تاریخ کے دریچوں سے کالم گوشہ خواتین

بولتی ہوئی محرابوں کے درمیان

  • تاریخ کےاسباق

شیوناتھن اپنے کیمرے کی تیسری آنکھ سے دیکھ رہاتھا۔اسے سب کچھ صاف صاف نظر آرہا تھا۔بہت ساری یاد گار تصویریں اس کے علم میں تھیں جن میں سے یہ بھی ایک تصویر ہے۔نواب آصف الدولہ کا شاہی لشکراپنی روایتی شان وشوکت اور تزک واحتشام کے ساتھ شہر میں داخل ہو رہاہے۔ ۱۷۷۵؁ کا زمانہ ہے۔ لکھنؤ کاایک آباد محلہ…..محلہ کی ایک عظیم الشان عمارت کے ایک منقّش دروازہ میں کھڑی ہوئی خواتین کی آوازیں آرہی ہیں۔نہیں…نہیں ۔ صرف آوازیں ( خواتین آپ کے تصور میں مجسّم ہوں گی )

‘‘ ائے بی بی!تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس کی آمد آمد کا اعلان ہورہاہے ۔؟’’
‘‘ ہوں۔ میں صدقے ۔میں واری۔کون نہیں جا نتا کہ خلد آشیانی نواب شجاع الدولہ کے فرزندارجمند اودھ پناہ جناب آصف الدولہ تشریف لارہے ہیں۔’’
‘‘ تو پھر فیض آباد کا کیا ہو گا ؟ بہو بیگم کا وہ فردوسِ دل نشین ، جنت بے نظیر !’’
‘‘ ائے خالہ بی! یہ وقت اور زمانہ کی کروٹ ہے جس نے فیض آباد کا چراغ گُل کردیا اور لکھنؤ کی قندیل روشن کر دی۔’’
‘‘ تو یوں کہو کہ اب ہمارے شہر کا آفتاب خوب بلندی پر چمکے گا۔’’
‘‘ بیشک! یہ ہماری خوش نصیبی ہے ۔’’
اس طرح لکھنؤ کے نوابین کے عروج وزوال کی داستان کو لکھنؤ کے کھنڈروں کی زبان میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ شمال اور جنوب کے دو ہاتھوں نے مل کر لکھنؤ کو کھنڈروں سے اجا گر کر نے کی یہ انوکھی کوشش کی ہے۔باتیں ماضی کی ہیں لیکن تاریخ تو ہمیشہ ہی زندہ رہتی ہے ۔اسے کوئی مٹا نہیں سکتا، کوئی فراموش نہیں کر سکتا۔تاریخ،کھنڈروں میں ،تصویروں اور تحریروں میں زندہ رہتی ہے۔زندہ قومیں اپنی تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔وہ اپنی تاریخ کی بنیاد پر اپنے مستقبل کی عمارت تعمیر کر تی ہیں۔
۱۸۱۹؁ء کی ایک صبح کا چڑھتا ہوا آفتاب۔لکھنؤ شہر کی ہمہ ہمی۔ شاہی دربار کا جاہ وجلال،رونق اور شان وشوکت اور نقا روں کی آواز کی گونج کے ساتھ تاج پوشی کا اعلان کر تی ہوئی لکھنو ٔ کی ایک صبح ! لال بارہ دری کی پُر ہیبت اور بلند وبالا محرابیں! شیو نا تھن اپنے کیمرے کی آنکھ سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔محلات کے کھنڈر بول رہے تھے ۔خاموشی گونج رہی تھی اور سنا ٹے چیخ رہے تھے۔
‘‘ خلق خدا کی ملک ہندوستان کا ،علاقہ اودھ کا،حکم شاہِ دہلی بادشاہ اکبر شاہ ثانی کا…….ہر خاص وعام کو اطلاع دی جاتی ہے کہ حکومت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی…..ہمارے صوبہ کے نواب وزیر مرزا رفعت الدولہ غازی الدین حیدر کمپنی بہادر کے ہاتھوں تاج
پہن کر بادشاہِ اودھ اوّل کی حیثیت سے تختِ سلطنت پر مسند نشین ہو تے ہیں…….!’’
نوابی کے بادشاہت میں تبدیل ہو جانے کا یہ اعلان تمام لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے مگر کیسے پہنچایا جائے۔ وہ درد جو لکھنؤ کی لال با رہ دری کی ان محرابوں میں دفن ہے،جسے ہم نے آج تصویروں میں دیکھا ہے، کس کس سے بیان کریں۔ تاریخ کے اہرام میں سجی ہوئی تلخ ترین حقیقتوں کا انکشاف کیسے ہو ؟ کس سے فریاد کریں کس سے مداوا چاہیں ،جو کچھ آج ہم نے تصویروں میں دیکھا ہے،سب کو کیسے دکھا ئیں۔؟
مغل سلطنت پہلے ہی ایک زندہ لاش کی طرح تھی ۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کے ٹکڑے کر دیے ۔اودھ میں مغل سلطنت سے انحراف کی سازش انگریزوں نے کی۔دہلی کی گرفت اور انتظام سے تمام صوبے الگ الگ ہو گئے ۔مغل سلطنت حصولِ برکت کا ذریعہ بھی نہیں رہ گئی۔ہندوستان میں برطانیہ کی حکومت یقینی ہو گئی،بادشاہ صرف نام کے رہ گئے۔ وسیع وعریض مغل سلطنت صرف دہلی کی حدود میں سمٹ کر رہ گئی۔
