پیش جو مسائل ہوں گفتگو سے حل کر لو
فیصلہ نہیں ہوتا فاصلہ بڑھانے سے
یوں تو کائنات کی ہر ایک شی اللہ وحدہٗ لاشریک کی مخلوق ہے ان میں تین مخلوق کا ذکر خالقِ کائنات نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں جگہ بہ جگہ فرمایا ہے . جن و انس اور ملک ، ان تینوں میں جو مقام و مرتبہ انسان کو عطا کیا گیا وہ کسی اور کو عطا نہ کیا گیا ۔ خالقِ کائنات نے انسان کو تمام مخلوقات میں اشرف و اعلیٰ بنایا اور لقد کرمنا بنی آدم کے تاج سے مرصع فرما کر دنیا میں وجود بخشا ، جہاں انسان کو اشرف المخلوقات کی حسین ترین تاج سے مرصع فرمایا وہیں اسے خطاء و نسیان سے بھی مرکب کیا ، جیسا کہ یہ قول مشہور ہے ،، الانسان مرکب من الخطاء والنسیان ،، یعنی انسان خطاء و نسیان کا مجموعہ ہے ۔ اور جو خطاء و نسیان سے مبرا و منزہ اور پاک ہے وہ محض انسان نہیں بلکہ انبیاء و مرسلین اور ملائکہ ہیں ، جب انسان خطا اور نسیان کا مجسمہ ہے اور اس کی فطرت میں خطاء و نسیان شامل ہے تو پھر اس سے ہر ایک انسان کا بغیر خدا کی توفیق کے بچ پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ الحمدللہ اولیاء کرام بتوفیق الہی خطاؤں سے محفوظ و مامون ہیں( مگر بحث اس سے نہیں ہے کہ بتوفیق خداوند قدوس اولیاء کاملین خطاؤں سے محفوظ ہیں ) بلکہ بحث اس سے ہے کہ انبیاء و مرسلین کے علاوہ بغیر خدا کی توفیق کے انسانوں میں کوئی فرد بشر خطاؤں سے محفوظ نہیں ۔ کوئی جرم و خطا سے محفوظ و مامون نہیں ۔۔۔۔۔۔ اگر ہر شخص اپنی گریبان میں جھانک کر دیکھے ، اور اپنے نفس کا محاسبہ کرے تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ آج اپنے جرم و خطا پر کوئی نگاہ ڈالنے کو تیار نہیں ، کوئی اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کو تیار نہیں ۔ بلکہ قوم کا ہر فرد خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ ہر کسی کو دوسرے کا ہی جرم نظر آتا ہے ، ہر کسی کو دوسرے کی ہی خطاء دکھائی دیتی ہے ، ہر کسی کو دوسرے کے ہی گناہ اور عیوب دکھائی دیتے ہیں الا ماشاء اللہ ۔
ع ۔ سامنے والوں کے ہر عیب نظر آتے ہیں ۔
آہ : ہم تکتے نہیں اپنے گریبانوں میں ۔ (فارح)
کیا ہمارا پاک اور مقدس مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اسلام کی آغوش میں پرورش پانے والے سے جرم و خطا سرزد ہو جائے اور وہ اپنے جرم و خطا سے تاںٔب ہو چکا ہو اس کے باوجود اس کو برسر عام رسوا کیا جائے ، کیا ہماری شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اس کے دین اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے نیک قدم کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جل کر اس کے پاؤں کھینچ کر گڑھے میں دھکیل دیا جائے ، کیا ہمارا دین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس کی خطاء کو عفو و درگزر نہ کر کے اس کا بائیکاٹ کیا جائے ؟ ۔ فقیر مکمل اذعان و ایقان کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام میں اس بات کی قطعاً اجازت نہیں ہے ، پھر کسی کو رسوا کرنے کے لئے سماج میں طرح طرح کے پروپیگنڈے پھیلانا کہاں کا انصاف ہے ؟ ، توبہ کے بعد بھی اس کا سماجی بائیکاٹ کرنا کہاں کا عدلیہ ہے ؟ ، کیا ایسا کرنے والے عفو و درگزر اور پردہ پوشی کی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں ؟ یا پھر حسد کی آگ میں جل کر اس طرح سے خاکستر ہو گئے کہ اپنی تعلیمات بھول گئے ہیں ؟ کیا خالق کائنات نے اپنی مقدس کتاب میں یہ ارشاد نہیں فرمایا ! ،، من تاب و امن و عمل عملا صالحا فاولئك يبدل الله سيئاتهم حسنات– یعنی جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو ایسے کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا ۔ (سورۂ فرقان آیت نمبر ٧٠)-
کیا رب کعبہ نے یہ نہیں فرمایا ! ،، ان الذين يحبون ان تشيع الفاحشة فى الذين آمنوا لهم عذاب فى الدنيا والآخرة،،– یعنی وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں برا چرچا پھیلے ان کے لئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے ۔(سورۂ نور آیت نمبر ١٩)
کیا آقائے صادق علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ ارشاد پاک نہیں ہے ! ،، التائب من الذنب کمن لا ذنب له،،– یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہی گویا اس نے کوںٔی گناہ نہ کیا ۔ (رواہ مسلم)
کیا نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمان عالیشان نہیں ہے ،، من ستر مسلما ستره الله فى الدنيا والآخرة و من كشف عورة اخيه المسلم كشف الله عورته حتى يفضحه بها فى بيته– یعنی جس نے (دنیا میں) کسی مسلمان بھائی کے عیوب کی پردہ پوشی کی اللہ ربّ العزت دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرماۓ گا اور جس کسی نے اپنے مسلمان بھائی کے عیوب ظاہر کیا اللہ ربّ العزت اس کا پردہ فاش فرماۓ گا یہاں تک کہ اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کر دے گا ۔ (مسلم)
اور کیا رسول کونین ﷺ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی ہے کہ کسی سے کوئی خطاء واقع ہو جائے تو اسے عفو و درگذر کر دو ؟ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی (گنوار آدمی) مسجد میں کھڑا ہو کر پیشاب کرنے لگا تو صحابہ کرام نے اسے پکڑ لیا (اور اسے سزا دینے کے متعلق باتیں کرنے لگے) تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو اور پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول اس کے پیشاب پر ڈال دو کیونکہ تم آسانی کرنے والے پیدا کئے گئے ہو ، تم سختی کرنے والے نہیں پیدا کئے گئے ہو ۔ (حکایت بخاری)
یہ روایت صاف صاف ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے کلمہ پڑھنے والوں کی ایک صفت حسنہ عفو و درگزر کرنا ، اپنے مسلمان بھائی پر یسر و آسانی پیدا کرنا ، اور اس پر کسی قسم کی سختی اور بے جا تشدد نہ برتنا بھی ہے ۔ پھر بات بات پر کسی کا بائیکاٹ کیوں ؟ پھر بات بات پر کسی کی تذلیل کیوں ؟ پھر بات بات پر کسی کے نیک کام میں رکاوٹ کیوں ؟ ذاتی بغض و عناد یا نیک کام کی جانب بڑھتے ہوئے قدم کو روکنا ؟ یا پھر اس کے آگے اپنی تنقیص شان ؟ اگر ان میں سے کچھ بھی نہیں تو پھر کام کریں اور کام کرنے دیں ، کسی کی عیب جوئی کر کے اس کی ٹانگیں نہ کھینچیں اس لئے کہ مخالفت اور بائیکاٹ ہر مسئلے کا حل نہیں بلکہ عفو و درگزر کرنے میں دنیا و آخرت کی بھلائی اور سرخروئی ہے ۔ اس موقع پر ایک یونیورسٹی کے سربراہ کا دانشمندانہ فیصلے کا واقعہ یاد آتا ہے ممکن ہے کہ قارئین اس سے مستفید ہوں گے ۔
واقعہ – بیان کیا جاتا ہے کہ ایک یونیورسٹی میں ایک طالب علم کی شرارت حد سے زیادہ بڑھ گئی وہ یونیورسٹی کے قوانین کا پاس و لحاظ نہ رکھتا اکثر کام یونیورسٹی کے قانون کے خلاف کرتا اس کی اس بد عملی اور قانون کے خلاف ورزی کے سبب وہاں کے تمام اساتذہ نے اس کو یونیورسٹی سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا ، کیونکہ سبھی اس کی شرارتوں اور حرکتوں سے تنگ آچکے تھے لیکن اس فیصلے پر آخری رائے یونیورسٹی کے سربراہ کی لینی باقی تھی ، تمام اساتذہ اس مسئلہ کو لےکر سربراہ کی خدمت میں پہنچے اور سبھوں نے مل کر بیک زباں کہا مزاج عالی باوقار ! اس طالب علم کی وجہ سے یونیورسٹی کا ماحول خراب ہو رہا ہے ، ہر کام یہاں کے اصول و ضوابط کے خلاف کرتا ہے ، کئی بار ہم لوگوں نے اپنے طور پر سمجھایا اور چاہا کہ یہ اپنی عادت سے باز آجائے ،اپنے اندر تبدیلی پیدا کرلے ، لیکن وہ اپنی عادت سے باز آنے کا نام نہیں لیتا ، دن بہ دن اس کی شرارتیں بڑھتی جا رہی ہیں ، اگر اس کو یونیورسٹی سے باہر نہ نکالا گیا تو آنے والے وقت میں حالات اور بھی پیچیدہ ہو سکتے ہیں ، اسی لیے آپ اس کے بارے میں ہم لوگوں کی رائے تسلیم کریں ، اور یونیورسٹی سے اس طالب علم کا خارجہ کر دیں ، تاکہ یونیورسٹی کے اندر امن وامان کی فضا قائم رہے ، اور دوسرے طلبہ پر اس کے برے اثرات مرتب نہ ہو سکیں ، یونیورسٹی کے سربراہ نے اساتذہ کی بات سننے کے بعد فورا ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی اور اس طالب علم کو بھی میٹنگ میں بلایا ، اس دن وہ دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ شاید یہ اس کا آخری دن ہے کیونکہ معاملہ حد سے تجاوز کر گیا ہے ، لیکن اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا
کہ یون
یورسٹی کے سربراہ مجلس میں خطاب کے لئے کھڑے ہوئے تو انہوں نے اپنے خطاب کا آغاز خدا کی حمد و ثناء سے کرنے کے بعد اہل مجلس خصوصاً اساتذہ کرام سے مخاطب ہو کر کہا ، بھائیو ! اسلام ایک سیدھا دین ہے ہم خیر امت ہیں ، ہم ایک ایسی قوم ہیں جن کی پیدائش کا مقصد ہی دنیا کو غلط راستے سے ہٹا کر سیدھا راستہ دکھانا ہے ، ہم اس دنیا میں دین سے دور لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانے کے لیے بھیجے گئے ہیں ، جس طالب علم کے بارے میں آپ لوگ ہمارے پاس شکایت لے کر آئے ہیں وہ نہ تو میرا رشتہ دار ہے اور نہ ہی اس سے مجھے کوئی ناجائز ہمدردی ہے ، بس میں اتنا جانتا ہوں کہ یہ قوم کا ایک فرد ہے ، جس کا ضائع ہو جانا افسوس کی بات ہوگی ، یہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر سات سمندر پار علم حاصل کرنے کے لئے آیا ہے ممکن ہے شیطان کے بہکاوے میں مبتلا ہو کر اس نے ایسی حرکتیں کی ہوں گی ، جو یونیورسٹی کے نظام کے خلاف ہیں ، یا جن سے آپ لوگوں کی عزت پر حرف آتا ہو لیکن ذرا مجھے بتائیے کہ ہم تمام لوگ جن کے سینوں میں اسلام کی سربلندی اور اللہ کے پیغام کو عام کرنے کا جذبہ اور ارمان مچل رہا ہے کیا ہمارا ایمان اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ سارے لوگ مل کر بھی ایک بچے کی اصلاح نہیں کرسکتے ہیں ؟ کیا ہمارے اندر سے استقامت اور صبر کا جذبہ ختم ہو گیا ہے ؟ یا پھر ہم اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ رہے ہیں ؟ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ یونیورسٹی کے سربراہ بولتے بولتے جذبات میں آ گئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو کے قطرات تیرنے لگے ، لبوں پہ تھرتھراہٹ پیدا ہوگئی ، سربراہ کی یہ کیفیت دیکھ کر وہاں پر موجود تمام اراکین و اساتذہ کی آنکھیں بھی اشکبار ہو گںٔیں ، وہ طالب علم بہت شرمندہ ہوا اور سربراہ کی باتیں سن کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ، چند منٹ تک پوری مجلس میں خاموشی چھائی رہی اس کے بعد سبھی اساتذہ کھڑے ہوئے اور سبھوں نے مل کر بیک زبان کہا کہ مزاج عالی باوقار ہم لوگوں نے جذبات میں غلط فیصلہ کر لیا تھا ، یہ طالب علم یونیورسٹی میں ہی رہے گا ہم تمام لوگ آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ان شاءاللہ عزوجل اپنی طرف اس کو پورے طور پر ایک نیک انسان بنانے کی کوشش کریں گے ، جہاں تک ممکن ہو گا اس کی اصلاح کی کوشش کریں گے ، اس طرح سے اس کی خطاؤں پر پردہ ڈال کر سبھوں نے اسے عفو و درگزر فرما دیا اور اس کی اصلاح کی خاطر کوشاں ہوئے ، اس واقعہ کو گزرے ہوئے کئی سال کا طویل عرصہ گزر گیا اس بیچ کتنے طالب علم آئے اور کتنے گئے ، یونیورسٹی کی پچھلی تمام یادیں ماضی کا حصہ بن کر رہ گئیں ، اس طالب علم کو فراغت حاصل کر کے نکلے ہوئے بھی زمانہ گزر گیا کئی سالوں کی لمبی مدت کے بعد یونیورسٹی کے سربراہ کو دعوت و تبلیغ کے کام سے کسی دوسرے ملک میں تشریف لے جانا ہوا ، وہاں کے مختلف تاریخی جگہوں کو دیکھا وعظ و نصیحت کا سلسلہ ہر جگہ جاری رہا اسی بیچ ان کا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا جو مسلمانوں کی شان و شوکت کا گہوارہ تھا ، ہر طرف ٹوپی کرتا میں ملبوس لوگ سڑکوں پہ دکھائی دے رہے تھے ، بلند و بالا مسجدوں سے آتی ہوئی اذان کی آوازیں اس پورے علاقے کو ایمان کی روشنی سے منور کیے ہوئے تھیں ، گھروں سے قرآن کی تلاوت کی صدائیں صاف سنائی دے رہی تھیں ، سربراہ کے ساتھ جو لوگ ان کی رہنمائی کر رہے تھے ، انہوں نے بتایا کہ محترم یہ پورا علاقہ کبھی کفر کا گہوارہ تھا ، مختلف قسم کی بدعتیں یہاں رائج تھیں ، ایک خدائے واحد کی پرستش چھوڑ کر لوگ اپنی من مانی زندگی گزار رہے تھے لیکن سالوں قبل کی بات ہے کہ ایک عالم دین یہاں آئے انہوں نے کمر توڑ کوشش کی ، لوگوں کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا ، سکون و اطمینان کو ترس رہے یہاں کے باشندوں نے جب اسلام کا پیغام سنا تو ماضی کی تمام خرافات سے توبہ کر کے اسلام قبول کرتے چلے گئے ، اور آج الحمدللہ ! یہ بستی ہی نہیں بلکہ پورا علاقہ اسلام کی روشنی سے جگمگا رہا ہے ، سربراہ نے پوچھا کہ کیا وہ عالم دین ابھی حیات سے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں ابھی وہ باحیات ہیں ، سربراہ نے پوچھا وہ کہاں ملیں گے ؟ لوگوں نے جواب دیا جہاں لوگوں کا ہجوم ہو کیونکہ دور دراز مقامات سے ڈھیر سارے لوگ اپنے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے ان کی بارگاہ میں تشریف لاتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہاں لوگوں کا ہجوم لگا رہتا ہے ، وہ ہر وقت ان کے مسائل کا تشفی بخش جواب دینے میں مصروف رہتے ہیں ، وہ وہیں پہ موجود ہونگے ، سربراہ نے اسلام کے اس داعی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی چند لوگوں کے ساتھ ان کے پاس پہنچے قریب جا کر اس داعی سے سربراہ کی نگاہ ٹکرائیں تو وہاں پر موجود تمام لوگوں نےجو منظر دیکھا اس سے سبھی لوگ حیران و ششدر رہ گئے انہوں نے کیا دیکھا کہ جیسے ہی سربراہ دعوت وتبلیغ کرنے والے عالم دین کے پاس پہنچے تو وہ سربراہ کو دیکھتے ہی پیادہ پاؤں دوڑے ہوئے آۓ اور سربراہ کے گلے سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، سربراہ کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ معاملہ کیا ہے ؟ بالآخر اس عالم دین نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے اپنا تعارف پیش کیا اور کہا کہ حضور ! ممکن ہے کہ آپ کو یاد نہ ہو میں وہی طالب علم ہوں جو آج سے کںٔی سالوں پہلے آپ کی مہربانی کی بنا پر آپ کی یونیورسٹی سے نکلتے نکلتے بچ گیا تھا ، اور میرا مستقبل تاریک ہونے سے محفوظ رہا ،آپ کی نصیحتوں کا ہی اثر ہے کہ اللہ نے مجھے اس لائق بنا دیا کہ آج لوگ امنڈتے ہوئے سیلاب کی طرح میرے ہاتھوں اسلام قبول کر رہے ہیں اور پورا علاقہ اللہ کی وحدانیت سے گونج رہا ہے یہ سن کر سربراہ نے انہیں ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا اور کہا بیٹا ! زندگی کے آخری سانس تک اسی طرح اپنے مشن میں لگے رہنا کیونکہ ؛؛ یہ دنیا کی زندگی تو بس دھوک
ے کا سامان ہے اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور جو تم کر رہے ہو یہ آخرت کی سب سے اچھی تیاری ہے ۔
محترم قارئین کرام ! یہ واقعہ ہمیں چند امور کی طرف رہنمائی کرتا ہے !
اول ۔ کسی بھی ادارے کے ذمہ دار اس یونیورسٹی کے سربراہ کی طرح دریا عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے ، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر طلبہ کا خارجہ کر کے ان کی زندگی کو تاریکیوں کے دلدل میں ڈھکیلنا نہیں چاہیے ۔
دوم – ہمیں عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے !
سوم – حتی المقدور اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے ۔
چہارم – بات بات پر بائیکاٹ سے گریز کرنا چاہیے –
پنچم – جن فروعی مسائل میں علماء محققین کے مابین اختلاف ہو جائے ان میں بیٹھ کر عقدہ کشائی کرنی چاہیے ۔ کسی محقق کی تحقیق حرف آخر نہیں ، ممکن ہے کہ اس میں خطاء واقع ہو اس لیے بیٹھ کر مسئلہ کا حل کرنا چاہیے ، بائیکاٹ ہر مسئلے کا حل نہیں ۔
پیش جو مسائل ہوں گفتگو سے حل کر لو
فیصلہ نہیں ہوتا ہے فاصلہ بڑھانے سے
اللہ تعالی ہم سبھوں کو نیک نیتی اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ زندگی گزارنے کا جذبہ اور خوب خوب خود کامحاسبہ کرنے کی اور اعتصام بحبل اللہ کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
ازقلم: ابوارسلان یزدانی