نہیں تم ہو بھارت چلانے کے قابل
فسادوں سے اس کو بچانے کے قابل
یہاں پر تو ہوتے ہیں روز آنہ دنگے
نہیں تم نے چھوڑا زمانے کے قابل
تھا اچھے دنوں کا جو وعدہ تمھارا
ہوئے تم نہ اس کو نبھانے کے قابل
ہیں دنگے کرائے ہوئے دیش بھر میں
اجی ! کیا ہو تم منہ دکھانے کے قابل
ہیں اقبال بھی سوچتے یہ لحد میں
بچا کیا ؟ چمن ! اُس ترانے کے قابل
وطن پر فدا ہم ہیں ہردم۔ مگر تم
تھے تب بھی نہیں سر کٹانے کے قابل
قمرؔ تیرا غم ہے زمانے میں ظاہر
نہیں ہے مگر تو سنانے کے قابل
نتیجۂ فکر: محمد شعیب رضا قمرؔ گورکھ پوری