استعماری سازشوں کے مقابل تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے لیے آپ نے مسلمانوں کو بیدار کیا
تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی
[نوری مشن مالیگاؤں]
بندۂ مومن سے باطل قوتیں خوف زدہ ہیں۔ اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلِ رواں سے انھیں یہ خدشہ ہے کہ بالآخر دُنیا میں اسلام رہ جائے گا۔ ان کی صدیوں کی کاوش کا یہ نچوڑ تھا کہ مسلمان کا رشتۂ غلامی؛ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ سے توڑ دیا جائے تو مسلمان بہ آسانی مفتوح ہو جائے گا۔ اپنے اِس مشنِ گستاخی و توہین کے دَوام کے لیے تمام باطل قوتیں یکجا ہیں۔ یہی سبب ہے کہ:
[۱] رسول اللہ ﷺ کے گستاخ گروہ بالخصوص قادیانیت وغیرہ کی بھرپور معاونت کی جا رہی ہے، اس میں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ سمیت سبھی استعماری قوتیں شامل ہیں۔
[۲] رسول اللہ ﷺ کی توہین کرنے والوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے، گستاخ کو مال، سیکوریٹی اور اقتدار کی معاونت سے نوازا جاتا ہے۔ جس سے ایسی جرأت کو حوصلہ ملتا ہے۔
[۳] رسول اللہ ﷺ سے منسوب توہین آمیز خاکوں کو رواج دیا جا رہا ہے۔ آزادیِ اظہار کے نام پر یہ دہشت گردی مسلسل جاری ہے۔
[٤] عقیدۂ ختم نبوت و ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے پڑوسی ملک میں بنائے جانے والے ١٩٧٤ء کے ایکٹ کے خلاف ہمیشہ استعماری قوتیں سرگرمِ عمل رہی ہیں۔ یا اس کی شقوں میں لچک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی-
[۵] انصاف و دیانت کے تقاضوں سے انحراف کی شکل میں کسی گستاخ کو کوئی دیوانۂ مصطفیٰ کیفرِ کردار تک پہنچا دے؛ تو اس کے خلاف آناً فاناً کورٹ، حکومتیں، مشنریز، عالمی طاقتیں متحرک ہو جاتی ہیں۔ فوراً پھانسی یا موت کی سزا سُنا کر عاشقِ رسول کوخاموش کر دیا جاتا ہے:ع
صلۂ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ
دوسری سمت گستاخ آزاد ہوتا ہے۔ اُس کے مقدمات التوا کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ حکومتیں گستاخوں کو پناہ دے کر مسلمانوں کو پیغام دیتی ہیں کہ ہم بھی گستاخوں کی تائید میں ہیں۔
یہی اسباب ہیں جن کی بنیاد پر امیرالمجاہدین عاشقِ رسول شیخ الحدیث علامہ خادم حسین رضوی (وصال: شبِ جمعہ۴؍ربیع الآخر۱۴۴۲ھ/۱۹؍نومبر۲۰۲۰ء) جیسے مردِ حق آگاہ کی ذات اُبھر کر سامنے آئی۔ آپ نے ناموسِ رسالت ﷺ کے محافظ غازی ممتاز قادری کی تائید میں لاکھوں عاشقانِ رسول کے ساتھ احتجاج درج کرایا۔ ان کا احتجاج وقتی نہیں؛ مسلسل تھا۔ نمائشی نہیں عملی تھا؛ تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے گرفتاریوں، آزمائشوں اور صعوبتوں سے گزرے۔ ایک ایسا شخص جو وہیل چئیر پر چلتا ہو؛ وہ عزم و یقیں کے کئی چراغ جلا گیا۔ وہ جِیا تو ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے؛ اُس کے عزم کے آگے یورپ لرزہ براندام تھا، اس کے یقین کے آگے امریکہ اور استعماری قوتیں حواس باختہ تھیں۔ فرانس کے گستاخانہ اقدامات کے خلاف کوڈ۔۱۹ کی وَبا کے سخت حالات میں بھی آپ نے ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے عزمِ آہنی کے ساتھ ریلی منعقد کی۔ یورپی میڈیا گھبرا گیا۔ حکومتیں سٹپٹا گئیں۔
علامہ خادم حسین رضوی مشرباً نقشبندی تھے؛ لیکن ناموسِ رسالت ﷺ کے فِدائی اعلیٰ حضرت سے متاثر تھے، اِسی لیے ’’رضوی‘‘ نام کا حصہ بن گیا۔ اقبالؔ کی فکر ’’کی محمد ﷺ سے وَفا تو نے تو ہم تیرے ہیں‘‘ کو مطمح نظر بنایا، اور اپنے مرشدِ اجازت حضور تاج الشریعہ کے پیغام’’نبی سے جو ہو بیگانہ اسے دل سے جُدا کر دیں‘‘ کو اُصول قرار دیا۔ ساری دُنیا میں جتنے اسلام دُشمن ہیں؛ وہ سب علامہ خادم حسین رضوی کے دُشمن بن گئے۔ سب اس مردِ آہن سے خوف زدہ ہیں۔
ملعونہ آسیہ کو پڑوسی ملک نے اہانت رسالت کے بعد استعمار کے سائے میں پناہ دلوائی تو یہی مردِ مجاہد میدان میں آیا۔ اور گستاخِ رسول کے خلاف سینہ سپر رہا۔ جب جب رسول اللہ ﷺ کی بے ادبی کے لیے مغربی شیاطین نے جسارت کی؛ پوری قوت کے ساتھ ان کے خلاف عاشقانِ رسول کو جمع کر کے عالمی سطح پر احتجاج درج کرایا۔ وہ سر سے کفن باندھ کر آتا تھا؛ وہ مخلصانہ جدوجہد کرتا تھا۔ اس لیے اس کا مشن زندہ رہے گا۔ اس کی گونج "لبیک یارسول اللہ ﷺ” کے سائے میں حرارت ایمانی بڑھاتی رہے گی-
