تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
ڈاکٹربھیم راؤ امبیڈ کر(1891-1956) نے سیاسی محاذپر بھی محنت ومشقت کی ہے اور سماجی و معاشرتی محاذ پر بھی ۔ اس مضمون میں ڈاکٹر امبیڈکر کی تبدیلی مذہب ،پونہ پیکٹ ،شودرقوموں کے طبقات،چھ ہزار سے زائد ذاتوں میں مول نواسی قوموں کی تقسیم اور برہمنی دھرم کے ذات پات کے نظام کا ذکر ہے۔
ڈاکٹر امبیڈ کر اور تبدیلی مذہب:
چھوت چھات کے نظریہ کے خلاف ڈاکٹرامبیڈکر(1891-1956) کی تحریک سال 1920سے اپنی موت تک جاری رہی ، لیکن خاطرخواہ کامیابی نہ مل سکی ،بلکہ آج تک چھوت چھات کا رواج بھی جاری ہے اور غیر آرین قوموں کو غلام بنانے کی سازشیں بھی عروج پر ہیں ۔
ڈاکٹر امبیڈکرنے ہندومذہب میں چھوت چھات کے عقیدہ کی مضبوطی ،استحکام وقوت اوراس غیر منصفانہ نظام کودیکھتے ہوئے 13: اکتوبر1935 کوایولا،ناسک (مہاراشٹر) کی ایولاکانفرنس (Yeola Conference)میں کہا کہ میں ہندو دھرم میں پیدا ہوا,لیکن ہندو دھرم پر نہیں مروں گا ۔
تبدیلی مذہب سے قبل ڈاکٹر امبیڈکر نے مختلف مذاہب کا مطالعہ کیا تھا ۔اسلام کا بھی مطالعہ کیا تھا ،لیکن جس طرح 2014میں مرکز میں بی جے پی حکومت کے قیام کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منظم زہر افشانی کی جارہی ہے ،اسی طرح آزادی ہند کی تحریکوں کے عہد میں اسلام ومسلمین کے خلاف منظم سازشیں رچی جاتی تھیں،اسلام وقوم مسلم کے خلاف ماحول سازی کی جاتی تھی ،اورلوگوں کوغلط فہمی میں مبتلا کیا جاتا تھا ۔
ڈاکٹر امبیڈکر نے مذہب اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا تھا ،لیکن ایک پریشانی یہ سمجھ میں آئی کہ اس کی دلت قوم کے لوگ ہندوانہ رسم ورواج کے مطابق زندگی کے تمام معمولات انجام دیتے ہیں،یعنی شادی بیاہ ،اور پیدائش سے موت تک کے تمام رسو م ہندومذہب کے اعتبارسے انجام دیتے ہیں تو اسلام قبول کرنے پر تمام دلتوں سے اس کا رشتہ ٹوٹ جائے گا ،اس لیے ڈاکٹر امبیڈکر نے اپناارادہ بدل لیا اور 14:اکتوبر1956کو ناگ پور میں اپنے حامیوں کے ساتھ بودھ دھر م قبول کرلیا ۔
ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے اسلام میں ذات پات کے نظام کے سبب اسلام قبول نہیں کیا تویہ بات قابل قبول نہیں ۔مذہب اسلام میں ہندومذہب کی طرح ذات پات کا کوئی تصور نہیں ۔ہاں ، اہل تعصب کی جانب سے غلط فہمیاں پھیلانے کے سبب جس طرح آج لوگ الجھن کے شکار ہوجاتے ہیں ، اسی طرح عہدماضی میں بھی کبھی لوگ غلط فہمی کے شکار ہوگئے تویہ تعجب کی بات نہیں ،لیکن اصل حقائق سے واقف وآشنا ہونے کے بعد ہر انصاف پرست انسان مذہب اسلام کے منصفانہ نظام کی خوبیاں بیان کرتا ہے۔
گزشتہ ادوار میں لوگ اسلام کے نظریہ مساوات ، مذہبی اخوت اورمنصفانہ نظام کے سبب ہی دامن اسلام سے وابستہ ہوئے ہیں ،جس کو عام تعبیر میں کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوارسے نہیں ،اخلاق سے پھیلا ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر نے تبدیلی مذہب کے اعلان کے بیس سال بعد بودھ دھرم قبول کیاتھا ۔اگر کسی تعلیم یافتہ انسان کو اسلام سے متعلق کچھ غلط فہمی بھی پیدا ہوجائے تووہ چند دنوں میں ختم ہوجائے گی ،نہ کہ سالوں سال تک باقی رہے گی ۔
دراصل ڈاکٹر امبیڈکر نے ہندو مت کے ذات پات کے نظام سے دل برداشتہ ہوکر تبدیلی مذہب کا ارادہ کیا تھا ۔دنیا میں دوہی مذاہب تھے جو خاص کر ہندومت کے ذات پات کے نظام کے خلاف وجود میں آئے تھے :(1)جین دھرم (2)اور بودھ دھرم۔گوتم بدھ کی تعلیمات آج تک لوگ محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔
امبیڈکر نے بدھ دھرم کواختیار کرکے ہندودھرم کے ذات پات کے نظام کی مخالفت کو ایک مذہبی شکل دیا ۔ قبل مسیح اور بعد مسیح بھی مول نواسی قومیں بدھ مت اور جین مت اختیار کرتی رہی ہیں ۔مول نواسی قوم کی سب سے بڑی بادشاہت ’’موریہ سلطنت ‘‘ کے اشوک سمراٹ نے بودھ دھرم قبول کرلیا تھا اور دنیا کے مختلف ممالک میں بودھ دھرم کی تبلیغ کے لیے مبلغوں کو بھیجا تھا۔اس وقت مول نواسی قوموں نے بھی کثرت کے ساتھ بودھ دھرم قبول کر لیا تھا ۔اس طرح بودھ دھرم مول نواسی قوموں کا ایک قومی اورآبائی مذہب تھا ۔
مول نواسی قوموں کے اکثرلوگ ہندو دھرم کو ترک کر کے بودھ دھرم قبول کرتے رہے ہیں ،حالاں کہ جین دھرم بھی خاص کر ہندو دھرم کے خلاف وجود میں آیا تھا ۔ڈاکٹر امبیڈکر نے بھی اپنی قوم کی تاریخی روایات کے مطابق بودھ دھرم قبول کیا۔
اسلام کی خوبیوں سے آشنا ہونے کے باوجودامبیڈکر نے اسلام کو قبول نہیں کیا، کیوں کہ مذہب اسلام اورہندودھرم کے رسوم ورواج میں زمین وآسمان کافرق تھا ،جب کہ ہندودھرم اوربودھ دھرم کے رسوم ورواج میں بہت حدتک مماثلت تھی ،جسے امبیڈکر کے متبعین آسانی کے ساتھ قبول کرسکتے تھے۔
محمد بن قاسم کی فتوحات کے بعد بھارت میں اسلامی سلطنت قائم ہوئی ،اس کے بعدآرین قوم مسلسل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مشغول ہے ۔مسلمانوں کی آمدسے قبل آرین قوم بھارت کی مول نواسی قوم کے خلاف سازشیں کرتی رہتی تھی۔اپنی اسمرتیوں میں مول نواسی قوم یعنی شودروں کے خلاف قانون سازی کرتی ،یہاں تک کہ ویدوں میں بھی شودروں کے خلاف لکھا گیا ۔ان کی توہین وتحقیر کی گئی ،جس طرح آج مسلمانوں کے خلاف قانون سازی ہوتی رہتی ہے ،اور مسلمانوں کی تحقیر وتذلیل کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں ۔
لوجہاد قانون،طلاق ثلاثہ قانون ،سی اے اے اور دیگر قوانین اور فیصلوں میں مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ کاروائی کی گئی ۔آئے دن اسلامی اصول وقوانین ،مسلم سلاطین اورعام مسلمانوں کے خلاف برہمنی سازشیں کسی سے پوشیدہ نہیں ۔پہلے یہی سب کچھ شودروں کے خلاف ہوتا تھا ۔ یہ آرین قوم کا آبائی پیشہ ہے۔
تعجب تو یہ ہے کہ آج بھی آرین قوم شودروں پر ظلم وستم کرتی ہے ،ان کے خلاف بھی سازشیں کرتی ہے اور پھر شودروں کو ہندوبناکر ان کا ووٹ بھی حاصل کرلیتی ہے ۔ ان کو مسلمانوں کے خلاف ورغلاکر فرقہ وارانہ فسادات بھی کرایا جاتا ہے۔ ان سازشوں کو توڑنے اور مول نواسی قوموں سے مسلمانوں کے ربط وتعلق کی سخت ضرورت ہے۔مول نواسی قوموں کی چندتحریکیں مثلاً بام سیف اوربھیم آرمی وغیرہ کے سبب کچھ باہمی تعلقات فروغ پائے ہیں اور بہت سی غلط فہمیاں بھی دور ہوئی ہیں ،لیکن ابھی ان تنظیموں کے اثرات ملک گیر نہیں ہوسکے ہیں۔
ڈاکٹر امبیڈکر اورپونہ پیکٹ:
شودر مذہبی ہندونہیں۔آج بھی برہمنی نظام میں شودروں کو ادھرمی (لامذہب)تسلیم کیاجاتا ہے،اور سیاسی طورپر ان کو ہند وکہا جاتا ہے ۔ڈاکٹر امبیڈکر نے برہمنوں کی اس چال کو سمجھا اور لندن کی پہلی اوردوسری گول میز کانفرنس1931 & 1930 میں ایس سی اورایس ٹی کے لیے جداگانہ انتخاب کی وکالت کی۔
دوسری گول میزکانفرنس 1931 میں گاندھی جی نے اس کی مخالفت کی ،لیکن برطانوی حکومت نے 17: اگست 1932 کو ایس سی (SC)اورایس ٹی(ST) کے لیے جداگانہ انتخاب کی منظوری دے دی ۔
ڈاکٹر امبیڈ کر کے عہد میں بیک ورڈ طبقہ (پچھڑا ورگ)ڈاکٹر امبیڈکر کی تحریک میں شامل نہیں ہوا تھا، اس لیے ڈاکٹر امبیڈکر نے صرف دلتوں(SC) اورآدی واسیوں (ST)کے لیے جداگانہ انتخاب (Separate Electorate)کی تحریک چلائی تھی۔انگریزی حکومت نے1909 میں مسلمانوں کے لیے الگ انتخاب کا قانون پاس کیا تھا۔اسی طرح لندن کی حکومت نے دلتوں اور آدی واسیو ں کے لیے بھی جدا گانہ انتخاب کا حق دے دیا ۔
گاندھی جی کی مداخلت سے دلتوں اورآدی واسیوں کے جداگانہ انتخاب کا قانون ختم ہوگیا،اورپونہ پیکٹ کا وجودہوا۔ دراصل پونہ پیکٹ دلت اور آدی واسی قوموں کی سیاسی موت اور آرین قوم کی سیاسی حکمرانی کومستحکم کرنا تھا ۔
پونہ پیکٹ (Poona Pact)ایک معاہدہ ہے جو گاندھی جی اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر کے مابین 24:ستمبر1932 کو پونہ شہرمیں طے پایا ۔گاندھی جی نے پونہ جیل میں قید وبندکے عہدمیں مرن برت (موت کا روزہ) رکھ کر ڈاکٹر امبیڈکر سے اسے منظورکرایاتھا ۔ اس معاہدہ میں یہ بات پاس ہوئی کہ تمام غیر مسلم (Non-Muslims) کا عام انتخاب (General Electorate ) ہوگا اور دلتوں کے لیے محکمہ قانون ساز(پارلیامنٹ واسمبلی)میں اٹھارہ فی صدسیٹ خاص(Reserved) کی جائے گی۔
اگرجدا گانہ انتخاب کا قانون باقی رہتا تو جتنی سیٹ ان کے لیے مقرر کی جاتی ،ان سیٹوں پرسیاسی پارٹیاں اپنے امیدوار نامزد نہیں کرسکتی تھیں۔ان سیٹوں پر صرف دلتوں اور آدی واسیوں کی پارٹیاں ہی اپنے امیدوار نامزد کرتیں ،اس طرح دلتوں اور آدی واسیوں کو سیاسی قوت حاصل ہوجاتی ۔
جداگانہ انتخاب کے بدلے دلتوں اور آدی واسیوں کو ریزروسیٹ دی گئی ہے،جہاں صرف انہی قوموں کے امیدوار نامزد ہوسکتے ہیں ۔اس ریزرویشن سے یہ نقصان ہواکہ ان سیٹوں پرسیاسی پارٹیاں اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں اوروہ امیدوار دلت یا آدی واسی ہوتا ہے ،لیکن جو جس پارٹی کا امیدوار ہوگا ،اس کو اسی پارٹی کے اشارہ پر کام کرنا ہوگا ۔اس طرح دلت یا آدی واسی ایم پی اور ایم ایل اے اپنی پارٹیوں کے غلام بنے رہتے ہیں۔
ایسے ایم پی یاایم ایل اے اپنی قوم کے لیے کچھ کام تونہیں کرپاتے ہیں،لیکن یہ لوگ اپنی قوموں کو سیاسی پارٹیوں کا غلام ضرور بنادیتے ہیں اور بھارت میں برہمنی حکومتوں کواستحکام فراہم ہوتا ہے ۔
اصل شودر کون لو گ ہیں؟
برہمنی نظام کے ذات پات سسٹم میں پچھڑاورگ ،شودر(غلام ) شمار ہوتا تھا اور دلت(SC) اور آدی واسی (ST) انسانی دائرہ سے باہر اور حیوانوں سے بدتر شمار ہوتے تھے۔آج بھی یہی حال ہے۔
آج شودر قوموں میں ایس سی، ایس ٹی ،اورپچھڑا ورگ تینوں کا شمار ہوتا ہے۔دلتوں کو اتی شودر(Ati Shudra)کہا جاتا ہے۔
اصلی شودریعنی بچھڑا(بیک ورڈ کلاس) کے تین مشہور طبقات ہیں :
(1)اپر بیک ورڈکلاس
(Upper Backward Class-UBC)
(2)موسٹ بیک ورڈکلاس
(Most Backword Class-MBC)
(3)دیگر بیک ورڈکلاس
(Other Backward Class-OBC )
اپربیک ورڈکلاس میں جاٹ ،گوجر ،پٹیل ،کائستھ وغیرہ ہیں ۔یہ لوگ برہمنوں کی غلامی میں مستحکم ہیں ۔ چوں کہ یہ لو گ مالی اعتبار سے مضبوط ہیں ،اس لیے ان کے لیے حکومتی ملازمتوں میں ریزرویشن نہیں۔اوبی سی اور ایم بی سی کے لیے ریزرویشن ہے،پھرایس سی اور ایس ٹی کے لیے۔
بی جے پی حکومت نے غریب برہمنوں اورآرین قوم کوبھی ریزرویشن دیا ہے۔یہ لوگ ای بی سی (Economically Backward Class)کہلاتے ہیں۔ اس میں ایس سی ،ایس ٹی ،اوبی سی اورایم بی سی کے علاوہ وہ ذاتیں شامل ہیں جن کی سالانہ آمدنی ڈھائی لاکھ سے کم ہو۔
درج فہرست قبائل:
آریوں سے شکست کے بعد مول نواسی (اصل بھارتی باشندہ)قوم کا ایک بڑا طبقہ جنگلوں کی طرف بھا گ گیاتھا ۔ یہ لوگ آدی واسی (ST-Scheduled Tribes)ہیں۔
درج فہرست ذاتیں:
آبادی میں رہنے والے جن مول نواسی لوگوں نے غلامی قبول نہیں کی ،ان کو اچھوت (Untouchable) قرار دیاگیا ۔یہ لوگ ایس سی (SC-Scheduled Castes)ہیں ۔
پچھڑاورگ :
آبادی میں رہنے والی مول نواسی قوموں میں سے جن لوگوں نے آر یوں کی غلامی قبول کی ،ان کو سچھوت (Touchable)قراردیا گیا ۔یہ لوگ بیک ورڈ (پچھڑا ورگ) ہیں ۔
مول نواسی قوم کی مختلف ذاتوں میں تقسیم:
برہمنوں نے ویدک عہد ہی میں اپنی حکومت کومضبوط کرنے کے واسطے رفتہ رفتہ شودروں کو چھ ہزار سے زائد ذاتوں میں تقسیم کردیا ، تاکہ مول نواسی قوم متحد ہوکر آرین حکومت کے لیے مصیبت نہ بن جائے ۔
ایس سی کو سترہ سو تین (1703)،ایس ٹی کو آٹھ سوایک (801)اور پچھڑاورگ کو تین ہزار سات سوتینتالیس (3743)ذاتوں میں تقسیم کیا ۔
آریوں نے مول نواسی قوم کو کئی ہزار ذاتوں میں تقسیم کردیا ، تاکہ یہ لوگ متحد نہ ہوسکیں اورہماری حکومت برقرار رہے۔ پھوٹ ڈالو اورحکومت کرو(Divide & Rule)کی سیاست انگریزوں نے برہمنوں سے سیکھ کر اپنائی تھی ۔انگریزوں نے بھارتیوں کو صرف دوگروپ یعنی ہندو مسلمان میں تقسیم کیاتھا ۔
گاندھی جی نے سال 1932 میں دلت قوم کوہریجن (Harijan)کا لقب دیا ۔ڈاکٹرامبیڈکر نے اس لقب کوپسندنہ کیا ،اور دستور ہند میں دلت قوم کودرج فہرست ذات (Scheduled Caste) لکھا ، پھر سرکاری کاغذات میں بھی یہی لکھا جانے لگا۔
برہمن لوگ اپنی تعداد بڑھانے کے واسطے بھارتی مذاہب (ہندومت،بودھ مت،سکھ ازم،جین مت)کوہندودھرم کا حصہ قرار دیتے ہیں ،لیکن بودھ ،سکھ اورجینی وغیرہ اپنے ہندوہونے کا انکار کرتے ہیں۔
کئی سالوں سے کرناٹک کے لنگایت دھرم والے اپنے ہندوہونے کا انکارکررہے ہیں اورحکومت سے اپنی جداگانہ مذہبی شناخت کامطالبہ کررہے ہیں۔آدی واسی اپنے ہندوہونے کا انکار کرتے رہے ہیں اوراپنے جد ا گانہ مذہبی کوڈکا مطالبہ کررہے ہیں۔
برہمنی دھرم میں ذات پات کا نظام:
بھارتی تاریخ بتاتی ہے کہ مول نواسی قوم بھارت کی اصل باشندہ اوربھارت کی حکمراں قوم تھی ۔اس قوم کو’’دراوڈ‘‘ کہا جاتا تھا ۔ جب وسط ایشاسے آرین قوم بھارت منتقل ہوئی توآریوں نے ملکی باشندوں پربہت ظلم وستم ڈھایا اور حیلہ بازیوں سے ان کی حکومت پر قبضہ کرکے انہیں اپنا غلام بنالیا۔
آریو ں نے چار طبقات میں انسانوں کوتقسیم کیا:
(1)برہمن (مذہبی امور سرانجام دینے والی قوم)
(2)کھتری(حکومت اورفوجی خدمات انجام دینے والی قوم)
(3)ویش(زراعت وتجارت کرنے والی قوم)
(4)شودر(مذکورہ تینوں اقوام کی خدمت انجام دینے والی قوم)
بھارت کے اصل باشندوں کوآریہ قوم نے ’’شودر‘‘ قرار دیا۔
ڈاکٹر امبیڈ کر نے اپنی کتاب ’’Who Were The Shudras‘‘میںبرہمنوں کی اس سازش کوبہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس فکر کے تحریر ی مآخذپر زبردست تنقید کی ہے۔
امبیڈکر نے کتاب کے مقدمہ میں لکھا کہ چارذاتوں میں تقسیم کا نظریہ نہ ہی فطرت کے مطابق ہے ،اورنہ ہی یہ کوئی باعظمت خیال ہے یعنی ناقابل قبول ہے۔
امبیڈکرنے لکھا:
"The general proposition that the social organization of the Indo-Aryans was based on the theory of Chaturvarnya and that Chaturvarnya means division of society into four classes-Brahmins(priests), Kshatriyas (soldiers), Vaishyas (Traders) and Shudras (menials) does not convey any idea of the real nature of the problem of the Shudras nor of its magnitude.”(Who Were The Shudras? Preface xi)
ترجمہ: عام نظریہ کہ ہندوآرین سماجی ڈھانچہ کی بنیاد چتور ورنا(چارذات) پر ہے ،اور چتور ورنا کا مطلب ہے سماج کی چارذاتوں برہمن (پجاری ) ،کھتری (فوجی )،ویشیا(تاجر)اور شودر (غلام/نوکر)میں تقسیم ۔یہ نظریہ نہ تو شودروں کے مسئلہ کا اصل فطر ت کے مطابق کوئی نظریہ بیان کرتا ہے، اورنہ ہی یہ اپنی اخلاقی عظمت کوظاہر کرتا ہے۔(یعنی یہ خیال خلاف فطرت اور اخلاقی عظمت کے خلاف ہے)