تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
چند سالوں سے سنی کہلانے والوں میں ایک طبقہ اسلاف کرام کے مسلک سے منحرف ہو چکا ہے۔وہ لوگ حضرات اہل بیت کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی محبت وعقیدت کے نام پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین اور خاص کر صحابی رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر طعن و تشنیع اور ان کی بدگوئی کرتے ہیں۔ان لوگوں کی حرکتیں اور ان کے اقوال و خرافات علمائے اہل سنت وجماعت سے مخفی نہیں۔
اہل سنت و جماعت کے عقائد وہ ہیں جو عقائد کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔تواریخ وسیر کی کتابوں میں روایات کی نقل ہے۔عقائد کا بیان نہیں۔ان روایات کی تحقیق و تنقیح کے بعد اسلاف کرام نے جو حکم شرعی بیان کیا ہو,وہ قابل عمل ہو گا۔کوئی شخص تواریخ وسیر کی روایتوں کو دیکھ کر خود فریبی میں مبتلا نہ ہو۔
متفق علیہ عقائد کے بالمقابل تواریخ وسیر کی روایات پر عمل کیسے ہو سکتا ہے۔باب عقائد کے خاص اصول وقوانین ہیں۔محض روایت دیکھ کر اس کو عقیدہ نہیں بنایا جا سکتا۔
قرآن مقدس میں اللہ تعالی کے لئے ید اور وجہ کا لفظ وارد ہے,پھر اللہ تعالی کو جسم و جسمانیات والا کیوں نہیں مانتے؟
دراصل قانون ہے کہ جو عقلا محال ہو,وہ شرعا بھی محال ہو گا,گرچہ نص قطعی میں اس کا ذکر آئے۔واجب تعالی کا جسم و جسمانیات والا ہونا عقلا محال ہے۔لہذا جن آیات طیبات میں وجہ و ید کا ذکر آیا,ان کو متشابہات میں قرار دیا جائے گا۔یا ایسی تاویل کی جائے گی کہ عقلی فیصلہ کی مخالفت نہ ہو۔
شریعت کا ثبوت عقل صحیح پر موقوف ہے۔عقل ہی مدار تکلیف ہے۔شریعت ایسا عقیدہ پیش نہیں کرتی جو عقل صحیح کے خلاف ہو۔
واضح رہے کہ باب عملیات وفقہیات میں عقل صحیح دلیل نہیں۔باب عقائد میں عقل صحیح دلیل اول ہے۔
جس طرح علم فقہ کے اصول وضوابط ہیں,جس کو اصول فقہ کہا جاتا ہے۔اسی طرح علم عقائد کے بھی اصول و قوانین ہیں۔اصول تفسیر اور اصول حدیث بھی ہیں۔اصول فقہ اور اصول حدیث کی تعلیم مروج ہے۔حالیہ چند سالوں سے بعض عظیم مدارس میں اصول تفسیر کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔علم عقائد کے اصول وضوابط غیر مدون ہیں۔اس کے اصول وضوابط متفرق طور پر کتابوں میں مرقوم ہیں۔
تواریخ وسیر کی روایات اور عقائد ومسائل
تواریخ وسیر کی کتابوں میں رطب ویابس سب کچھ مرقوم ہیں۔یہ صحیح ہے کہ اہل سیر و تواریخ کے یہاں موضوعات معتبر نہیں,نہ ہی موضوعات قابل اعتبار ہیں,لیکن بسا اوقات بوجہ لغزش تواریخ وسیر بلکہ کتب تفاسیر میں بھی موضوع روایات درج ہو جاتی ہیں۔ایسی روایتوں کی تحقیق کی جاتی ہے اور قوم کی غلط فہمیاں دور کی جاتی ہیں۔ایسی روایتوں کے سبب عقائد ومسائل بدل نہیں سکتے۔
شاتمین صحابہ کا حکم شرعی
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کا ذکر خیر و صلاح کے ساتھ کرنا لازم ہے۔ان کی بے ادبی شعار روافض اور ضلالت و گمرہی ہے۔
جو شخص سنی ہونے کا دعویدار ہو اور کسی صحابی پر طعن و تشنیع کرتا ہو,ان پر عیب لگاتا ہو اور ان کو برا بھلا کہتا ہو تو وہ بدعتی اور فاسق ہے۔
ان میں سے جو لوگ اعلانیہ سب وشتم کرتے ہیں۔وہ فاسق معلن ہیں۔بدعتی وفاسق معلن کی اقتدا میں نماز مکروہ تحریمی اور واجب الاعادہ ہے۔
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے ایسے طبقہ کو فرقہ تفسیقیہ کے نام سے موسوم کیا ہے اور ان کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔
امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:
"جس کی گمرہی حد کفر تک نہ پہنچی ہو جیسے تفضیلیہ کہ مولی علی کو شیخین سے افضل بتاتے ہیں,رضی اللہ تعالی عنہم
یا تفسیقیہ کہ بعض صحابہ کرام مثل امیر معاویہ وعمروبن عاص وابوموسی اشعری ومغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہم کو برا کہتے ہیں۔ان کے پیچھے نماز بکراہت شدیدہ تحریمیہ مکروہ ہے کہ انہیں امام بنانا حرام اور ان کے پیچھے نماز پڑھنی گناہ اور جتنی پڑھی ہوں,سب کا پھیرنا واجب”-
(فتاوی رضویہ جلد ششم:ص 626-جامعہ نظامیہ لاہور)
امام احمد رضا قادری نے فتاوی رضویہ(جلد پنجم:ص 580-585-جامعہ نظامیہ لاہور)میں تواریخ وسیر کی روایات سے متعلق نفیس بحث رقم کی ہے۔اسی بحث میں محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی مدارج النبوت کی ایک عبارت نقل فرمائی ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے رقم فرمایا:
"وسب وطعن ایشاں اگر مخالف ادلہ قطعیہ است,چناں کہ قذف عائشہ کفر است والا بدعت وفسق است کذا قال فی المواہب اللدنیہ۔
وہم چنیں امساک وکف نفس از ذکر اختلاف ومنازعات ووقائع کہ میان ایشاں شدہ وگذشتہ است۔
واعراض واضراب از اخبار مورخین وجہلہ رواۃ وضلال شیعہ وغلاۃ ایشاں ومبتدعین کہ ذکرمثالب ومعائب وقوادح وزلات ایشاں کنند کہ اکثر آں کذب وافترا است۔
وطلب کردن والتماس نمودن در آں چہ نقل کردہ شدہ است از ایشاں از مشاجرات ومحاربات باحسن تاویلات واصوب خارج از جہت بودن ایشاں اہل آں وعدم ذکر ہیچ یکے ازیشاں بہ بدی وعیب بلکہ ذکر حسنات وفضائل وعمائد صفات ایشاں از جہت آں کہ صحبت ایشاں بآں حضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقینی است وماورائے آں ظنی است”-
(مدارج النبوت جلد اول:ص313-مطبع نول کشور لکھنو)
(فتاوی رضویہ:جلد پنجم:ص 583-جامعہ نظامیہ لاہور)
ترجمہ: اگر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین پر طعن وسب وشتم کرنا دلائل قطعیہ کے خلاف ہے جیسے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر بہتان باندھناتو یہ کفر ہے,ورنہ بدعت وفسق ہے۔ایسا ہی مواہب لدنیہ میں ہے۔
اسی طرح ان کے درمیان واقع ہونے والے اختلاف ومنازعات اور گزرے ہوئے واقعات سے خموشی اور کف لسان ضروری ہے۔
اور ان اخبار وواقعات سے اعراض کیا جائے جو مؤرخین,جاہل راویوں اور گمراہ وغلو کرنے والے شیعوں اور اہل بدعت نے بیان کئے ہیں۔ان لوگوں نے حضرات صحابہ کرام کی جن لغزشوں کا ذکر کیا ہے,ان میں سے اکثر کذب وافترا ہے۔
اور ان کے مشاجرات و تنازعات جو منقول ہیں,ان کو تلاش کر کے ان کی عمدہ تاویل اور صحیح ترین مطلب بیان کرنا ضروری ہے۔
اور ان میں سے کسی کا ذکر برائی اور عیب کے ساتھ نہ کرنا لازم ہے۔
بلکہ ان حضرات کی خوبیوں,فضائل اور عمدہ صفات کا ذکر لازم ہے,کیوں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ ان کی صحبت یقینی ہے اور دیگر امور ظنی ہیں۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین پر طعن اور سب وشتم کرنے والا فاسق ہے,کیوں کہ یہ فعل ناجائز و حرام ہے اور ناجائز و حرام کا مرتکب فاسق ہوتا ہے۔
سنیت کا دعویدار یہ فسق عملی اختیار کرے تو بدعتی اس لئے ہے کہ ایل سنت وجماعت میں وہ ایک جدید غلط طریقہ اور ناجائز وحرام امر کو رواج دینے والا اور دعوی سنیت کے باوجود اس بدعت کو انجام دینے والا ہے۔
انکار رفض,دعوی سنیت اور سب صحابہ کو ناجائز وحرام ماننے کے باوجود اس کے فاسق وبدعتی ہونے میں کوئی شبہہ نہیں:واللہ تعالی اعلم