قارئین! یاد رکھیں کہ معافی، عفو و دَر گزر اور مصالحت آپسی معاملات اور ذاتیات میں ہوتی ہیں؛ ناموسِ رسالت ﷺ میں توہین اور گستاخی وہ جرمِ عظیم ہے جس میں معافی و دَر گزر کا سوال ہی نہیں ہے، بلکہ یہاں اسلامی غیرت و حمیت کا امتحان ہوتا ہے۔ یاد رکھیں! اگر آج گستاخی پر نگاہیں موند لی گئیں تو پوری قوم مار دی جائے گی؛ ہم نے ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے پوری طاقت و حکمت کے ساتھ میدانِ عمل میں مظاہرہ کیا تو فِدا کاری کا جذبہ قوم کی حیات کا تازہ باب رقم کرے گا۔ یہی تاریخ علامہ خادم حسین رضوی نے رقم کی۔ قوم کو غیرت کے اسباق پڑھائے۔ بزدلی کے دروس نے آج ہماری قوم کو کہاں پہنچا دیا؟ یہ مشاہدہ ہے کہ اصنامِ باطلہ کے حامی مسلمانوں کو مِٹا دینے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دیر و کلیسا کے متشدد چہرے ہمیں دُنیا کے کئی خطوں میں دوڑا دوڑا کر ختم کر رہے ہیں۔ ہماری ہی زمیں، ہمارے ہی علاقے، ہمارے لیے مقتل بن چکے ہیں۔ کئی عرب ملکوں کا سُہاگ لُٹ چکا ہے۔ یمن کی تاراجی جاری ہے۔ عراق و شام کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا چکی ہے۔افغانیوں پر کوہِ غم ٹوٹ چکا ہے۔ بیروت کی صبحیں شامِ غم کا نوحہ سُنا چکی ہیں۔ بعض مسلم مملکتیں جن سے مسلمانوں کا فائدہ ہونا تھا؛ وہ اسلام دُشمن قوتوں اور صہیونی طاقتوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔
جن مملکتوں کو ناموسِ رسالت ﷺ کا پہرے دار بننا تھا؛ وہ اسرائیل کی چاپلوسی میں مگَن ہیں۔ وہ اسرائیل دوستی کی راہیں ہموار کر کے فلسطینی مسلمانوں کے قتلِ عام کی موئید ہیں۔المیہ یہ کہ توہینِ رسالت کے معاملات میں مجرمانہ خاموشی کے شکار ہیں۔ جو کام مسلم حکومتوں کا تھا؛ وہ ایک وہیل چئیر پر براجمان بزرگ نے انجام دیا۔ وہ تنہا تھا لیکن پوری انجمن کا کام کر گیا۔ وہ معذور تھا لیکن بڑی قوتوں کا مالک تھا۔ وہ ضعیف تھا لیکن لاکھوں جوانوں سے زیادہ طاقت رکھتا تھا۔ وہ تنہا تھا، وہ بیمار تھا! نہیں نہیں وہ تو وہ تھا کہ جس کے لیے یہ شعر صادق آتا ہے؎
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد ﷺ سے اُجالا کر دے
علامہ خادم حسین رضوی نے قوتِ عشق رسول ﷺ سے جہان میں اُجالے برپا کیے۔ مسلمانوں میں محبتوں کی جوت جگائی۔ اور شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم نوریؔ کے اِس درس کا اعادہ کرتے رہے؎
یہ اِک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں
تِرے نام پر سب کو وارا کروں میں
علامہ خادم حسین رضوی کی رحلت عہدِ عزیمت کا نقصان ہے۔ عہدِ استقامت کا رُخصت ہونا ہے۔ ان سے عقیدت کا تقاضا ہے کہ مسلمان اُٹھ کھڑے ہوں۔ لاکھوں خادم حسین رضوی بن جائیں۔ بزدلی کے مقابل استقامت کی راہ اپنائیں۔ غیرتوں کی صبح طلوع کریں۔ بزدلی کی شامیں؛ قوم کی موت کا پیغام ہوتی ہیں۔ جہان میں اسلامی شناخت کے ساتھ جئیں۔ رسول اللہ ﷺ سے رشتۂ غلامی کو مضبوط کریں۔ یاد رکھیں! یہ عہد اگر غفلت میں گزار دیے تو پھر مٹا دیے جائیں گے۔ ہماری حمیت و غیرت کا تقاضا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ناموس کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ یقیناً ایمانی قوت سہارا دے گی اور قومی غیرت بیدار ہو گی؛ جس کا راست فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہمیں مٹانے کا منصوبہ بنانے والے سرنگوں ہوں گے۔ قافلۂ عشقِ رسول اپنی منزل فضائے حجاز میں فروکش ہوگا۔ یقیں کی منزل پر کامیابی کے علَم نصب ہوں گے؎
یہ نغمہ فصل گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الااللہ
علامہ خادم حسین رضوی کی رحلت نے ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے ان کے عزمِ محکم کا اعادہ کر دیا۔ جنازہ میں لاکھوں سَروں کا سمندر اس بات کا اشارہ تھا کہ اگر مسلمان محبت رسول ﷺ کے نام پر بیدار ہو گئے تو یقیناً ایوانِ کفر لرز اُٹھے گا۔ اور مٹانے والے خود مٹتے چلے جائیں گے ؎
مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا