تحریر خلیل احمد فیضانی، جودھ پور راجستھان
اے خاک وطن اب تو وفاؤں کا صلہ دے
میں ٹوٹتی سانسوں کی فصیلوں پہ کھڑا ہوں
اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ ہوں
کہ مہنگائی کے موسم میں یہ تہوار پڑا ہے
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں دو دن کافی اہمیت و امتیاز کے حامل ہیں, ایک 15/اگست جس میں ہمارا پیارا ملک افرنگی درندوں کے چنگل سے آزاد ہوا اور دوسرا 26/جنوری جس میں ہمارا ملک جمہوری ہوا یعنی اپنے ہی ملک کا بنا یا ہوا قانون اپنے ہی لوگوں پر نافذ کیا گیا-
ان قوانین کا خاکہ تیار کرنے کے لیے اپنے فن کے ایک دانا و زیرک شخص کا انتخاب کیا گیا جس کو آج ہم سب ڈاکٹر بھیم راو امبیڈ کر کے نام سے جانتے ہیں ان کی صدارت میں 29/اگست 1947کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ان قوانین کو مرتب کرنے میں تقریبا 2/سال 11/ماہ اور 18/دن لگے مختلف اجلاس میں ان قوانین کی خوب نوک و پلک سنواری گئی اور ہر ایک گوشہ پر خوب گرما گرم بحثیں بھی کی گئیں بالآخر 26/نومبر/ 1949کو اسے قبول کرلیا گیا۔
اور 24/جنوری 1950کو ایک نشست میں تمام ارکان نے نٔے دستور پر دستخط کردیے بہرحال 26/جنوری 1950کو اس نٔے قانون کو نافذ کرکے پہلا یوم جمہوریہ منایا گیا پھر اسی طرح اس دن کو ہر سال تازہ کیا جانے لگا اور ہر سال 26/جنوری ,,جشن جمہوریت ,یوم جمہوریت وغیرہما کے عنوان سے اس طرح سے منایا جانے لگا کہ 15/اگست 1947کی طرح یہ تاریخ بھی ملک و قوم کی یادگار تاریخ بن گٔی۔
یہ دن اور 15/اگست کا دن یقینا خوشی منانے کے قابل ہے ان دنوں میں ہمیں شریعت مطہرہ کے دائرے میں رہ کر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا چاہیے اور ہندوستان کی تاریخ کی روشنی میں نسل نو کو جواں مردی و دلیری کا پیغام دینا چاہیے اور باطل کے سامنے کس طرح سینہ سپر ہونا ہے یہ سب باتیں ہم لوگ بتاتے بھی ہیں اور بتانی بھی چاہیے
لیکن اس بات کو ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ لہلہاتی بہار اور یہ خوشی و مسرت کا دن ایک دو انگلی کٹادینے یا دو چار بار احتجاج کرنے یا پھر چند جذباتی نعرے لگانے سے ہمیں میسر نہیں آیا بلکہ اس خوشی و شادمانی کے دلربا مناظر کے پیچھے ظلم و ستم و غم اندوہ کے وہ پہاڑ ہیں کہ اگر وہ پہاڑ ہم پر توڑے جائیں تو ہم ریزہ ریزہ ہوجأیں یہ کوئی ہوائی تیر نہیں ہے بلکہ تاریخی حقائق پر مبنی مسلمہ مسٔلہ ہے اگر آپ 1857 سے بھی تاریخ کا حساب کریں گے تب بھی 1947/تک 90/سال بنتے ہیں جو قریبا ایک صدی بنتی ہے یہ نوے سال کا عرصہ بھی ظلم و ستم کا ایک نشان رہا لیکن آپ اس تاریخی اور ظلم و جبر کی داستان کو شروع سے پڑھیں گے تب کہیں جاکر صحیح معنوں میں آپ پر حقیقت منکشف ہوگی
یہ حقیقت آسمان بے سحاب کی طرح صاف ہے کہ 18/ویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے زوال سے انگریزوں کو قدرے ترقی ملی مگر انگریز وں کا پہلا جہاز تو 1601/میں دور جہاں گیری میں ہی آچکا تھا اس حساب سے کلیہ ہندوستان سے انگریز وں کا انخلاء 47/میں ہونا مطلب346/سال بعد میں ہوا اس مدت دراز میں ظلم و ستم کی ایک ایسی داستان رقم کی گٔی کہ جس کا ہر ہر صفحہ مجاہدین آزادی کے خون سے لت پت ہے یہ ہندوستان کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے کہ جس میں سینکڑوں علماکرام کو سولی چڑھا دیا گیا متعدد اکابرین کو جزیرہ انڈمان یعنی کالے پانی اتار دیا گیا کتنے ہی علما کرام نے آزادی وطن کے لیے اپنی ساری زندگی جیلوں میں گزاردی کتنے ہی عوام الناس ظلم و جبر کا نشانہ بناے گٔے
اس وطن کی آزادی کے لیے کتنی ماوں کو اپنے لاڈلے بیٹے سولی پر چڑھانے پڑے کتنے ہی بیٹے اس کی آزادی کے لیے یتیم ہوے کتنی ہی پردہ نشینوں کے سہاگ اجڑے کتنی نٔی نویلی دلہنیں بیوہ ہو گٔیں کتنے ہی یار اپنے یاروں کو داغ مفارقت دے کر چلے گٔے یہ سب لوگ جو جذبہ آزادی سے سرشار سر پر کفن باندھے وطن عزیز کے تحفظ اور اپنی تہذیب کی بقا اور دین اسلام کی بلندی کے لیے بے خطر آتش افرنگ میں کودنے والے اور کویٔی نہیں تھے مسلمان تھے جنہوں نے اپنی بے مثل و بے مثال شجاعت و بہادری و جواں مردی سے یہ باور کرادیا کہ ہم سر کٹا تو سکتے ہیں لیکن سر جھکا نہیں سکتے آج میں یہ بات بلا دغدغہ کہوں گا اور اور یقینا کہنے میں حق بجانب رہوں گا کہ جنگ آزادی میں مسلمانی کی قربانی الگ کرکے ماضی کی تاریخ کو حال کے جھروکوں سے دیکھا جاے تو شاید ہندوستان ابھی تک آزاد نہیں ہوتا
علما و حفاظ و دیگر اسلامی غیرت سے سرشار افراد نے وطن عزیز کی آزادی کی خاطر بے شمار قربانیاں دیں وطن پر آنے والی ہر آفت کو بڑی ہی جواں مردی اور سنجیدگی سے دور کیا اس شجر ثمر آور کی آبیاری کے لیے اپنے خون کو قربان کیا لیکن آج ان شہیدوں کو بھلا یا جارہا ہے آج بزور ظلم تاریخی حقائق کو مسخ کیا جارہا ہے ظالم حکمران مجاہدین اسلام کے تابندہ نقوش کو تاریخ سے خارج کرنے پر تلے ہوے ہیں ایسے پرآشوب و پر فتن حالات میں ہمیں چاہیے کہ غیروں کی کاسہ لیسی ترک کریں اپنے بچوں کو دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کریں ایک کہاوت ہے کہ غلامی کے گھی سے آزادی کی گھاس اچھی ہوتی ہے ہندوستان کو آزاد ہوے ایک عرصہ ہوگیا لیکن آج بھی ہم فکری سیاسی و معاشی اعتبار سے غلام ہی بنے ہوے ہیں اغیار سے توقعات رکھنے سے صدہا درجہ بہتر ہے کہ ہم اپنے اندر سے کویٔی فضل حق تیار کریں اپنے گھر سے کویٔی کفایت علی کافی پروان چڑھاے یقین جانیں کہ اگر ایک ہی فضل حق پیدا ہوگیا تو ہماری عظمت رفتہ بآ سانی عود کرآٔے گی ان شاءاللہ تعالٰی عزوجل