سماجی مضامین

شادیاں کیوں نہیں ہوتیں__؟؟؟

شادیاں نہ ہونا کتنا بڑا ایشو اورغورطلب مسئلہ ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جس وقت اپ یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں ٹھیک اسی وقت پاکستان کے ہر چوتھے گھر میں ایک لڑکی تیس سال کی ہو چکی ہے شادی کے انتظار میں اور ان کے بالوں میں سفیدی لگی ہے۔ جن کی تعداد لگ بھگ پچاس لاکھ بنتی ہے۔ ایک اوسط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ لڑکیاں شادی کے منتظر ہیں۔
اسی معاشرے کا ایک فرد ہونے کے ناطے مجھے یہ مسئلہ اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ پچھلے تین چار ماہ سے میں اس پہ ریسرچ کر رہا تھا کہ شادیوں کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے اور اس رکاوٹ کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔
اس ضمن میں, میں نے تقریباً تین ہزار سے اوپر لوگوں سے بات کی ان کی رائے لی۔ پھر ان تمام آراء کی گروپ بندی کی.. میں نے چھوٹی چھوٹی پرچیاں بنائیں۔ اور پھر ان کا آپس میں ربط تلاش کیا۔
میری اس تحقیق اور سروے کے مطابق شادیوں کی ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹیں چار ہیں۔ جو نیچھے تفصیل سے لکھے گئی۔

1_ #جہیز یا ولور:- سب سے بڑی رکاوٹ جہیز یا ولور ہے والدین کو اکثر اوقات رشتہ تو مل جاتا ہے مگر جہیز یا ولور کیلئے پیسے نہیں ہوتے۔ جہیز کا مطلب ہے کہ بیوی کے والدین کو اتنا ذلیل کرنا کہ پھر وہ پوری زندگی قرض ہی ادا کرتے رہیں جبکہ ولور کا مطلب ہے کہ بیٹی کے شوہر کو نکاح سے پہلے مقروض کرکے اپنی بیٹی کو کسی مقروض کے گھر بھیج دیا جائے۔ اس مسئلے نے تقریباً تمام غریب اور متوسط درجے کے لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔ جس کی وجہ سے تقریباً 28 لاکھ شادیاں نہیں ہوئی یا نہیں ہو رہیں۔

2۔ ذات پات:- یہ وہ ناسور ہے جس نے کسی طبقے کو نہیں چھوڑا، امیر غریب سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ یہ دوسری بڑی بیماری ہے جس نے معاشرے کو کھوکھلا کردیا ہے. اس ذات پات کی وجہ سے روزانہ ایک ہزار سے زیادہ رشتے رد کئے جاتے ہیں۔ یعنی اگر صرف ذات پات کا مسئلہ ہی حل ہو جائے تو 20 لاکھ شادیاں کچھ دنوں میں ہو جائیں ۔

3_ بزدلی لالچ آئیڈیل:- یوں تو تقریباً ہر مسئلے کی وجہ ہی بزدلی ہوتی ہے اور یہ وسیع موضوع بھی ہے.مگر میں یہاں خاص طور پر بزدلی ایک بہت بڑا ناسور سمجھتا ہوں۔ کچھ والدین اپنی بیٹیوں کی شادی اسلئے نہیں کرتے کیونکہ وہ سوچتے ہیں یہ پڑھے، پھر جاب کرے اور پھر شادی ہو جائے تاکہ ان کی زندگی بہتر گزرے۔ مگر پڑھنے ، جاب دیکھنے اور پھر سال دو سال ان کے پیسے کھانے کے بعد لڑکی کو کہا جاتا ہے کہ اب خود رشتہ دیکھ لے۔ جبکہ وہ بیچاری 35 سال عمر کراس کرچکی ہوتی ہے۔ بزدل صرف والدین نہیں ہوتے بچیاں بھی ہوتی ہیں۔ مجھے کئی سو لوگوں نے یہ رائے بھی دی کہ ان کو وہ ہیرو یا آئیڈیل نہیں ملتا جو ان کو چاہئے، پھر وہ ایک دن ویلنٹائن کے انتظار میں صرف ویلن کو گلے لگا لیتی ہیں۔ کچھ لڑکیاں لاڈلی بنی ہوتی ہیں تو وہ شادی اسلئے نہیں کرتی کیونکہ انکو ڈر ہوتا ہے یہ مزے وہاں نہیں ملنے لگے۔ بزدلی سے شادی نہ ہونے کا سب سے بڑا مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب لڑکی یا لڑکے کو عشق ہوجائے اور گھر والے نہ مانے پھر بھی ایک نمایاں تعداد شادی کرنے میں شرم محسوس کرتی ہیں۔

4۔ دوسری_شادیاں:- بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ خوف سا ہے کہ دوسری شادی پتہ نہیں کتنا بڑا ظلم ہے۔ ایک تو ہماری زبانوں میں دوسری بیوی کا نام اتنا خوفناک ہے سوتن، بن، وغیرہ۔ جس سے لوگ ڈر جاتے ہیں. انڈین کلچر, رسومات, فلمیں ڈرامے اور سوپ سیریلز نے پاکستانی لوگوں کی زندگیاں خراب کردی ہیں.. دوسری شادی کو ایک معاشرتی ناسور بنا کر رکھ دیا گیا ہے.. عورت ہی عورت کی دشمن ہے.. جبکہ مرد اگر انصاف کر بھی سکتا ہو تو دوسری شادی کا نام نہیں لے سکتا..

حل:

ہمیں چاہیے کہ ایک بھرپور تحریک چلائیں..

    شادی ہالوں, دھوم دھام والی شادیوں، جہیز ، ولور, سجاوٹ پہ بے پناہ اخراجات, نمود و نمائش, قیمتی اور انتہائی مہنگے ڈریس, اور ذات پات کا مکمل بائیکاٹ کرے۔

    لڑکی والوں کے گھر کھانے پہ مکمل پابندی لگا دی جاۓ..

    نکاح انتہائی سادہ اور مسجد میں کیا جاۓ..

    مہندی, مایوں اور دیگر خرافات پہ سخت پابندی اور سزائیں ہوں..
    شادی کے جملہ اخراجات دلہے کی ایک تنخواہ یا ماہانہ آمدنی سے زیادہ نہ ہوں..
    نکاح کی دستاویزات اور مراحل بہت آسان ہوں..

    بارات بینڈ باجہ پہ پابندی ہو.. نکاح پہ صرف دلہے کے گھر والے ہی آئیں..

    شادی کا بڑا فنکشن صرف اور صرف ولیمہ ہو.. وہ بھی دلہا کی استطاعت کے مطابق..

    جبکہ حکومت کو چاہئے کہ ایک قانون بنائے جس کہ رو سے کسی لڑکی یا لڑکے کو تب تک یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملے جب تک وہ نکاح نامہ ساتھ نہ لائے۔

    حکومت کو یہ بھی چاہئے کہ جہیز ، ولور اور لڑکیوں کی شادی سے پہلے جابز پر مکمل پابندی لگائے۔ جاب صرف شادی شدہ خواتین کو دی جائے. ایسا قانون بنایا جائے کہ پہلے نمبر ہر سرکاری ملازمت اس کو ملے جس کی چار بیویاں ہوں پھر اس کو ملے جس کی تین بیویاں ہوں پھر اس کو ملے جس کی دو بیویاں ہوں پھر اس کو ملے جس کی ایک بیوی ہو پھر اس کو ملے جو کنوارا ہو پھر بوڑھی عمر رسیدہ عورتوں کا نمبر لگایا جائے یہی اصول نیم سرکاری غیر سرکاری اداروں میں بھی اپنایا جائے

    سوسائٹی یہ بھی کرسکتی ہے کہ مشترکہ شادیوں کو ترویج دی جاۓ جہاں صرف ایک سادہ ڈش اور زیادہ سے زیادہ شادیاں ہوں..

    دوسری شادی کا رواج عام کیا جاۓ.. جن مردوں کی مالی اور اسبابی استطاعت میسر ہے ان کی بیویاں اپنا ظرف بڑا کریں.. اللہ اجر دینے والا ہے..

    جس محلے یا یونین کونسل میں کوئی بیوہ یا مطلقہ عورت موجود ہو وہاں کا چیرمین اس کی دوسری شادی کے لئے معاونت کا ذمہ دار ہو..

    میڈیا کی جہالت اور رسومات ختم کرنے کے لئے اسلامی تعلیمات, خانگی نظام اور شادی کے اصل طریقہ کار کی مناسب تشہیر کی جاۓ..

    یاد رکھیں..
    جلدی شادیوں کا نہ ہونے سے زنا بڑھ رہا ہے۔
    نسوانیت ختم ہورہی ہیں۔
    مردانگی ضائع ہو رہی ہے،
    بے راہ روی عام ہورہی ہے,
    معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہورہی ہیں..
    چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ ریپ اور قتل و غارت ہورہی ہے..
    اغلام بازی اور امرد پرستی کی نحوست بڑھ رہی ہے..
    اگر اب بھی کچھ نہ سوچا گیا تو آنے والا وقت مزید تباہی وبربادی کے ساتھ ہمارا منتظر ہے
    اور سب سے بڑھ کر ہم سب نے اس کا جواب دینا ہے اللہ کے ہاں ۔ اپ بھی اپنے خیالات سے آگاہ کیجئے گا۔

    تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

    آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

    ہماری آواز
    ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
    http://Hamariaawazurdu@gmail.com

    جواب دیں

    آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے