیں تو ہمیں کیا، خود ان کے ہی گریبان چاک ہیں پہلے وہاں پیوند لگائیں پھر ہماری جانب التفات ہوگی۔
ان کفار کے اسلام کے خلاف دریدہ دہنی کرنے کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے اقتدار، بر سرِ اقتدار افراد انہیں کے، عدلیہ انہیں کی، منصف انہیں کا اور مجرم وہ خود انکی سوچ یہ ہے کہ اگر مسلمان آپ میں لڑ بھڑ کر خاموش ہوگئے اور ہمارے گریبان تک دست درازی پر اتر آئیں جب تو کوئی نہیں سب تو اپنا ہی ہے، کون منصف، کون مجرم اور کیسا فیصلہ حکومت تو ہماری ہے ہمارا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ سو جو دل میں آئے کرو اور جو من مانے ایسی من مانی کرو بلا تامل بلا جھجھک اور روک ٹوک کے۔
خیر جب بھی آپ سیاہ تاریخ کے سیاہ اوراق کو پلٹ کر دیکھیں گے بات مکمل واضح ہوجائے گی ان کا کیا کردار رہا ہے؟ امت کی زبوں حالی اور خستہ حالی میں ضرور کہیں نہ کہیں ان کی ملی بھگت رہی ہے یہ تو وہ گھر کے بھیدی ہیں جو لنکا جیسے مضبوط قلعے تک کو نہ چھوڑا۔ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کہ نجد سے شیطان کا سینگ نکلے گا” اور یہ بھی انہیں نجدیوں کی ذریت سے ہیں۔ ان سے اللہ تعالی سے استعاذہ کرتا ہوں اور جملہ مسلمانان امت کو ان کے مکر و دجل سے بچنے کی تلقین کرتا ہوں۔ اور دعا گو ہوں کہ مولی کریم ہمیں ان کے شر سے محفوظ و مامون رکھے اور مسلک حقہ مسلک اعلی حضرت پر سختی کے ساتھ قائم و دائم رکھے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔
ازقلم محمد اختر رضا امجدی نیپال
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو یوپی الھند