۶ ؍ جولائی۱۸۳۷؁ء کی نصف رات، آسمان پر بجھے بجھے چاند ،ستارے،مغموم ہوؤں کے سسکتے ہوئے جھونکے،برطانوی طرز کی بنی ہوئی حویلی ‘‘گلستانِ ارم’’ کا ایک گوشہ۔ اس گوشے میں رات کے سنّاٹوں اور تاریکیوں کو چیرتی ہوئی ایک بے بس دعا گو ماں کی چیخ !‘‘۔ہائے بیٹا! تم عورت اور انگریز پرستی کے شکار ہو ہی گئے نا میرے لال ! اور انھیں کے ہاتھوں سے زہر پی کر چپ چاپ سوگئے۔’’
بادشاہ نصیر الدین حیدر کی موت،ایک المناک تاریخی سانحہ تھی ،گلستانِ ارم کے درو دیوار،نقش ونگار، کانچ کی بوتلوں کے گودام، شاہی تہ خانے، سرکاری فائلیں،الماریوں کی آڑ میں سسکتے ہوئے حسین چہرے،بیل بوٹے۔ … .! کہاں تک بیان کی جائے لکھنؤ کے دکھوں اور غموں کی داستان۔؟ یہ بڑی طویل اور درد ناک ہے۔آپ کہاں تک سنیں گے اور میں کہاں تک سناؤں گا ۔؟
آیئے اب ذرا قیصر باغ کی طرف چلیں جہاں ‘‘ پری خانہ’’ سے ریختی کے شوخ جملے اٹھتے ہیں ۔
‘‘او بنّو! دیکھا ہمارا قیصر باغ ؟ گلشنِ خوبی ،باغِ محبوبی،میں صدقے ،میں واری،ہائے ہائے کیا چھب ہے ہمارے اختر پیا کی!’’
یہ ایک رخ تھا،سِکّے کی طرح اس کادوسرارخ بھی ہے۔ ۴/ فروری ۱۸۵۳ ؁.ء کی ایک صبح،تقریباََ آٹھ بجے کا وقت …جرنل اوٹرم کے ہاتھوں میں پیاجانِ عالم واجد علی شاہِ اودھ کے تخت بدر کیے جانے کا فرمان۔کمپنی سرکار کا جدید صلح نامہ۔تیزوطرّار گھوڑوں کے ٹاپوں کی گونج حضور باغ کے پھاٹک کے اندر داخل ہوکر زرد کوٹھی کے تینوں دروازوں سے گزرتی ہے جن پرجل پریوں کا شاہی نشان ہے۔یہ دروازے اب لکھنؤ میں نہیں ہیں پر ان کے اثرات ونشانات کی جھلک اب بھی ملتی ہے۔جب ریزیڈنسی کا مترجم کچھ کہتاہے تو ملازم شاہِ اودھ کے حضور میں آداب بجالاکر عرض کرتا ہے۔
‘‘ حضور! بیلی گارد کےاوٹرم صاحب آپ کو سویرے کا سلام کہتے ہیں۔’’ بادشاہ اپنی لکھنوی تہذیب کا دامن مصیبت کی اس گھڑی میں بھی نہیں چھوڑتا ۔اپنی باہیں پھیلاکر اپنے عزیز فرنگی مہمان کا خیر مقدم کرتاہے لیکن اس گورےناہنجارکاہاتھ صرف جدیدصلح نامہ پر بادشاہ کےدستخط کی خواہش کےساتھ آگے بڑ ھتا ہے ۔صلح نامہ کے نام سے کمپنی کا فرمان بلند آواز سے پڑھاجاتا ہے جسے سن کرزرد حویلی کے درودیوار چیخ اٹھتے ہیں۔بادشاہ اس فرمان کو سن کرچاروں طرف سے نظریں بچا کرخاموشی کےساتھ صرف او پر کی طرف دیکھتا ہے۔دل سے فریاد کرتاہے ۔
۔‘‘ائے خداوند! تو شاہد حال ہے کہ یہ مجھ پر صریح جفاہے اور حوالہ ٔ انتظام کے بہانے سے میرا گھر مجھ سے چھینا جارہا ہے۔’’
بیٹے کی سلطنت پر ڈاکہ پڑتے دیکھ کر محل کی چلمن میں جنبش ہوتی ہے۔ملکہ کشور جہاں کی آواز !
‘‘ انگریز بہادر ! ہمیں ہماری شرافت کا یہ انعام دیا جارہاہے۔ ؟ اس گھر کو جو خرابی آپ کی بدولت ہونی تھی وہ ہو چکی،اس سے بدتر اب اور کیا ہوگا۔؟’’ ملکہ کی ڈوبتی ہوئی آواز کا درد چھپ نہ سکا۔
یہ ہیں لکھنؤ کی کچھ خاص جھلکیاں اور تصویریں جن کاسلسلہ جنوب بعید کے سا حلِ سمندر کے قریب کا رہنے والا شیوناتھن اپنی تیسری آنکھ سے دیکھ اور دکھارہاہے۔سریش شرمااور مکیش کپور ان زندہ محرابوں پر پڑی ہوئی تہہ بہ تہہ گرد کو صاف کررہے ہیں جنھیں قصداََ وقت سے پہلے ہی دفنایا جارہاہے۔
یہ محرابیں اور دیوارودر جومیرے سامنےہیں،میں ان محرابوں اور دیواروں سے پرے کھنڈروں میں سوئے ہوئے لکھنؤ کو بیدار کرنے کے لیے آوازیں دے رہاہوں۔کاش کوئی سن سکتا کہ بلندوبالا اور عظیم الشان محلات کے کھنڈروں کی گری پڑی دیواروں پر اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔

تحریر: انس مسرورؔ انصاری
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
سکراول، اردوبازار، ٹانڈہ،امبیڈکرنگر۔224190(یو،پی)
رابطہ نمبر: 9453347784

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے