حقیقتوں کو تری پھر سے خواب کرنا ہے
قسم خدا کی تجھے بے نقاب کرنا ہے
مری نگاہ سے ہر گز تو بچ نہیں سکتی۔
اے زندگی ابھی تجھ سے حساب کرنا ہے
تری پناہ میں کس طرح میں ہوا برباد
ملا جو وقت تو اس پر خطاب کرنا ہے
وہ مجھ سے رشک کرے بس یہی نہیں کافی
ابھی تو ذہنی توازن خراب کرنا ہے
ہمارے جیسوں کی صحبت کو اختیار نہ کر
کیا اپنی زندگی تجھ کو عزاب کرنا ہے ؟
بھڑک رہے ہیں جو شعلے فضا میں نفرت کے
محبتوں سے انہیں آب آب کرنا ہے
بھلا کے قلب سے ماضی کی تلخیاں روشن
اب اپنے چہرے کو پھر سے گلاب کرنا ہے
نتیجۂ فکر: افروز روشن کچھوچھوی